انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 66
سابق امریکی صد ر بش کی انتظامیہ نے مقامی اور بین الاقوامی سطح پرجنسی غلامی کے خلاف لڑتے ہوئے اس مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر ختم کرنے کے لیے ہر سال ایک سو ملین ڈالر خرچ کیے ۔ یہ رقم کسی بھی دوسرے ملک کی طرف سے اس جرم پر خرچ کی جانے والی رقم سے زیادہ تھی ۔ صدر بش کے صدر بننے سے پہلے امریکی کانگرس نے ’’سمگلنگ کے شکار افراد کے تحفظ کا ایکٹ 2000ء ‘‘منظور کیا ۔ اس قانون سے تشدد کے شکار افراد کے لیے فراہم کی جانے والی خدمات ،بچوں اور عورتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو کم کرنے کے لیے قانون نا فذ کرنے والے اداروں کو تقویت ملی ۔ اس قانون سے انسانی سمگلنگ خلاف کے عوام کو علم اور آگاہی بھی مہیا کی گئی ۔اس قانون کے روسے جنسی سمگلنگ کے شکار افراد کے علاج و معالجہ کے لیے فنڈز جمع کرنے کا اختیار بھی کار کنوں کو مل گیاتاکہ وہ متاثرہ افراد کو رہائش ،تعلیم ، خوراک اور دیگر سہولتیں فراہم کر سکیں۔ انسانی سمگلنگ کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کے لیے دیگر حکومتوں کو درکار فنڈز کی دستیابی کے اصول بھی اس قانون میں طے کردئیے گئے ۔ یہ حکومتیں امریکہ سے فنڈز حاصل کر سکتی تھیں ۔ 2000ء میں جارج ڈبلیو بش نے جب صدارت کا حلف اٹھایا تو جنسی مقاصد کے لیے انسانی سمگلنگ کی بیخ کنی کا بھی اس نے تہیہ کر لیا ۔ آج بھی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ انسانی سمگلنگ کی بین الاقوامی صورتحال پر سالانہ رپورٹ باقاعدگی سے شائع کرتی ہے۔صدر بش کے زمانے میں اس قانون پر سختی سے عمل کیا گیا ، اس کا بنیادی مقصد مافیاز کو گرفتار کرنا اور متاثرہ افراد کو تحفظ فراہم کرنا تھا ۔ ’’پروٹیکٹ ایکٹ2003ء ‘‘ جو اپریل 2003ء میں منظور ہو ا بچوں کے استحصال جرم کی سزامیں ا ضافے کے لیے کی جانے والی حکومتی کوششوں کا ہی ایک حصہ تھا ۔ ’’کمرشل سیکس ایکٹ‘‘اوردیگر تمام متعلقہ قوانین کی رو سے 18 سال سے کم عمر افراد کو جبر ، خوف یا فراڈ کے ذریعے کام پر لانے یا یہ جانتے ہوئے کہ اسے منافع کی غرض سے سیکس ورکر بنایا جائے گا ، اسے بھرتی کرنا، اس کو گھر یا سکول سے ساتھ لانا ، اس کو پناہ دینا یا اس کی نقل و حرکت میں مدد کرنا غیر قانونی قرار دیا جاچکاہے۔ ذیل میں اس ضمن میں بین الاقوامی قوانین کی تاریخ کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 65 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
18 ویں صدی کے آخر میں یورپ اور امریکہ میں عورتوں اور بچوں کی سمگلنگ پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی دباؤ سماجی اصلاحات کی تحریک کا ایک اہم حصہ بن چکا تھا۔ اس جرم کے خلاف بین الاقوامی قانون سازی کا آغاز 1901ء میں بین الاقوامی کنونشن کی منظوری کے ساتھ ہوا ۔ اس کے بعد 1904ء میں ایک دوسراکنونشن ہوا جس میں اس قانون کی ضرورت کی تصدیق مختلف ممالک سے کرائی گئی ۔ مذکورہ بالادونوں کنونشنزکو 34ممالک نے منظور کیا ۔ عورتوں اور بچوں کی سمگلنگ کے مسئلہ کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلی رسمی تحقیق کے لیے ایک امریکی جان ڈی راک فیلر، نے ’’امریکن بیورو آف سوشل ہائی جین ‘‘ کے ذریعے فنڈز کا بندوبست کیا۔ 1923ء میں اس بیورونے ایک کمیٹی کو 28ممالک میں انسانی سمگلنگ کی صورتحال کا جائزہ لینے کا کام سونپا جس نے اپنی حتمی رپور ٹ شائع کرنے سے پہلے دنیا میں پھیلے ہوئے 5ہزار مخبروں کے انٹرویوز کیے اور 2سال تک ان معلومات کا تجزیہ کیا ۔ یہ بچوں اور عورتوں کی سمگلنگ پر پہلی رسمی رپورٹ تھی جسے کسی سرکاری ادارے نے جاری کیا ۔ 1919ء میں جب’’ لیگ آف نیشنز ‘‘قائم ہوئی تواس نے اس جرم کے خاتمے کے ارادے سے قانون سازی کرنے کے لیے بین الاقوامی معاون کا کردار سنبھا لا ۔1921ء میں منعقد ہونیوالی بین الا قوامی کانفرنس جس کا ایجنڈا’’سفید فام غلاموں کی سمگلنگ‘‘تھامیں ان 34ممالک نے شرکت کی جو 4، 1901 کے کنونشنز کی منظوری دے چکے تھے ۔ اس طرح لیگ کی طرف سے بھی ایک کنونشن کی 1922ء میں منظور ی دی گئی جو انسانی سمگلنگ کے خلاف اقدامات پر غور کرنے کے لیے منعقد ہو ا ۔
1904ء کے کنونشن کی طرح اس میں بھی شامل ممالک سے اس جرم پر قابو پانے کے لیے کیے گئے اقدامات کے متعلق اپنی سالانہ رپورٹس جمع کرانے کو کہا گیا ۔ ان تما م کو ششوں کے با وجود لیگ کے مطالبے پر عملدارآمد نہ ہو سکا ۔ بعد ازاں اس مسئلہ پر بین الاقوامی سطح پر تعاون میں اضافہ ہونے لگا۔ 1924ء میں رکن ممالک کی 34فیصدتعداد نے اپنی سالانہ رپورٹس جمع کرا دیں ۔ 5سال بعد 1929ء میں اس مسئلہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے 46فیصد ممالک نے لیگ کے مطالبے پر عمل کیا ۔ اس طرح 1933-34ء تک اکثرممالک نے انسانی سمگلنگ کی صورتحال پر اپنی سالانہ رپورٹس جمع کرانا شروع کردیں ۔ یادرہے کہ 1921ء میں ہونے والے کنونشن کے فنڈ ز لیگ آف نیشنز نے فراہم کیے تھے ۔ اس کے بعد دوسری جنگ عظیم کے سائے دینا پر منڈلانے لگے جس کے اثرات 20ویں صدی کی 5ویں دہائی کے آخر تک باقی رہے ۔
1948ء میں اقوام متحدہ معر ض وجود میں آئی تو اس نے انسانی سمگلنگ پر بین الاقوامی قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھاتے ہو ئے 1951ء میں ایک قرارداد کے ذریعے ’’انسانی سمگلنگ اور دوسروں کی جسم فروشی اور استحصال ‘‘کا قانون منظور کیا اور اسے اسی سال نا فذ کردیا ، اسی طرح اقوام متحدہ کی طرف سے 1964ء میں ’’شادی کے لیے رضامندی ، اس کے لیے کم از کم عمر اور شادی کی رجسٹریشن ‘‘کا قانون نا فذ کیا گیا ۔ ماضی میں اس جرم کی روک تھام کے لیے کی جانے والی بین الا قوامی قانون سازی کے نتیجے میں مندرجہ ذیل قوانین وجودمیں آئے ۔
(ا) شادی کی عمر ، رضامندی اور اندراج کو قانون 1964ء ۔
(ب )تارکین کی بری ، بحری اور ہوائی راستوں سے سمگلنگ کے خلاف پروٹوکول۔
(ج)آئی ایل او ،1930ء کا جبری مشقت کنونشن ۔
(د) 1957ء کا جبری مشقت کے خاتمے کا آئی ایل او کنونشن ۔
(و)کم از کم عمر کا آئی ایل او کنونشن 1973ء
(ہ)آئی ایل او کنونشن 1999ء بر ائے چالڈ لیبر کی بد ترین صورتیں ۔
دراصل وہ تمام قوانین جو اس جرم کے خاتمے کے لیے آجکل نا فذ العمل ہیں اقوام متحدہ کے انسانی سمگلنگ کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کا حصہ ہیں ۔ 2000ء میں اقوام متحدہ نے ان بین الاقوامی منظم جرائم کے خلاف کنونشن کا انعقادکیا ۔ اس کنونشن کو پیلرمو کنونشن بھی کہا جاتاہے۔ اس کے علاوہ د و پیلر مو پرٹوکو لز بھی منعقد کیے گئے ۔ ان پرو ٹوکولز کا مقصد انسانی سمگلنگ (خصو صاً عورتوں اور بچوں کو )کو روکنا اور اس میں ملوث افراد کو سزادینا تھا ۔ اس کے علاوہ بر ی ، بحری اور ہوائی راستوں سے اس جرم کے وقوع پذیر ہونے کو روکنا تھا ۔ اقوام متحدہ کے شعبے ’’ڈرگز اینڈ کرائم ‘‘نے دنیا میں متعد د غیر سرکاری تنظیموں کو انسانی سمگلنگ کے خلاف لڑنے کے لیے ہر قسم کی مد د فراہم کی ۔ 2006ء میں لبنا ن میں ہونے والی اندرونی مسلح چپقلش جس سے 3لاکھ فلپائن ورکرز بے روز گا ر اور کچھ سمگلرز کا نشانہ بنے ۔ اس کے لیے ایک ہنگامی اطلاعاتی مہم ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر چلائی گئی جس میں انسانی سمگلنگ کے متعلق آگاہی کو خاص جگہ دی گئی ۔ مزید یہ کہ 2006ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں ان بین الاقوامی راستوں کا سراغ بھی شامل تھا جو 127 ممالک میں انسانی سمگلنگ کے لیے اپنائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ 98راہداری کاکام دینے اور 137ممالک جن میں لوگوں کولے جایا جاتاہے کی نشاندہی بھی اس رپورٹ میں کی گئی ۔ اقوام متحدہ کے شعبہ ’’ڈرگز اینڈ کرائم ‘‘کی مدد سے اس جرم کو روکنے کے لیے کئی ایک منصوبے اس وقت دنیا میں جاری ہیں ۔ ان میں انڈیا اور نیپال کی سرحد کو محفوظ بنانا اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام کیلیے بو سینا کروشیا اور ہر گو زینا میں غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر مہم چلانا شامل ہے، ان تنظیمو ں کے لیے عوامی خدمت کے اعلانات بھی اس جرم کے خلاف لڑنے کے لیے مفید ثابت ہوئے ہیں ۔ اقوام متحدہ کا مذکورہ با لا ادارہ ایسے اعلانات کو مقامی ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر نشر کرنے کا اہتما م بھی کرتا ہے۔ اس طرح کے بے شمار اقداما ت اقوام متحدہ کی طر ف سے کیے جاتے ہیں جو نہ صرف عوام کو انسانی سمگلنگ کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ اس کا شکار ہونے اور مافیا کے استحصال سے محفوظ رہنے کے طریقے بھی ان کو بتا ئے جاتے ہیں ۔ یہ ادارہ تمام شراکت داروں جن میں پوری دنیا سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے شامل ہوتے ہیں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ ان میں حکومتیں ، تعلیمی ادارے ، کارو باری انجمنیں ، سوِ ل سو سائٹی اور میڈیا شامل ہیں ۔ یہ ہر کسی کے کام میں تعاون کرتاہے۔ نئے شراکت دار اور ارکان پیدا کرتا ہے اورانسانی سمگلنگ کے خلاف لڑنے کے لئے ضروری آلات مہیا کرتاہے۔ (جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 67 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں