اسے بھلا کون بچا سکتا ہے

 اسے بھلا کون بچا سکتا ہے
 اسے بھلا کون بچا سکتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ملکی حالات دیکھ کر اکثر اوقات دل میں خیال آتا ہے۔مجھے فیملی سمیت بہت عرصہ پہلے ہی کسی  دوسرے ملک کی شہریت لے لینی چاہیے تھی جیسے آجکل یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل بچے بیرون ملک سدھار رہے ہیں۔اب آپ کہیں  گے۔اپنا ملک اپنی مٹی کو چھوڑ کر دیار غیر سکونت اختیار کرنا کہاں کی دانشمندی ہے،ایسی فضولیات تو ملک سے بے وفائی کے زمرے آتی ہیں پھر خیال آتا   شاید میں غلطی پر ہوں،مجھے ہر وقت دگرگوں حالات کا نوحہ پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہئے،یہ ملک تو بنا ہی جھوٹوں اور فراڈیوں کے لئے تھا۔ایک دن مسجد کے خطیب صاحب نے ممبر پر بیٹھ کر بڑی سخت بات بول دی،ہو نہیں سکتا جی ہو نہیں سکتا،بندہ مسلمان ہو، جھوٹا اور دھوکے باز نہ ہو۔محترم خطیب صاحب نے ٹھیک ہی تو کہا۔چوبیس گھنٹے ہم جھوٹ بولے بنا رہ نہیں سکتے، دھوکہ ہمارا طرہ امتیاز ہے۔پیارے دیس میں بچے کو پہلا سبق ہی جھوٹ کا دیا جاتا ہے۔عمر کے ساتھ ساتھ دھوکہ اور منافقت کی ٹریننگ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی شکر الحمد اللہ اپنے ہاں ایک ریڑھی والے سے لیکر اوپر تک ہر شخص  لوٹنے کا کام بطریق احسن انجام دے رہا ہے۔اگر خدانخواستہ آپ کی گاڑی، موٹرسائیکل خراب یا پنکچر ہو گئی ہے۔گھر میں پلمبر، الیکٹریشن کا کام نکل آیا ہے۔خیر سے 500 والا کام کء ہزار روپے میں کیا جائے گا اور ڈاکٹروں سے تو پیسے بٹورنے کی اس فگر کو ڈبل کر لیں۔خیر سے ایک سے بڑھ کر ایک فنکار کرپشن کے مینار کھڑے کرتے نظر آتا ہے۔ابھی دو دن پہلے ایک دوست بابو صابو لاہور سے بذریعہ موٹروے ملتان روڈ جا رہا تھا جونہی وہ ملتان روڈ کے قریب اوورہیڈ برج کے نیچے پہنچا۔ایک ملنگ لڑکا سڑک پر کار کے بالکل سامنے گاڑی کے بونٹ پر لیٹ گیا۔دوست نے ہارن دیا۔وہ نہ ہٹا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دروازے پر آ گیا۔اس نے 5 منٹ میں اللہ، رسول کے نام پر اپنی چکنی چوپڑی باتوں سے میرے دوست کو ہپناٹائز کر لیا اور زبردستی دس ہزار روپے چھین کر اپنی جیب میں ڈال لئے۔دوست نے راہ چلتی گاڑی والوں سے مدد مانگ کر اس ملنگ کی جیب سے پیسے واپس نکالے لیکن 500 کا نوٹ وہ پھر بھی کہیں چھپا گیا۔

میں نے اپنے دوست سے کہا۔شکر کرو تمہاری جان بچ گئی ہے۔کوئی نشہ آور چیز سونگھا کر رفو چکر نہیں ہو گیا۔آئے دن ہم اخبارات میں نوسربازوں کو نشہ آور چیزیں کھلا کر مسافروں کو لوٹنے کی داستانیں پڑھتے ہیں۔ ما شا ء  اللہ، ہمارے کرتوت ایسے ہیں کہ لکھتے شرم آتی ہے۔آپ ریسرچ کرا لیں۔جھوٹ، دھوکہ دہی،  ذاتی مفاد اور منافقت کی عالمی رینکنگ میں ہمارا اول نمبر آئے گا۔مال مفت دل بے رحم کا ٹائٹل تو ہمیں بہت پہلے مل چکا ہے۔جیب میں دھیلا نہ ہو۔سرکار کے پیسے ہم نوابوں کی طرح خرچ کرتے ہیں۔بعد میں قرضے چاہے۔ہمارے گلے تک آن پہنچیں۔پروٹوکول ہم نے تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسوں پر انجوائے کرنا ہی کرنا ہے۔حالت یہ ہے۔بجلی کے بلوں نے پاکستانیوں کو جیتے جی مار دیا ہے۔مہنگائی کے ستائے لوگ گھر کی کوئی نہ کوئی چیز بیچ کر بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں۔اوپر سے سخت گرمی اور لوڈشیڈنگ کے موسم میں پنجاب کے تعلیمی بورڈز نے امتحانات کا سالانہ شیڈول مئی، جون میں کرنے کا حکم جاری فرما دیا ہے۔کیا زمانہ ہوتا تھا۔مارچ کے موسم بہار میں سالانہ امتحانات اور اپریل سے نیا تعلیمی سیشن شروع ہوتا تھا۔کہاں رہ گئے۔قوم کے نونہالوں کا خیال رکھنے والے؟ خاکسار تو کئی سال سے لکھ لکھ کر ہلکان ہو چکا ہے۔کاش! پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک تعلیمی اداروں کے سربراہان بچوں کو صرف اور صرف اخلاقیات سکھانے کا اعلان بھی کسی نہ کسی دن کر ہی دیں۔ہو سکتا ہے۔ہماری آنے والی نسلیں سدھر جائیں اور پستی کے گڑھوں میں جاتا یہ بدبودار معاشرہ مزید زوال پزیر ہونے سے بچ جائے۔اس عظیم سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آدمی کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔

ایک بیماری جس کا ذکر کرنا بے حد ضروری ہے اور جو ہمارے اکابرین میں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔پچھلی حکومت کے عوام دوست پروگرامز کو نئی حکومت نے بند کرنا ہی کرنا ہوتا ہے۔کچھ دن پہلے غریب عوام کے لئے باعث رحمت صحت سہولت کارڈ پر شعبہ امراض  دل کے بائی پاس آپریشن اور انجیوپلاسٹی کو سرے سے یہ کہہ کر بند کر دیا گیا ہے کہ غیر ضروری کارڈیک سٹنٹس اور غلط بائی پاس آپریشن کر کے کرڑوں روپے کمائے جا چکے ہیں لہذا صحت کارڈ کے نئے ٹی او آرز بنیں گے اور صرف حق داروں نادار لوگوں کا علاج کیا جائے گا۔معلوم نہیں؟ کب تک نئے قوانین بن جائیں گے اور غلط پریکٹس کرنے والے مٹھی بھر ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے، تمام ڈاکٹروں کو چور کی ڈگری جاری کرنے سے پرہیز کیا جائے گا۔خاکسار سینکڑوں مریضوں کی شکایات پر متعدد بار نگران  وزیر صحت پنجاب استاد محترم جناب پروفیسر جاوید اکرم سے عرض کر چکا ہے خدارا! میڈیا پر آکر عوام الناس کو طفل تسلیاں دیتے یہ جھوٹ نہ بولا جائے کہ صحت کارڈ چل رہا ہے اسے قطعی طور پر بند نہیں کیا گیا ہے،یہ ناچیز بھی پتہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے،آخر کس سیارے پر غریب مریضوں کا ہیلتھ کارڈ پر مفت علاج کیا جا رہا ہے؟ اف خدایا! کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔مریض بیچارے رل گئے ہیں۔مریض جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں۔سننے والوں نے بھی نہ سننے کی قسم کھا رکھی ہے۔


کوئی جا کر  مٹی کے ان پتلوں کو بتاتا کیوں نہیں؟  حضور والا! حساب بہت اوکھا ہے۔اس فانی دنیا میں سب نے چلے جانا ہے۔کسی کی بھی سیٹ پکی نہ ہے۔ کاش تاقیامت حکمرانی کا تاج سر پر سجانے والے زمینی خدا ایک لمحے کے لئے سوچ لیں۔
"ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے"
ہم اس دنیا سے جاتے وقت کچھ ایسا کر جائیں۔لوگ ہمیں مس کریں۔ہمیں یاد کریں۔ہم کوئی ایسا کام نہ کر جائیں جو روز محشر گواہی بن کر ہمیں مجرموں کی فہرست میں کھڑا نہ کروا دے اور اللہ معاف فرمائے۔اس کڑے دن جو پکڑا گیا اسے بھلا کون بچا سکتا ہے؟ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔آمین

مزید :

رائے -کالم -