مرض کی تشخیص
ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے جو کہا، جو ریمارکس دیئے،انہوں نے کم از کم مجھے تو نہال کر دیا ہے۔ہمارے ہاں دستور بن گیا ہے، کوئی ایسی باتیں کرے تو اُسے سبق سکھایا جائے،مگر چونکہ یہ باتیں اعلیٰ ترین عدالت کے جج صاحبان نے کی ہیں، اِس لئے اُن کی باتوں کو آگے بڑھا دیا جائے تو کسی کو زیادہ تکلیف نہیں ہو گی۔یاد رہے کہ ایک مقدمے میں ضمانت کی درخواست تھی، جس میں عدالت ِ عالیہ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔اس درخواست کی سماعت کے دورن جج صاحبان نے بہت سی باتیں کہیں،بہت سے سوالات اٹھائے۔ پاکستان کا نظام عدل جھوٹ پر استوار ہے یہ بات بھی تسلیم کی گئی اور یہ تک کہا گیا جتنا سچ معاشرے میں بولا جاتا ہے، اتناہی سپریم کورٹ بھی بولتی ہے۔ حلف اُٹھانے والے کہتے ہیں اگر وہ جھوٹ بولیں تو اُن پر خدا کا قہر نازل ہو،مگر اِس کے باوجود دو سو میں سے ایک سو گواہیاں جھوٹی ہوتی ہیں۔ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا پنجاب اور سندھ میں تفتیش کا نظام انتہائی ناقص ہے، پولیس مدعی کی بات کو درست ثابت کرنے پر لگ جاتی ہے، چاہے وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ سب سے اہم بات جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔انہوں نے کہا ریاست کا کام اب یہی رہ گیا ہے وہ منتخب حکومت کو گرائے اور اس کی جگہ نئی حکومت لائے۔سارے ادارے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔یہ ایسی بات ہے جسے آج ہر کوئی دیکھ رہا ہے،مگر اس کے باوجود حکومت کے وزراء اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں،وہ تو یہ بھی کہتے ہیں ڈی چوک میں سرے سے گولی ہی نہیں چلی۔اب اتنا بڑا جھوٹ بھلا کیسے ہضم ہو سکتا ہے، جب ریاست اپنے اداروں کو اُن کی اصل ڈیوٹی سے ہٹا کر اپنے مقاصد کو پورا کرنے پر لگا دے گی تو حالات کیسے بہتر ہوں گے۔ یہ کوئی عام سیاسی بندہ کہتا تو اس پر انگلیاں اُٹھائی جا سکتی ہیں،یہ باتیں جسٹس اطہر من اللہ نے کی ہیں۔اُن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جب جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آپ ریاست کی بات کیا کرتے ہیں۔اِس ملک میں تین وزرائے اعظم مارے گئے، تینوں کے مقدمات کا کیا بنا، کسی ایک مقدمے میں بھی قاتلوں کو سزا ملی، حتیٰ کہ بلوچستان میں سینئر ترین جج بھی مارے گئے، کسی نے کچھ نہیں کیا۔اس بات کو جسٹس شہزاد ملک نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا جس ملک میں وزیراعظم کا یہ حال ہو عام آدمی کا کیا ہو گا۔یہاں وزیراعظم ایک دن وزیراعظم ہاؤس میں ہوتا ہے تو دوسرے دن جیل میں ہوتا ہے،کسی کو پتہ نہیں ہوتا اُس نے کتنے دن وزیراعظم رہنا ہے۔ جج صاحبان کی یہ باتیں ہمارے بکھرے بوسیدہ نظام اور اداروں کی آئین سے ماورائیت کا پتہ دیتی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا چالیس سال بعد وزیراعظم کے قتل کا اعتراف کیا گیا، وزیراعظم کے قتل سے بڑا کون سا جرم ہو سکتا ہے اس معاملے میں کسی کو ذمہ دار قرار دے کے سزا دی جانی چاہئے تھی، مگر کچھ بھی نہیں ہوا۔جسٹس اطہر من اللہ یہ بھی کہہ گئے کہ جب ریاستی ادارے سیاسی انجینئرنگ میں مصروف ہوں تو ملک کا یہی حال ہوتا ہے جو اِس وقت نظر آ رہا ہے، ملک کا ایک آئین موجود ہے، اس پر عمل ہوتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے سارے مسائل ہی اس وجہ سے ہیں کہ آئین نہیں چل رہا۔
اگر تعصبات سے ہٹ کر کشادہ نظری سے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی اِن باتوں پر غور کیا جائے تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انہوں نے ملک کے مسائل کی تشخیص کر دی ہے۔کوئی تسلیم نہ کرے تو دوسری بات ہے،وگرنہ حقیقت یہ ہے ملک اس وقت بحرانوں میں گھرا ہے اور آئین کے ساتھ ساتھ ملک بھی نہیں چل رہا۔سیاسی انجینئرنگ کی جو بات کہی گئی ہے، وہ سامنے کا سچ ہے۔ یہ بھی سامنے کا سچ ہے کہ اداروں کو سیاسی مخالفین کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ آئینی حقوق بھی پامال ہو رہے ہیں ملک میں بے چینی بھی بڑھ رہی ہے۔جج صاحبان کے تاثرات کو ایک عام آدمی کا تاثر قرار نہیں دیا جا سکتا۔وہ اعلیٰ ترین مناصب پر بیٹھ کر جو کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں،اُسے سامنے لائے ہیں۔دوسری طرف اُن کی یہ باتیں اس تلخ حقیقت کو بھی آشکار کرتی ہیں کہ ادارہ جاتی نظام کے ذریعے سپریم کورٹ کو بھی ایک حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔وہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود اس لئے فیصلے نہیں کر سکتی کہ جس نظام کے تحت کیسز تیار کئے جاتے ہیں، وہ جھوٹ پر کھڑا ہے۔اُس جھوٹ کا سب کو پتہ ہے، مگر جن اداروں نے اسے ثابت کرنا ہے وہی اُس کے طرف دار بن جاتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیال نے یہ کہہ کر گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے کہ جو اقدامات کئے جا رہے ہیں،اُن سے لگتا ہے ہم نے نظام کو ٹھیک نہیں کرنا۔اس بات کی گہرائی میں جائیں تو یوں لگے گا ہم نے اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی کا ارادہ باندھ رکھا ہے۔ ایک صورت ہوتی ہے کہ جب آپ کو علم ہی نہیں ہوتا خرابی کہاں ہے۔اس لاعلمی کی وجہ سے آپ مزید خرابیاں پیدا کرتے چلے جاتے ہیں مگر ہمارا المیہ یہ ہے ہم سب جان چکے ہیں خرابی کہاں ہے اور کیوں ہے؟لیکن اُس کے سدھار کے لئے اقدامات کے لئے تیار نہیں، بلکہ مزید خرابیاں پیدا کر کے صورت حال کو برقرار رکھنے کے جتن کئے جا رہے ہیں۔
اصلاح کا عمل قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا۔ آگے بڑھنے کا راستہ بھی یہی ہے،مگر ہم نے اصلاح نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔آئین کی رٹ لگانے والے جا بجا نظر آتے ہیں،پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آئین کی سربلندی کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں،مگر حقیقت یہ ہے آئین کو ہم نے واقعتا کاغذ کا ایک چیتھڑا بنا کر رکھ دیا ہے،سپریم کورٹ کے ججوں نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا یہ کہنا کہ آئین پر عمل ہوتا تو حالات مختلف ہوتے، بے معنی نہیں۔ یہ امر واقعہ ہے اِس ملک میں کبھی بھی آئین پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ ہر ایک نے اسے اپنی مطلب برآری کے لئے استعمال کیا۔ ہم اپنے انتخابات کو آئینی شقوں کے مطابق شفاف بنا سکے نہ عدالتوں کو آئین کے مطابق فیصلے کرنے کے لئے سازگار ماحول ہی فراہم کر سکے۔آئین اداروں کی حدود و قیود متعین کرتا ہے، توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ طاقتور اداروں کے نزدیک آئین کی تشریح وہی ہے جو اُن کی طرف سے آئے گی۔ جب حکومتوں کی ترجیحات صرف اپنے اقتدار کو دوام دینے تک محدود ہوں گی تو ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔یہ ایک بہت بڑا سچ ہے کہ کسی وزیراعظم کو یہ معلوم نہیں ہوتا اُس نے کتنے دن وزیراعظم رہنا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ وزارتِ عظمیٰ سے محروم ہو کر یا اُسے بیرون ملک جانا پڑتا ہے، یا پھر اڈیالہ جیل اُس کا مقدر ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آئین منتخب وزیراعظم کو تحفظ دیتا ہے تو اُس کے سر پر بے یقینی کی تلوار کیوں لٹکائی جاتی ہے۔وزیراعظم جمہوریت کے تسلسل کی علامت ہوتا ہے، ہمارے ہاں ہر وزیراعظم پت جھڑ کے پتوں کی طرح وقت سے پہلے گرتا رہا ہے۔جسٹس شہزاد ملک یہ سچی حقیقت بیان کر گئے اور اُن کی اِس بات سے ہماری جمہوریت کی سب سے بڑی کمزوری اور خرابی سامنے آ گئی۔کاش یہ سلسلہ اب رُک جائے اور ہمارے مقتدر طبقے آئین کو کاغذ کا پرزہ سمجھنے کی بجائے اسے وہ ستونِ تسلیم کر لیں جس پر یہ ملک کھڑا ہے۔
٭٭٭٭٭