انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 65
اس کے علاوہ ایشیائی مساج پارلرز کی انتظامیہ غیر قانونی طورپر کینیڈاآنے والوں اور پارلرز میں ملازمت کرنے والی عورتوں کو جسم فروشی پر مجبو رکرتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 20سے 40سال کی عورتیں گھریلو قحبہ خانوں میں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتی ہیں ان کی اکثریت کو کم اجرت پر جنسی خدمات فراہم کرنے کے لیے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کو ریا، چین ، تائیوان، ہانگ کانگ ، اور ملائیشیاء کی عورتوں جو کینڈاکی سرکاری زبان (فرنچ ، انگلش )نہیں بول سکتیں ان کو ایشیائی قحبہ خانوں میں جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ جیسا کہ پہلے ذکرکیاگیاہے کہ کینیڈاکے ذریعے ایشیائی اور افریقی باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو یوایس اے میں سمگل کیاجاتا ہے۔ یوایس اے کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے متعدد غیر قانونی تارکین کو گرفتار کیا جن کا تعلق ایشیاء سے تھا۔ ان کا مختلف شعبوں میں استحصال کیا جارہا تھا۔ ان غیر قانونی تارکین وطن کو چین سے کشتیوں کے ذریعے برٹش کو لمبیا پہنچایا گیا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان تارکین وطن نے یو ایس اے میں داخل ہونے کے لیے ایجنٹ مافیا کو 50 ہزار امریکی ڈالر اداکیے۔ جن کے پاس رقم نہ تھی انہوں نے کما کر اداکرنے کا وعدہ کیا ۔ یوایس اے حکام کا کہنا تھا کہ ان کی اکثریت غیر قانونی مشقت اور جسم فروشی میں ملوث تھی ۔ چین کا ایک منظم نیٹ ورک انسانی سمگلنگ میں ملوث ہے جو ایشیائی باشندوں کو پہلے کینیڈالے جاتا ہے اور وہاں سے یوایس اے منتقل کردیتا ہے۔ اس مافیا کے کینیڈامیں ٹور نٹو اور وینکور میں مقامی مافیا کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ اونیٹریو او بڑٹش کو لمبیا مرکزی راستے ہیں جن کے ذریعے سمگل شدہ افرد کو امریکی ریاستوں میں بھیجا جاتاہے۔ کینیڈا اور یوا یس اے میں داخل ہونے کے لیے ویزے کے مختلف لازمی کوائف تارکین وطن کو کینیڈامیں قانونی داخلے پر اکساتے ہیں جہاں سے وہ بغیرویزے کے یو ایس اے میں داخل ہونے کی غیر قانونی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہزاروں افراد کو امریکی اداروں نے گرفتار کرکے کینیڈابھیجا کیونکہ ان کے پاس کینیڈا کا ویزہ ہوتا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق ایسے افراد کو سفر کے دوران ثبوت کے بغیر پکڑنا، انتہائی مشکل ہو تاہے ۔ سمگلنگ کے شکار افراد جو کینڈا سے یو ایس اے میں داخل ہوتے ہیں ان میں کم عمر لڑکیاں جو عموماً تنہاہوتی ہیں شامل ہوتی ہیں ۔ ان کے علاوہ 19 سے 30 برس کی عورتوں کے قافلے بھی امریکہ داخل ہونے کے لیے سرحدوں پر منڈلاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سری لنکا، لائیبریا، پیرواور نائیجریا کے شہریوں کی زیادہ تعداد پائی جاتی ہے ۔ کینیڈامیں جسم فروشی کے لیے منیلا (فلپائن)سے بھی عورتوں کی ایک قابل زکر تعداد کو سمگل کیا جاتا ہے۔ کینیڈاکے پو لیس اہلکاروں نے کئی ایک واقعات میں کو رین جرائم پیشہ گروپوں کو بھی بے نقاب کیا جو کورین لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے غیر قانونی طو ر پر کینیڈا لاتے ہیں اور کینیڈا پہنچنے کے بعد یو ایس اے میں داخل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کینیڈاکے اندر جبری یا ممنوعہ کاموں میں زیادہ تر فلپائن ، انڈیا ، پولینڈ ، چین ، اتھوپیا اور میکسکو کے غیر قانونی تارکین وطن ملوث ہوتے ہیں۔ ان کو 6 سو کینڈین ڈالر ماہانہ اجرت ملتی ہے جو انتہائی قلیل ہے۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انسانی سمگلنگ اور بین الا قوامی قانون سازی کا مختصر جائزہ
اس سے قبل کہ انسانی سمگلنگ پر ہونے والی بین الاقوامی قانون سازی کا جائزہ لیا جائے ،اس کے پس پردہ حقائق اور اقوام متحدہ کے اقدامات کا پس منظر مختصر طور پر بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے خلاف بین الا قوامی اتحاد اور تحر ک کی بنیا د اس عام اصول پر رکھی گئی کہ چونکہ یہ جرم اپنی نو عیت ، ضخا مت او ر شدت کے لحاظ سے اس قدر وسعت اختیار کرچکا ہے کہ آج دنیا کا شاید ہی کوئی ملک اس سے محفوظ ہوگا ۔ اس اصول کے مطابق دنیا کا کوئی ایک ملک تنہا اس پر کا میابی سے قابو نہیں پا سکتا لہذا اس جرم کے خلاف تما م دنیا میں قومی سطح پر ایک مربوط شراکت داری کی بنیا دپر بین الا قوامی حکمت عملی اپنا نے کی ضرورت ہے۔ یعنی یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے دنیا کے تقریباٍ سبھی ممالک دوچار ہیں لہذا اس کی روک تھا م کے لیے جدو جہد بھی عالمی سطح پر ہوگی ۔ اس حکمت عملی کی راہ ہموار کرنے کے لیے تمام شریک ممالک کی پہلے سے جاری کوششو ں میں باہمی تعاون کو بڑھانا ہوگا، اس جرم کے متعلق معلومات اور آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل مدد مہیا کرنا ہوگی ۔ اس کے علاو ہ معاشرتی حقوق کی بنیا د پر موثر سماجی میل جول کو فروغ دینا اور مشترکہ کاروائی کے لیے مر بوط شراکت داری کو مضبوط کرنا ہوگا ۔ ان تما م پہلوؤ ں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر کوئی اس جنگ کے لیے اپنی ذمہ داری قبول کرے ۔
اقوام متحدہ کے انسدادِ انسانی سمگلنگ کے بین ا قوامی اقدامات کا مقصد اس جرم کا شکار ہونے والو ں کو لا حق خطرات اور استحصال میں کمی لاتے ہوئے جرم کے خاتمے کے لیے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کو متحر ک کرنا اور ان کی استعداد میں اضافہ کرنا ہے ۔ اس کے علاوہ اس عالمی جدو جہد میں سمگلنگ کے شکار افراد کی مدد کرنا او رتما م افراد کے بنیا دی حقوق کا احترام کرتے ہوئے اس میں ملوث مجر موں کے خلاف قانو نی کارروائی کو یقینی بنانا شامل ہے ۔ اقوام متحدہ کا مقصد عوام میں انسانی سمگلنگ کے متعلق معلومات اور آگاہی کو عام کرکے اسے با شعور بنا نا ہے تاکہ غیرریاستی سطح اس جرم کے خلاف لوگ خود اُٹھ کھڑے ہوں۔ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی استعداد کا ر میں اضافے کا مقصد مشتر کہ کاروائی کے لیے بھر پور اور مر بوط شراکت داری کو یقینی بنا نا بھی شامل ہے ۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے ڈرگ اینڈ کرائم نے 6مارچ 2009ء کو انسانی سمگلنگ کے خلاف ’’بلیوہارٹ ‘‘کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد اس مہم کے لیے درکار کاروائی کی کوششوں کو تیز کرنا تھا ۔ یا د رہے کہ اپریل 2010ء میں میکسیکو نے اپنے طور پر اس مہم کو قومی سطح پر اجا گر کرنے کے لیے اپنا لیا ۔ اس مہم کے ذریعے بلیوہارٹ پہن کر انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کے سا تھ اس طرح یکجہتی کے اظہار کی حو صلہ افزائی کی گئی جس طرح سر خ ربن پہن کر بین ا لا قوامی سطح پر ایڈز کے متعلق لوگوں کو آگاہ کیا گیا ۔
4 نومبر 2010ء کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ’’اقوام متحدہ کا رضاکارانہ ٹرسٹ فنڈ‘‘جاری کیا جس کا مقصد سمگلنگ کے شکار افراد کو اخلاقی ، قانونی اور مالی مدد فراہم کرنا تھا تاکہ ان افراد کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکے جو اس جرم کا شکار ہونے کے بعد بحال ہوئے ۔ اس ٹرسٹ کا دوسرا مقصد ایسے افراد کو دی جانے والی امداد کو زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچا نا تھا تاکہ اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکے ۔ ذیل میں امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے انسانی سمگلنگ کی روک تھا م کے لیے کی جانی والی قانون سازی اور بین ا لا قوامی سطح پر اٹھائے گئے اقدامات کے ارتقائی مراحل کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب یو ۔ایس ۔اے میں نسلی بر تری ایک اہم مسئلہ تھا ۔امریکی کانگرس سفید فام باشندوں کی غلامی سے خوفزدہ تھی ۔ اس خوف کے نتیجے میں 1910ء میں ’’سفید فام غلا م ٹریفیکنگ ایکٹ ‘‘معر ض وجود میں آیا ۔ اس قانون کے تحت مختلف نسلوں کے باشندوں کی باہمی شادیوں کو جرم قرار دیا گیا اور غیر اخلاقی فعل کے لیے اکیلی عورت کے لیے سر حد عبو رکرنے پر پابندی لگا دی گئی ۔ 1914ء میں اس قانون کے تحت ریاستی سرحدو ں کو عبور کرنے والی عورتوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 70فیصد کو ’’رضاکارانہ جسم فروشی ‘‘کے الزام میں سزادی گئی ۔انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے امر یکی کو ششوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے پیچھے ا س کے کیا مقاصد ہیں اس سے قطع نظر امریکی انتظامیہ نے نہ صرف اس کو روکنے کے لیے ملین ڈالر ز خرچ کیے بلکہ سینکڑوں دیگر ممالک کو بھی فنڈ ز مہیا کیے تاکہ بچوں اور عورتوں کو جبری مشقت اور جنسی استحصال سے تحفظ مل سکے ۔رضاکارانہ جسم فروشی کے جرم میں عورتوں کو سزادینے سے جنسی غلامی کا تصور سفید فام عورت سے غریب ممالک کی غلام بنائی جانے والی عورتوں پر منتقل ہوگیا ۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے غیر ملکی باشندوں کو اپنے ملک میں داخلے پر بابندی کے قوانین منظور کرنا شروع کردےئے ۔اس کی کئی ایک دیگر وجوہات بھی تھیں لیکن سب سے اہم وجہ سفید فام عورت کے دوسری نسل کے مرد کے ساتھ جنسی تعلقات یاشادی کو روکنا تھا ۔ کئی ایک دیگر قوانین کے ساتھ ’’عار ضی کو ٹہ ایکٹ1921ء ‘‘اور’’ایمگر یشن ایکٹ1924ء ‘‘کو منظور کیا گیا جن کا مقصد یورپ او ر ایشیا ء سے امریکہ میں داخل ہونے والوں کو روکنا تھا ۔ 1920ء کے عشرے میں غیر ملکی تارکین پر پابندی کے بعد امریکہ میں انسانی سمگلنگ کو ایک اہم مسئلہ کے طو ر پر نہیں لیا گیا ۔ تاہم 1949ء میں پہلی دفعہ اقوام متحدہ کی جانب سے ایک بین ا لاقوامی قانون منظو ر کیا گیا جو جنسی غلامی کو روکنے کے لیے بنایا گیا ۔ اس کو ’’انسانی سمگلنگ اور جسم فروشی کے استحصال کے خاتمے کا 1949ء کا کنونشن ایکٹ ‘‘ کہا جاتاہے۔ ا س کنونشن کو جنسی سمگلنگ کے انسداد کے لیے اختیار کیا گیا کیونکہ یہ عمل انسانیت کی توقیر اور وقار کے منافی تھا ۔ لیکن بد قسمتی سے اس کنونشن (1949ء )کو مستقبل میں کی جانے والی قانون سازی کے لیے ماڈل کے طور پر ہرملک سے منظوری حاصل نہ ہوسکی ۔ انسدادسمگلنگ کی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے کی حالیہ امریکی کوششوں سے قبل اقوام متحدہ ہی اس جرم کے خاتمے کے لیے مر کزی قیادت کا کردار ادا کر رہا تھا۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں