شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 40
قدرت ہر جانور کو اس کے ماحول اور ضرورت کے مطابق خصوصیات عطا کرتی ہے ..... وہ جانور جو گھنے جنگلوں میں رہتے ہیں ان کو زیادہ دور تک دیکھنے کی نہ ضرورت ہوتی ہے نہ مواقع ..... تھوڑے فاصلے پر ہی نظر کو کام کرنے کی احتیاج ہوتی ہے ..... اس لیے قدرت نے اس کو نزدیک دیکھنے کی طاقت دی ہے ..... البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شیر اندھا ہی ہوتاہے ..... درخت پر بیٹھے ہوئے آدمی کو شیر اپنی موت کا فرشتہ خیال کرتے ہوئے بہت ڈرتا ہے ..... اور ذرا بھی شبہ ہو تو بچنے کی تدبیر کرتا ہے ..... یہ درست ہے کہ شیر کی دور کی نظر نہیں ہوتی ۔دور سے انسان اور د رخت میں تمیز نہیں کرسکتا نہ دیکھ سکتا ۔جنگل کے بادشاہ کو قریب کی نظر اور سونگھنے کی حس دینے میں اللہ کی حکمت ہے تاکہ اسکی درندگی اور وحشت سے جانور و انسان بچیں بھی رہیں
یہ توصرف انسان ہے کہ اپنی جان خطرات میں ڈالتا ..... زک اٹھاتا ..... اور ہلکان ہوتا ہے لیکن پھر وہی کام کیے جاتاہے ..... سبق نہیں سیکھتا ..... انسان کا حال تو یہ ہے کہ جس کام میں جتنا زیادہ جان کا خطرہ ہو اتنا ہی زیادہ اس کام میں دلچسپی لے کر اس کو انجام دینے کی فکر میں رہتا ہے .....
شیر اور چیتے کے شکار کی دشواری ..... جان کا خطرہ ..... اور بار ہا شیر کا لقمہ تر بنتے بنتے بچ جانے کے بعد ..... میں اس کام سے باز نہیں رہتا ..... کئی بار شیر نے ایسا حملہ کیا کہ چند فٹ کا فاصلہ رہ گیا ..... مجھے خود سخت تشویش ..... بلکہ خوف ہوا ..... یہ کہنے میں مجھے کوئی شرم نہیں کہ میں ڈرا ..... میں ڈرتا بھی ہوں ..... مجھے اپنی جان بھی پیاری ہے ..... میں کوئی بڑا بہادر رستم بھی نہیں ہوں ..... لیکن میں جھوٹ نہیں بولتا ..... حقیقت کو تسلیم کرنے میں مجھے قطعاً باک نہیں ..... ہر دفعہ شیر کے حملے سے بچ جانے کے بعد مجھے اپنی جان کا خوف ہوا ..... اور میں نے یہ بھی سوچا کہ میں آخر یہ کام کیوں کر رہا ہوں ..... مجھے اس سے کیا حاصل ہے ..... پیسہ ضائع ہوتا ہے ..... وقت تلف ہوتا ہے ..... اگر وہ وقت جو میں شکار میں صرف کرتا ہوں کسی تخلیقی کام میں لگاؤں تو شاید علم و ادب کی خدمت ہی ہو ..... لیکن میں یہ سب سوچنے کے باوجود موقعہ ملتے ہی شکار کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہوں ..... شیر کے ایک شکار پر ..... جب میں پاکستان سے ہندوستان جاتا تھا ..... کم از کم پانچ چھ ہزار روپے خرچ ہوجاتا تھا ..... جو 1950ء سے 1964ء تک ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی ..... لیکن میں ہر سال کم از کم تین بار ضرور ہندوستان جاتا تھا اور دو تین ہفتے قیام کر کے شکار سے آسودہ و مطمئن واپس آتا .....
خود پاکستان کے اندر ..... شکارپر جانے میں ..... جو تین سے سات دن تک کے عرصے کا ہوتا تھا ..... ہزار پانچ سو روپیہ خرچ آتا ..... اس میں پٹرول کا خرچ ..... کھانے کا خرچ رہنے کے مصارف ..... جو مقامی مددگار ہوجائے اس کو بیس تین روپیہ بخشش ..... شکار کے لائسنس کی فیس ..... اگر شکار کی جگہ کوئی ریسٹ ہاؤس وغیرہ نہ ملے تو پھر کسی کے گھر کے کمرے میں قیام اور اس کا کرایہ ..... غرضیکہ خر چ تو ہوتا ہی تھا ..... شکار خرچ والاکام ہے ..... اس لیے اس کا شاہ کار کہا گیا ہے .....
امریکہ میں شکار کا خرچ زیادہ ہے ..... اور ہونا بھی چاہیے ..... اگر یہاں شکار ارزاں کر دیا جائے تو ہر کوئی اس کام پر کمر باندھ لے ..... ہتھیار تو سبھی کے پاس ہوتے ہیں ..... اور اب جو شکار افراط ہے وہ ایک سال میں ہی قلت سے بدل جائے .....
میں ایک بار فائرنگ رینج پر مشق کے لیے جاتا ہوں تو رینج کی فیس کے علاوہ کم از کم تیس ڈالر کے کارتوس فائر کردیتا ہوں ..... اور یہ کام میں ہر ماہ دوبار ضرور کرتا ہوں ..... اس طرح نہ صرف یہ کہ میرا نشانہ قابل اطمینان رہتا ہے بلکہ کان رائفل کی آواز سے مانوس رہتے ہیں .....
خرچ تو ہوتا ہی ہے ..... ؟ اس طرح خرچ معلوم بھی نہیں ہوتا ..... لیکن اگر سارے چھوٹے بڑے اخراجات کا حساب رکھا جائے اور ان کے مجموعے پر نظر ڈالی جائے تو دیکھنے والاحیران ہو ..... !
غرضیکہ ..... شیر کی نظر نزدیک کی ہوتی ہے ..... !
جو جانور میدانی علاقوں میں ہوتے ہیں ..... ان کو اپنی حفاظت کے لیے دور تک کے فاصلوں پر دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ..... اس لیے قدرت اس کو دور بین نظر عطا کرتی ہے ..... ہرن میدان میں رہنے والاجانور ہے ، گھنے جنگل میں کبھی نہیں ہوتا ..... اس کی نظر تو تیز ہوتی ہے ..... قوت شامہ ..... یعنی سونگھنے کی قوت بھی زبردست ہوتی ہے ..... اگر ہوا شکاری سے ہرن کی طرف جارہی ہو تو میل ڈیڑھ میل کے فاصلے سے ہرن میدان کی مختلف خوشبوؤں میں ملی ہوئی شکاری کی بو سونگھ لیتا ہے اور ہوشیار ہو جاتا ہے .....
خود میری قوت شامہ اتنی قوی ہوگئی ہے کہ تین سو گز کے اندر موجود جانور کی بو سونگھ لیتا ہوں اور جانور نظرنہ بھی آرہا ہو تب بھی یہ ضرور سمجھ لیتا ہوں کہ وہ آس پاس موجود ہے ..... اس حال میں کہ ہوا جانور پر سے گزر کر میری طرف آرہی ہو ..... اسی طرح خطرات کی حس بھی مجھے قدرت نے عطا کی ہے ..... اگر میرے اطراف میں کوئی اذیت رساں جانور موجود ہو ..... سانپ ہو ..... یا اور کوئی خطرہ درپیش ہو ..... تو مجھے اس کا احساس ہوجاتا ہے .....
لیکن مجھے یہ حس سالہا سال جنگلوں ویرانوں میں گھومنے ..... شکار کرنے اور ارادتاً اس حس کی تقویت دینے کی کوشش کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے ..... اور اللہ تعالیٰ سبحانہ کی خاص عنایت و کرم سے ..... الحمداللہ .....
اس وقت بھی ..... جبکہ میں درخت کی شاخ پر کھڑا ..... رائفل کی نال گھاس کے اس قطعے کی طرف کئے تھا جدھر سے شیر کے نکلنے کی امید تھی ..... میری چھٹی حس خطرے سے آگاہ کر رہی تھی ..... اور میں جانتا تھا کہ گھاس میں کچھ نہ کچھ ہے ضرور ..... اور خطرناک جانور ہے ..... اس علاقے میں آدم خور کے علاوہ اورموذی کون ہوسکتا تھا ..... !
اور وہی ہوا جس کی توقع تھی ..... گھاس میں سے ایک نہایت زبردست جسامت کا صحت مند و سالم نر شیر بہت سکون کے ساتھ برآمد ہوا ..... چند قدم چل کر ذرا ٹھہرا ..... اور اپنا ایک پنجہ اٹھا کر اس کو زبان سے چاٹا ..... یہی اس کی موت کا لمحہ تھا .....
میری انگشت شہادت نے ٹریگر پر اتنا دباؤ ڈالا کہ ایک بار دھماکہ ہوا ..... میرے شانے پر زبردست دھکا لگا ..... اور شیر زمین پر گر گیا ..... اس کا جسم زمین پر اور چاروں ہاتھ پیر آسمان کی طرف اٹھے ہوئے تھے..... ان پر رعشہ طاری تھا .....
میں نے بلاتا مل دوسرا کارتوس چیمبر میں ڈالا ..... اور اس کے سینے کا نشانہ لے کر ایک فائر اور کیا ..... اس بار بھی گولی بحمداللہ صحیح لگی..... اور شیر کے اٹھے ہوئے ہاتھ پیر یکبارگی زمین پر بکھر گئے ..... جسم میں ایک دو تشنج کی لہریں آئیں اور ساکت ہو گیا .....
میں نے تیسرا کارتوس چیمبر میں لگایا لیا تھا ..... اور اب بھی شیر کا سینہ میرے نشانے پر تھا ..... لیکن مزید فائر کی ضرورت معلوم نہیں ہوئی ..... پانچ منٹ اس حالت میں گزرے ..... تو میں نے رائفل نیچے کر لی ..... پہلے ہی میں رائفل شانے سے لگائے لگائے تھک چکا تھا .....
فائر کرنے کے بعد جنگل میں جو کہرام بپا ہوتا ہے اس کا اندازہ مجھے کبھی نہیں ہوتا ..... اس لیے کہ میں اس وقت شکار کے آخری لمحات میں اس قدر محو ہوتا ہوں کہ دنیا و مافیہا کا ہوش نہیں ہوتا ..... میری ساری ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں اس وقت صرف ایک نقطے پر مرکوز ہوتی ہیں ..... ساری توجہ صرف شکار پر ہوتی ہے ..... اس وقت اگر ساری دنیا مل کر ہم قسم کا شورو غل ..... چیخ پکار اور دھماکے کرے تب بھی مچھ پر اثر نہیں ہوسکتا .....
میں نے چالیس منٹ انتظار کیا ..... شیر کی لاش میں کوئی حرکت نہیں ہوئی تو میں نہایت آرام سے درخت سے اترا ..... موزے درست کر کے جوتے پہنے ..... لیکن اس دوران رائفل قریب اور نظریں بار بار شیر کو دیکھتی رہیں ،جوتے پہن کر میں اٹھا ..... رائفل کی نال شیر کی طرف کیے ..... اور ٹریگر پرانگلی رکھے ..... میں ادھر بڑھا .....
اللہ اکبر ..... کیا زبردست شیر تھا ..... اور کس قدر ہیبتناک ..... نجانے اس کو آدم خوری کی لت کیوں لگی .....میں نے اس کی لاش کو جھاڑیوں اور گھاس سے اچھی طرح چھیا دیا اور اورقریب ہی تیمم کر کے ظہر کا دوگانہ ادا کیا ..... پھر ایک پان کی گلوری منھ میں رکھی اور نہایت اطمینان سے گاؤں کی طرف واپس ہوا ..... جہاں عظمت میاں میرے منتظر تھے ..... !(جاری ہے)