گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 57
وزیر ہند مسٹرایمرے نے 1941ء میں مجھے یہ اطلاع دی کہ ان کی اور وائسرائے کی خواہش ہے کہ میں وائسرائے کی کابینہ کے رکن کی حیثیت سے ہندوستان واپس جاؤں۔ مجھے حال ہی میں ہائی کمشنر کے طور پرلندن میں پانچ سال کی مدت گزارنے کے بعد ایک سال کی توسیع ملی تھی۔ میں نے اپنا نیا منصب قبول کرنے کے بعد سامان باندھا اور طیارہ میں ہندوستان واپس ہوا۔ اس مرتبہ مجھے لزبن، لاگوس، خرطوم، قاہرہ اور کراچی ہوتے ہوئے دہلی پہنچنا پڑا۔ لاگوس میں ہم نے ایک رات قیام کیا۔
آسمان اور ستاروں کو میں نے اس رات سے زیادہ قریب تر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ رات کے کھانے کے ساتھ سخت چھال کا ایک سنگترہ کھانے کو ملا جو بالکل ہرا تھا۔ لیکن چکھا تو شکر سے زیادہ میٹھا نکلا۔ کچھ سنگترے ہندوستان لے آیا لیکن یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ان سنگتروں کے پودے بیج سے نہیں اُگتے بلکہ اس کا پیوند لگانا پڑتا ہے۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لاگوس سے خرطوم تک کہیں پڑاؤ نہ تھا۔ ہمارا طیارہ کچھ دیر گھنے جنگلوں پر پرواز کرتا رہا اور یہاں مجھے آگ تو آگ دھواں تک نظر نہ آیا۔یہ پرواز بڑی خطرناک تھی۔ کیونکہ اگر جہاز میں کوئی خرابی پیدا ہو جاتی توپھر مسافروں کا نشانہ تک نہ ملتا۔ میرا خیال ہے کہ جنگلوں میں دھواں اس لیے نظر نہ آیا تھا کہ یہ سب کے سب غیر آباد تھے۔
رات کو میں نے خرطوم میں قیام کیا ، جہاں کا گورنر گارے کے کچے محل میں رہتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس کا نام بڈل سٹون تھا ۔ ہمارے انڈیا آفس لندن میں جہاز رانی کے ایک مشیر تھے، یہ گورنران کا بھائی تھا۔ سوڈان میں سول سروس کے افسران کا تقرر براہ راست وزارتِ خارجہ کی طر ف سے ہوتا تھا ۔سوڈان میں اس وقت دو طاقتور ملکوں برطانیہ اور مصر کی مشترکہ حکومت تھی۔ ایک پنجابی کہاوت ہے ’’ڈاڈھے نال بھائی والی ، نالے منگے حصہ نالے کڈھے گالی۔ ‘‘ یعنی اگر تم اپنے سے مضبوط تر آدمی کے ساتھ حصہ داری کر و گے تو وہ نہ صرف اپنا حصہ طلب کرے گا بلکہ گالی بھی دے گا۔ ہر سول افسر کو برطانیہ جانے کے لیے سال میں تین مہینہ کی چھٹی ملتی تھی۔ وہاں ایک طرح کا پہاڑی مقام بھی تھا، جہاں کی آب و ہوا نسبتاً خنک تھی لیکن انگریز افسر گھر جانے کو ترجیح دیتے تھے۔ میں نے خرطوم کے قریب اومڈر مین کا مقام بھی دیکھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں چرچل نے جو اس وقت ایک رسالدار تھے، گھوڑے پر بیٹھے اپنی پلٹن کو حکم دیا تھا کہ مہدی سوڈانی پر حملہ کریں۔
چیف سیکرٹری مجھے اس جگہ کی سیر کرار ہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مسٹر چرچل کے آدمی خاصی تعداد میں مارے گئے لیکن وہ محفوظ رہے۔ وہاں کی عیدگاہ ایک کشادہ میدان میں واقع تھی اور اس کے گرد گارے کی ایک نیچی سی چار دیواری کھڑی کر دی گئی تھی۔ مہدی نے اس جگہ کو عیدین کی نمازوں کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ جگہ جگہ گارے اور مٹی کی کچی عمارتوں کی وجہ سے خرطوم ہندوستان کا کوئی بڑا سا گاؤں معلوم ہوتا تھا۔معلوم ہوا مہدی کے کہنے پر گارے کی عمارتیں بنائی جاتی ہیں تاکہ تباہی ہوتو انہیں ازسر نو بنانا مشکل نہ ہو اور لوگوں کا نقصاں نہ ہو۔
میں جب کراچی کے ہوائی اڈے پر اترا تو اخبارات کے نمائندوں نے گھیر لیا اور مجھ سے میری پالیسی کے بارے میں سوال کرنے لگے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے وائسرائے کی کابینہ کارکن اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔ لہٰذا مجھے تمام مسائل میں مسلمانوں کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرنی ہو گی اور میری پالیسی وہی ہو گی جو مسلم لیگ کی ہے۔ تعمیرات عامہ اور محنت کے محکمے میرے سپرد کیے گئے تھے۔
میرے ساتھیوں کو سمندر کے راستے سے پہنچنا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے مغربی افریقہ کے ساحل کے قریب دشمن کی تارپیڈو نے ان کے جہاز میں سوراخ کر دیا تاہم خوش قسمتی سے وہ بخیرو عافیت گھر پہنچ گئے ۔ میرے خاص ملازم فتح شیر کو دو تین دن تک ایک ایک چھوٹی سی کشتی میں رہنا پڑا ، لیکن حسن اتفاق سے جہاز کا کپتان بھی اسی کشتی میں سوار تھا۔ اس کے پاس ایک قطب نما تھا جس سے وہ کشتی کو پورٹ الزیتھ تک لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ ان کے پاس پانی ختم ہو گیا تھا لیکن خدا کی شان کہ بارش ہو گئی۔ انہوں نے چلو بھر بھر کر پیاس بجھائی اور ساحل تک پہنچنے کے لیے پیاس کی شدت برداشت نہیں کرنی پڑی ۔(جاری ہے )