قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 107
میرے کمرے کی دو چابیاں تھیں۔ شام سندر نے ایک چابی مجھ سے اس بہانے سے لے لی ہوئی تھی کہ میں یہاں کبھی سوچنے یا آرام کرنے کیلئے بیٹھ جاؤں گا ۔ میرا سلسلہ ایک خاتون چندر کانتا سے تھا میں اس کے پاس چلا جاتا تھا۔ یہ میرے بعد کسی عورت کو لے کر وہاں پہنچے ہوتے تھے۔ ایک دن ہوٹل والوں نے مجھے بتایا کہ شام سندر صاحب کو آپ نے کمرہ منتقل کر دیا ہے اور وہ تو روز یہاں عورت لے کر آتے ہیں۔ ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں لیکن پڑوس کے کمرے والوں کو اعتراض ہے۔ تب مجھے پتہ چلا کہ شام سندر وہاں کیا کرتے ہیں۔
میں نے ان سے کہا کہ مجھے یہ شکایت ملی ہے تو کہنے لگے کہ کیا آپ کمرے کے پیسے نہیں دیتے۔ میں نے کہا کہ پیسے تو دیتا ہوں لیکن اس کام کیلئے نہیں دیتا ۔ خیرانہوں نے چابی تو واپس دیدی لیکن برامانا ۔ بعد میں ب انہیں احساس ہوا کہ میری بات درست تھی، تب کہیں جا کر وہ بات بھولے ۔ مگر ان کی یہ عادت تھی کہ جب ذرا زیادہ پی لیتے تو عورت کی تلاش میں نکل پڑتے تھے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 106 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ اور بادہ نوش
ماسٹر غلام حیدر ایک بہت پرانا اور جانا مانا نام ہے۔ وہ ربانی خاندان سے تھے اور ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ شروع میں جیسا کہ تھیٹریکل کمپنی میں دستور تھا کہ اچھے سازندوں کو لیا جاتا تھا، یہ بھی تھیٹریکل سے وابستہ رہے تھے۔ یہ ہارمونیم کے بہت اچھے بجانے والے تھے۔ سیٹھ حبیب اس زمانے میں مشہور تھیٹرکے مالک تھے جن کی ماسٹر غلام حیدر خور بھی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ ان کی کمپنی کے ساتھ وہ ہندوستان بھر میں گھومے اور ہارمونیم بجانے میں بڑا نام پیدا کیا۔ یہاں سے وہ ایک ریکارڈ نگ کمپنی میں لاہور آئے جس کا نام چائنا فون تھا ۔ انہوں نے یہاں کچھ ایسی دھنیں دیں جن سے ان کا نام پیدا ہوا۔
اس زمانے میں شمشاد بیگم اور امراؤ ضیاء بیگم کے نام ریڈیو پر اور ریکارڈوں میں بہت نمایاں تھے۔ یہ دونوں ہی ماسٹر غلام حیدر کی دریافتیں تھیں۔
میرا سلام لے جا
امراؤ بیگم کا یہ گانا بہت مشہور ہوا۔ پھر امتیاز علی تاج نے ایک فلم شروع کی جس کا نام تھا ’’سورگ کی سیڑھی ‘‘ ۔ اس میں ماسٹر غلام حیدر کو میوزک ڈائریکٹر لیا گیا اور غالباً یہ ماسٹر غلام حیدر کی پہلی فلم تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ اور فلموں میں میوزک کا جادو جگایا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ پنچولی اور دیگر پروڈکشنز کی فلموں میں لوگ ان کا نام تلاش کرتے تھے اور جس فلم پر ان کا نام ہوتا تھا اسے کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ ان کی فلم ’’خزانچی ‘‘ کے گانے بہت مشہور ہوئے۔ بہرحال پنچولی کی فلموں میں ان کا نام بہت گونجا ۔ ا س زمانے میں ایک گانا تھا:
ساون کے نظارے ہیں، لا للا ، لا
ساتھ مہمل لفظ لگا کر گانے کو سنوار نے کا اولین سہرا بھی انہی کے سرتھا۔ اس کے بعد ہر گانے کے ساتھ مہمل لفظ لگا کر لوگ گانوں کو سنوارنے لگے تھے۔ یہ بھی ان کی ذہنی کوشش تھی۔ یہاں سے ان کا نام بڑھا اور پھر ممبئی میں اکی مانگ ہوئی۔ یہ وہاں چلے گئے اور وہاں کے بڑے بڑے ڈائریکٹر وں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے جن میں سہراب مودی، محبوب اور دیگر شامل تھے۔ ان کی آخری فلم وہاں پر فلمستان والوں کی طرف سے تھی جس میں انہوں نے لتا منگیشکر جیسی آرٹسٹ کو چانس دیا ۔ اور آج تک لتا کی آواز گونج رہی ہے ۔ یہ بھی ماسٹر غلام حیدر کی دریافت تھی۔
پارٹیشن کے ساتھ ہی یہ لاہور میں آگئے اور یہاں انہوں نے سندھ کے ایک وڈیرے خاندان کے چشم و چراغ کو اپنے ساتھ ملایا۔ ان کا نام فضل علی شاہ تھا لیکن انہوں نے ایس گل کے نام سے فلم میں کام کیا۔ سرمایہ ایس گل کا تھا جبکہ ماسٹر غلام حیدر ایک طرح کے منیجنگ پارٹنر تھے۔ انہوں نے پہلی فلم ’بے قرار ‘‘ بنائی۔ یہ فلم تو نہ چل سکی لیکن اس کے گانے برسوں چلے۔ حالانکہ آواز منور سلطانہ کی تھی۔ لیکن ماسٹر غلام حیدر نے منور سلطانہ کی آواز کو اس سلیقے سے استعمال کیا تھا کہ منور سلطانہ بھی بہت عرصے تک پاکستانی فلم اندسٹری کی ضرورت رہیں۔
میرا ان سے واسطہ فلم ’’اکیلی ‘‘ سے شروع ہوا۔ یہ سید عطاء اللہ شاہ ہاشمی کی فلم تھی جو ’’اداکار ‘‘ کے مالک تھے جبکہ میں ان دنوں اس پرچے کا ایڈیٹر تھا۔ میرا مزاج تھوڑا سا معیار کی طرف تھا۔ میں فلمی گانوں میں بھی ایک معیار رکھنا چاہتا تھا۔ جبکہ ماسٹر غلام حیدر جس ماحول سے آئے تھے وہاں صرف کمرشل ازم چلتا تھا۔ وہ اس میں کامیاب بھی تھے اور اپنی جگہ ٹھیک تھے۔ لیکن میں یہ سمجھتا تھا کہ صرف کامیابی نہ ہو بلکہ معیار بھی ہو اور لوگ شعر سن کر کہیں کہ گیت لکھا ہوا بھی اچھا ہے اس وجہ سے میری ان کے ساتھ کچھ ٹسل بھی ہوئی۔ اس ان بن کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ میری ان کے ساتھ قربتیں نہیں تھیں اور دوسرے یہ کہ ان کی ٹیم میں شاعر طفیل ہو شیار پوری پہلے سے موجود تھے اور طے تھا کہ یہ گانے ان سے ہی لکھوائیں گے۔لیکن مجھے فلمساز عطاء اللہ شاہ ہاشمی کی طرف سے آگے کر دیا گیا تھا۔اس لیے میں انہیں ذہنی طورپر قبول نہیں تھا اور وہ میرے راستے میں روڑے اٹکانے لگے۔
یہ پارٹیشن کے بعد کی بات ہے ۔ عطاء اللہ شاہ ہاشمی کے ساتھی کرشن کمار ایم ایس سی تھے۔ وہ پہلے تو ہندوستان چلے گئے تھے لیکن بعد میں ویزا لے کر یہاں آئے تھے۔ انہیں ایک فلم بنانی تھی جس کی ڈائریکشن ان کی تھی۔ اس دوران وہ دوبارہ ہندوستان گئے تو عطاء اللہ شاہ ہاشمی بھی ان کے ساتھ انڈیا چلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد ماسٹر غلام حیدر کے کولہو کے آگے میں جتا رہا۔ میں نے انہیں ایک سیچوئیشن پر گیت لکھ کر دیا۔ انہوں نے دو دن سے اسے اپنے پاس رکھے رکھا اور پھر کہا کہ کچھ لکھئے۔ میں نے اسی ایک سیچوئیشن پر اس طرح ان کے کہنے پر چھ گیت لکھے۔ اسی اثناء میں کرشن کمار انڈیا سے واپس آگئے اور مجھ سے پوچھا کہ گانا کوئی بنا ہے۔ میں نے بتایا کہ میں تو چھ گیت لکھ کر دے چکا ہوں۔ یہ گیت ماسٹر جی کی نظر میں نہیں جچے ۔ وہ مسکرائے اور کہا کہ ٹھیک ہے ۔ پھر پوچھا کہ ماسٹر جی کا کوئی دوست شاعر ہے میں نے کہا جی ہاں طفیل ہوشیار پوری ہیں۔ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے ۔ کل میٹنگ رکھیں گے اور پھر اس معاملے کو دیکھیں گے۔
اگلے روز میٹنگ ہوئی۔ اس میں انہوں نے انجان بن کر مجھ سے پوچھا کہ قتیل صاحب کچھ لکھا ہے آپ نے ؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے ایک سیچوئیشن پر چھ گانے لکھے ہیں۔ حیران ہو کر کہنے لگے کہ چھ گانے کیوں لکھے ہیں۔ میں نے کہا کہ ماسٹر جی کا خیال تھاکہ زیادہ گانے لکھنے چاہئیں ۔ کہنے لگے کہ سنائیے۔ ہم نے پہلے سے جو پلاننگ کر رکھی تھی اس کے مطابق میں نے انہیں ایک گانا سنایا۔ انہوں نے گانا سن کر کہا کہ یہ گانا بس ٹھیک ہے لیکن آپ نے کوئی اور گانا بھی لکھا ہے ۔ میں نے دوسرا گانا سنایا تو وہ کہنے لگے کہ واہ واہ یہ بہت اچھا گانا ہے۔ آپ ماسٹر جی کو یہ گانا دیتے۔ انہوں نے یہ بات انجان بن کر کہی۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے جی یہی دے دیتا ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ آپ باقی کے گانے چھوڑئیے۔ مجھے اور کوئی گانا نہیں سننا۔ یہ گانا ٹھیک ہے اور مجھے بالکل سوٹ کرتاہے۔
چنانچہ میں نے وہ گانا ماسٹر جی کو پکڑا دیا اور انہوں نے کچھ کہے بغیر وہ گانا رکھ لیا۔ اس طرح ماسٹر جی کے ساتھ کام کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن اندرونی طور پر کچھ کشمکش چلتی رہی۔ انہوں نے اس فلم میں ایک آدھ گانا طفیل ہوشیار پوری کا بھی رکھا اور اپنی ضد پوری کی۔
آگے چل کر فلم ’’گلنار ‘‘ بننے لگی تو اس کی ٹیم میرے مطلب کی تھی۔ سید امتیاز علی تاج اس فلم کے ڈائریکٹر تھے۔ شوکت تھانوی اس کے مکالمہ نگار تھے جبکہ وہ اس فلم میں ایک کیریکٹر بھی کر رہے تھے۔ اس فلم کے پروڈیوسر شوکت رضوی تھے۔ یہ سب ، خاص طور پر تاج صاحب میرے قدردان تھے اور مجھ پر کرم بھی کرتے تھے۔ اس فلم میں میوزک ڈائریکٹر ماسٹر غلام حیدر تھے اور گیت نگار مجھے لیا گیا۔ وہاں ماسٹر جی سے جب پہلی بار ٹکراؤ ہوا تو انہوں نے مجھے دیکھا اور میں نے انہیں دیکھا۔ انہوں نے تھوڑا سا محسوس کیا پھر خود ہی مجھے کہا کہ قتیل صاحب! ہم اگر مل کر کچھ کام کر لیں تو فلم کے مفاد میں بہتر ہے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے جیسے آپ کہتے ہیں کر لیں گے۔ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ لیکن آپ ڈائریکٹر صاحب سے بھی یہ بات کہہ لیں کیونکہ سارا پلان تو ان کے ذہن میں ہے۔
میں نے پہلا گیت لکھا تو ماسٹر جی نے کہا کہ آپ اسے چھوڑئیے۔ میں آپ کو ٹیون دیتا ہوں آپ اس پر گیت لکھئے۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ٹیون دیجئے۔ اگر ٹیون اچھی ہوئی تو میں گیت لکھوں گا۔ چنانچہ انہوں نے ٹیون دی اور میں نے پانچ منٹ میں گیت لکھ کر ان کے حوالے کیا۔ ماسٹر صاحب ہکے بکے رہ گئے۔ عام طور پر ادب سے گیا ہوا شاعر ٹیون پر لکھنے سے گھبراتا ہے۔ اور اگھبرانا بھی ٹھیک ہے کیونکہ عام طور پر میوزک ڈائریکٹر اوٹ پٹانگ سی ٹیون دے دیتا ہے جس کا کوئی وزن وغیرہ بھی نہیں ہوتا۔ اتفاق سے ماسٹر غلام حیدر نے جو وزن دیا وہ قاعدے میں تھا۔ وہ ایک پرانی ٹھمری یا دادر ا تھا۔ میرے لئے آسان تھا اس لیے میں نے کر دیا۔ یہ گیت لکھنے سے پہلے یہ بھی ہوا کہ میں نے ان سے کہا تھا کہ یہ ٹیون پہلی سیچوئیشن پر ٹھیک نہیں ہے بلکہ دوسری سیچوئیشن پر ٹھیک ہے اس لیے اگر آپ کہیں تو میں اس سیچوئیشن پر اس ٹیون میں گانا لکھ دوں ۔ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے چنانچہ میں نے وہ گانا لکھ کر دے دیا اور وہ گانا ہو گیا۔(جاری ہے)
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 108 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں