شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 41
بھگت گڑھ کا آدم خور
وہ جو پایاب ندی آبادی کے مشرق سے گزرتی تھی ..... اس کا چوڑا پاٹ کنکروں پتھروں کا بستر معلوم ہورہا تھا ..... اس زمانے میں گو اس کے وسط میں ..... آبادی سے کوئی بیس گز دور ایک پتلی سی پانی کی دھار بہہ رہی تھی ..... اور دوسرے کنارے کی طرف ..... کوئی چالیس گز پر ..... وہ جنگل سے ڈھکی پہاڑی تھی جس کا نہ سرا نہ دم ..... نجانے کہاں شروع ہوتی اور کہاں ختم ..... ایک کہانی کی طرح تھی جو شروع ہوگئی ہو لیکن ختم نہ ہوتی ہو .....
وہ گھر جس کا صحن اور رخ ندی کی طرف تھا ..... اس کے آنگن کی کمر کمر تک اونچی مٹی کی دیوار کے باہر ..... ندی کے عین سامنے ..... مٹی کے چولہے میں آگ سلگ رہی تھی ..... لکڑیاں جل رہی تھیں ..... چولہے پر مٹی کی پکی ہانڈی میں نجانے کیا پک رہاتھا ..... جو کچھ پک رہا ہوگا وہ جل بھن کر خراب ہوگیا ہوگا ..... ہانڈی سے تو اب دھواں اٹھ رہا تھا ..... جیسے ہانڈی کے اندر کچھ تھا وہ جل گیا ..... بوبھی ایسی ہی تھی .....
شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 40 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
صحن کے دوسرے جانب کسی قدر بلند زمین پر ایک کمرے کا گھر تھا ..... ان دیہاتوں میں اکثر گھر اس طرح ایک کمرے کے ہوتے ہیں ..... ان غریبوں کو تقسیم خانہ کا علم نہیں ..... وہ تویہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اس دنیا میں گھر تو گھر ..... ملک تقسیم ہو جاتے ہیں ..... اور تقسیم بھی خواستہ یا نخواستہ ..... یہ دنیا ہی ایسی ہے کہ یہاں تقسیم کی بڑی اہمیت ہے ..... گھر ..... ملک و مال ..... دولت ..... سب تقسیم ہو سکتے ہیں ..... بس ایک انسانی جسم ہے جو تقسیم کی زحمت سے بچ گیا ہے ..... !
چولہا جل رہا تھا ..... ہانڈی سے دھواں اٹھ رہا تھا ..... ہانڈی میں جو کچھ تھا وہ بھی جل کر بوپھیلا رہا تھا چولہے کے قریب ہی کچھ برتن بے ترتیب پھیلے تھے .....ایک طرح کونڈے میں آٹا گندھا ہوا مٹی کی ایک رکابی سے ڈھکا رکھا تھا .....
گھر سے دو چار گز کے فاصلے پر برگد اور املی کے فلک بوس درختوں کے درمیان چھوٹا سا باڑا تھا جس میں تین بیل اور دو گائیں تھیں اور نزدیک ہی مراری اپنے جانوروں کے لیے چارہ کاٹ رہا تھا ..... اس کا گنڈا سہ ایسی ترتیب اور تسلسل کے ساتھ چل رہا تھا کہ اس میں ایک موسیقیقت پیدا ہوگئی تھی .....
اور اچانک اس کاہاتھ رک گیا ..... اس نے گھوم کر رسوئی کی طرف دیکھا ..... سبزی کے جلنے کی بوتو آرہی تھی ..... ہانڈی جل گئی.....
اس نے سوچا یہ نیک بخت چندی رسوئی سے اٹھ کر چولہا جلتا چھوڑ کر کدھر چلی گئی ..... ؟ ہانڈی جل گئی اور اس نے چندی کو آواز دی.....
’’ہانڈی جل گئی نیک بخت ..... ‘‘کوئی جواب نہیں ملا .....
اس نے گنڈا سہ رکھ دیا اور باڑے سے نکل کر رسوئی میں آیا .....
ہانڈی سے دھواں اور سبزی جل جانے کی بو اٹھ رہی تھی ..... اس نے ادھر ادھر دیکھا ..... چندی تو نہیں تھی ..... اس نے بڑھ کر ہانڈی کسی نہ کسی طرح چولہے سے اتاری دی ..... اور بڑبڑاتا ہو اکمرے کی طرف چلا ..... کمرہ خالی تھا ..... دروازہ اس طرح کھلا تھا ..... اس نے سوچا شاید رفع حاجت کو گئی ہوگی ..... اس نے رسوئی میں آکر چولہے کی لکڑیاں ذرا سا کھینچ لیں تاکہ بلاوجہ نہ جلتی رہیں ..... اور پھر باڑے کی طرف چلا گیا..... وہ زیر لب مسکرارہا تھا ..... اس خیال سے کہ عین ہانڈے پکتے وقت چندی کو رفع حاجت کی ایسی ضرورت ہوئی کہ سب چھوڑ چھاڑ کر جنگل جھاڑی کی طرف بھاگی گئی .....
اس نے گنڈاسہ اٹھایا ..... اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا .....
گاؤں میں گیارہ گھر تھے ..... سب ایک دوسرے سے فاصلے پر ..... چار گھر مراری کے گھر کے ساتھ ساتھ اسی رخ سے تھے جس رخ پر مراری کا گھر تھا ..... ندی کی طرف کھلتے ہوئے ..... پانچ گھر ان کے پیچھے ایک دوسرے کی دیواروں سے دیواریں ملا کر بنائے ہوئے ..... ان ہی کے ساتھ ایک ٹیلے کو صاف اور ہموار کر کے اس پر خشک درختوں کے تنوں کے ستون بنا کر ان پر چھپڑڈال کر چوپال بنائی گئی تھی جہاں تمام دن کوئی نہ کوئی بیٹھا چلم پیتا رہتا ..... اکثر گاؤں کے تین بوڑھوں میں سے ایک دو ضرور ہوتے تھے ..... جوپال سے ذرا فاصلے پر گھونڈو کا گھر تھا جس کے باہری دروازے کے پچھلے حصے کو اس نے چھت بنا کر محفوظ کر لیا تھا اور اس میں چھوٹی سی دکان کھول رکھی تھی ..... جہاں اس آبادی کے اور ادھر ادھر کی آبادیوں کی ضرورت کی ہر چیز مل جاتی تھی .....
گھونڈ و اپنی دکان کے لیے سامان کبھی کبھار اٹارسی سے لایا کرتا تھا جو اس آبادی سے پندرہ کوس تیس میل پر تھی ..... اٹاری اچھی بڑی جگہ ہے ..... ریلوے اسٹیشن اور ہاسٹیل ہونے کی وجہ سے مشہور جگہ تھی بڑی دکانیں اور بازاور تھے ..... جہاں بھوپال یا ناگپور سے ہر قسم کا تجارتی سامان آتا تھا .....
گاؤں والوں کی مزروعہ زمینیں .....جا بجا دور تک پھیلی ہوئی تھیں ..... گھونڈ کی دکان کے سامنے ہی چھبلا کی دکان تھی ..... چھبلا گاؤں کا سیانا تھا ..... وہ ہر کام کر لیتا تھا ..... حجام کی خدمات وہ انجام دیتا ،جوتے گانٹھنے کا کام بھی کرتا ..... گاڑیاں مرمت کرلیتا ..... بیلوں کی راسیں تیار کر لیتا ..... خشک لکڑیاں جنگل سے کاٹ کرلاتا اور اپنے گھر باڑے میں جمع رکھتا ..... گاؤں والے وقتاً فوقتاً ایک آنے پنسیری کے حساب سے خرید لیتے .....
گھوڑے کی لگام اور زین بھی مرمت بھی کرتا تھا ..... ہل بکھر بھی درست کر دیتا ..... ضرورت پڑنے پر کپڑے بھی سی دیتا ..... اور لوگوں کے معمولی تنازعوں میں ثالث یا منصف بھی بن جاتا ..... اس کے پاس ایک توڑے دار بندوق بھی تھی ..... اور کبھی کبھی وہ جنگل سے ہرن مارلاتا ..... اور گھونڈ و کو ایک روپے میں فروخت کر دیتا .....
لیکن چندی غائب تھی ..... ندی کنارے ..... آخری گھر گھوسی کا تھا ..... اس گھر سے دو عورتیں سروں پر ہنڈیاں رکھے سیدھی چندی کے گھر گئیں ..... رسوئی خالی پڑی تھی ..... چولہا بجھ رہا تھا ..... ابھی تک فضا میں جلی ہوئی سبزی کی بوپھیلی ہوئی تھی ..... مراری باڑے میں چارہ کاٹ رہا تھا.....
وہ دونوں صحت سے گزر کر کمرے کی طرف آئیں ..... کمرے میں تو چندی نہیں تھی ..... ’’یہ کہاں گئی ..... ؟ ‘‘
’’ادھر ہوگی ..... ‘‘وہ دونوں باڑے کے پا س آئیں ..... مراری نے ان کو دیکھ کر ہاتھ روک لیا
’’چندی کہاں ہے ..... ؟‘‘ایک نے پوچھا
’’ہائیں ..... ابھی نہیں آئی.....؟ ‘‘ مراری نے حیران ہو کر پوچھا
’’کہاں گئی ..... ؟‘‘
’’نجانے کدھر نکل گئی ..... ہانڈی بھی جل گئی ..... آٹا ویسے ہی پڑا ہے ..... ‘‘
وہ پھر کام چھوڑ کر نکل آیا .....
’’جنگل گئی ہوگی ..... ‘‘ دوسری بولی
’’بڑی دیر ہوگئی ..... ‘‘ مراری نے کہا
’’ارے تو تم جا کر دیکھونا مراری بھیا ..... ‘‘
’’ہاں دیکھنا چاہیے ..... ‘‘
’’میں جاؤں ..... ‘‘ پہلی نے کہا ’’لکشمی کے درد اٹھا ہے ..... شاید ادھر ہو ..... ‘‘لکشمی گاؤں کے دوسری طرف رہتی تھی ..... اس کے پورے دن تھے ..... بچہ کسی وقت بھی ہوسکتا تھا ..... سب کو معلوم تھا کہ گذشتہ رات سے ہی اس کے درد تھا ..... بچہ ہونے کا درد۔
’’تو مجھے بتا کر جاتی ..... ‘‘
’’ٹھہرو ..... میں ادھر جارہی ہوں ..... اس کو بھیج دوں گی ..... ‘‘دوسری بولی
’’اچھا ..... ‘‘
مراری پھر باڑے میں چلا گیا .....
شام قریب تھی ..... سورج پہاڑ کے پیچھے چلا گیا تھا ..... چھبلانے بتایا تھا کہ سورج ادھر کے پہاڑوں کے پیچھے ایک بہت بڑے کنویں میں اتر جاتاہے اور اسی میں سوتا ہے ..... صبح پھر نکل آتا ہے ..... اس نے تو بتایا تھا کہ بچپن میں وہ اپنے چچا کے ساتھ کنویں تک گیا تھا جہاں سورج روزانہ شام کو اتر تا ہے ..... اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ کنویں میں اترتے وقت سورج تھکن ‘ بھوک اور نیند کی وجہ سے اتنا پریشان تھا کہ ساری چمک دمک غائب .....سر خ سرخ ہورہا تھا ..... (جاری ہے )