دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر50
سب مہمان ہمہ تن گوش تھے۔ہمارا نکاح بڑی سادگی سے ہوا۔نکاح خوان نہایت خوش مزاج تھے۔ہم دونوں نے اکٹھے اور بیک زباں ” قبول ہے “ کہا تو ہر طرف سے مبارکبادیں ملنے لگیں۔میں نے دیکھا کہ راجکپور اس معاملے میں بڑا پُر جوش تھا ۔سب سے پہلے اس نے آئینہ منگوایا اور اس میں ہم دونوں میاں بیوی کو ایکد وسرے کا چہرہ دیکھنے کے لئے کہا۔
یہ رسم تھی کہ پہلی رات سے پہلے ہم دونوں رسماً ایک دوسرے کو آئینے میں د یکھیں ۔اسکے بعد راجکپور نے دودھ کا گلاس منگوایا اور میری شادی کی انگوٹھی اس میں ڈبو کر ایک اور رسم ادا کی ۔راجکپور کو یہ سب کرتے ہوئے خاص مزہ آرہا تھا ۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر49
اگلے روز ولیمہ کی دعوت میں بھی مہمان بڑے خوش نظر آئے۔ولیمہ میں خاص طور پر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ وسانت راو¿ شریک تھے ۔ ولیمہ کی رات میں نے اپنے باغ میں گزارنے کا پروگرام بنایا ۔اس کے لئے سائرہ بانو کی رضا لینا بہت ضروری تھا ۔یہ میرے گھر سے الگ چھوٹاساحصہ تھا جہاں میں تنہائی میں وقت گزارتا تھا مجھے اس جگہ سے انسیت تھی ۔مجھے خدشہ تھا کہ سائرہ بانو اس پر حیران ہوگی۔میں نے اسے بتایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ولیمہ کی رات ہم باغ میں گزاریں کیا وہ میری اس خواہش کو پوری کرسکتی ہے۔وہ حیران ہوئی ،شاید اس نے سوچا ہوگا کہ ایک سہاگن رات بھر باغ میں کیسے جاسکتی ہے ۔پھر اس نے کہا جیسے آپ خوش ہیں۔
یہ باغ گھر میری سلطنت کا ہی حصہ تھا ۔گھر سے جدا تھا ،اسکا باہر سڑک سے ایک الگ راستہ تھا ۔جب مجھے کوئی ملنے آتا تو اسی جگہ اس سے ملاقات کرتا۔اس سے خواتین کی بے پردگی نہیں ہوتی تھی۔مجھے اس جگہ سکون محسوس ہوتا تھا ۔میں نے شکر کیا کہ سائرہ بانو وہ رات میرے ساتھ اس چھوٹی سی جگہ پر گزارنے پر مائل تھی ۔اس نے کسی تردد کا اظہار نہ کیا ۔وہ رات ہم نے باتوں میں گزاری ،سائرہ نے میرا مزاج سمجھ لیا تھا ۔اس نے اب تک کی زندگی میں کبھی ایسی بات نہیں کہ جس سے اختلاف پیدا ہوا ہو۔
اگلی صبح میں نے مدراس کا رخ کیا جہاں میری فلم ”رام اور شیام“ کی شوٹنگ جاری تھی۔یہ دودن کا کام تھا اور سائرہ نے ان دونوں روز میرے ساتھ رہنا تھا ۔یہ ہنی مون بھی تھا ۔دوروز بعد سائرہ کودارجیلنگ چلے جاناتھا ،وہاں ”جھک گیا آسمان “ کی شوٹنگ جاری تھی۔میں ان دنوں کو یادگار بنانا چاہتا تھا ۔میں نے سائرہ سے کہا کہ یہ دودن بمبئی کی ہنگامہ خیز زندگی سے زیادہ پرسکون ہوں گے،مدراس میرا دوسرا گھر تھا جہاں مجھے بہت سکون ملتا تھا اور یہ دو دن سائرہ کی رفاقت میں یادگار ثابت ہوسکتے تھے۔
جب ہم مدراس ائرپورٹ پر اترے تو خوشگوار حیرت کا شدید جھٹکا لگا ۔ہمارے چاہنے و الوں نے ائرپورٹ کی سڑک سے جائے مقام تک پھول ہی پھول بچھا رکھے تھے۔یہ یادگار سواگت تھا ۔ناگی ریڈی عملے کے ساتھ خود بنفس نفیس پھولوں کے ہار لئے ہمارے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ائرپورٹ کے باہر مداحوں کا ہجوم کھڑا ہے اس لئے خاموشی سے سرک لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ہمیں اندازہ تھا اگر ہم سڑک پر آگئے تو ایک بار پھر اسی طرح چنگل میں پھنس جاتے جس کا تجربہ پہلے ہوچکا تھا ۔
ہم سے پہلے ناگی ریڈی ہوٹل پہنچ چکے تھے ۔وہاں اس سے بھی بڑا سرپرائز ہمارا منتظر تھا ۔ایشیاٹک ہوٹل میں میرا جو سوئٹ تھا اسے دلہن کی طرح سجادیا گیا تھا ۔پہلے اس میں سنگل بیڈ تھا اور اب ڈبل بیڈ بچھا دیا گیا تھا ۔کمرے کے کونے کونے کو یاسمین کے پھولوں سے مہکایا گیا تھا ،جب اے سی چلایا تو مہک کا ایسا جھونکا نکلا کہ اس نے ہمیں کسی اور دنیا میں پہنچا دیا ۔یہ محبت کرنے والوں کی خوشبو تھی جس نے نئے نویلے جوڑے کو اس وقت کی بے حد خوشی سے مہکادیا تھا ۔
یہ کمرہ دیکھ کر لگتا تھا کسی شہنشاہ کے لئے سجایا گیا ہے۔ناگی ریڈی کے بیٹے پرساد نے میرے لئے خاص اہتمام کیا تھا ۔اس نے تو مجھے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ آپ کے کمرے میں یہ سنگل بیڈ کب اٹھے گا،اگر آپ شادی کرلیں تو میں آپ کو ایسا سندر ڈبل بیڈ تحفہ میں دوں گا کہ اسکی طلب میں آپ شادی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔پرساد میرا دوست تھا ۔اس نے ڈبل بیڈ دیا اور اسے سوتی کی بجائے ریشمیں چادروں سے مرصع کردیا ۔ایسا مہین اور نازک بیڈ جو کسی شہنشاہ کی خوابگاہ میں ہی ہوسکتا تھا ۔
میرے سوئٹ میں خوشبو اورآسودگی تھی۔ میرے من میں تھا کہ ہماری شادی کی شروعات ایسی صبحوں سے ہو جو میری محبت کو تازہ رکھے۔میرے پاس وقت کی قلت تھی ۔دنیا کی خوبصورت ترین دولہن کے ساتھ میں اس سوئٹ میں اپنی قسمت پر رشک کررہا تھا ۔ہم نے اپنے جیون سفرکی ان راتوں اور صبحوں کا آغاز انڈیا کے انتہائی ثقافتی شہر سے کیا تھا ۔ہم صبح اٹھتے تو شہنشاہوں کی طرح ہمیں ناشتہ پیش کیا جاتا ۔راتوں کو ہم دونوں مدراس کی سیر کے لئے نکل جاتے ۔جنوبی بھارت کے اس شہر کی آب و ہوا میں اسقدر سکون تھا کہ میری ازدواجی زندگی کی صبح اس سے امر ہوگئی ۔آج بھی مدراس کی راتوں اور صبحوں کو نہیں بھول پایا ۔سائرہ بانو کے سنگ بے فکری کے وہ سہانے دن دو سچے پریمیوں کو کہاں بھول سکتے ہیں۔
میرے دل میں ایک خیال آرہا تھا کہ سائرہ بانوبہت شرمیلی ہے لیکن وہ اپنے اندر اعتماد پیدا کررہی تھی ۔اس کی وجہ میں سمجھ سکتا تھا کیونکہ وہ بہت مختصر خاندان میں پلی بڑھی تھی جہاں اسکی دادی،ماں اور بھائی ہی سب کچھ تھا جبکہ میں ایک بڑے بھرپور خاندان اور بے تحاشا دوستوں کے حلقے میں رہنے والا۔میں اسے اسکی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ مصروف دیکھنا چاہتا تھا ۔”رام اور شیام “ کے سیٹ پر وہ سب سے ملتی لیکن اسکی شرماہٹ بہرحال قائم رہی جو اسے بے تکلفی سے روکتی تھی۔(جاری ہے )
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر51 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں