لیلۃ القدر: اہمیت وفضیلت اور آداب
اللہ تعالی کا خاص فضل اور احسان ہے کہ اس نے امتِ محمدیہ کو لیلۃ القدر جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔ روزے تو اللہ تعالی نے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے تھے لیکن روزوں میں خصوصی اہمیت وفضیلت اور مقام ومرتبے والی رات ’’ لیلۃ القدر‘‘ صرف اس امت کو عطا فرمائی۔رمضان المبارک کے آخری عشرے میں آنے والی اس رات کو لیلۃ القدر کا نام کیوں دیا گیا؟ اس بارے میں تین چار اسباب عموما بیان کیے جاتے ہیں۔ اول: یہ کہ بندۃ مسلم چونکہ اس رات بکثرت عبادت اور نیک اعمال کرتا ہے اس لیے وہ اللہ تعالی کے ہاں بڑی قدر ومنزلت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ دوم: یہ کہ اس رات اللہ تعالی نے بڑی ہی قدر ومنزلت والی کتاب قرآن مجید کا اپنے بڑے ہی محبوب اور معزز نبی حضرت محمد رسول اللہؐ کی طرف نزول فرمایا۔ سوم: یہ کہ اس رات اللہ تعالی آئندہ سال تک کے لیے لوگوں کے بارے میں اہم تقدیریں اور فیصلے تحریر فرماتے ہیں، چنانچہ تقدیر کی مناسبت سے اسے لیلۃ القدر کہا گیا۔ چہارم: یہ کہ عربی زبان میں ’’ قدر‘‘ کا مطلب تنگی بھی ہوتا ہے، یعنی اس رات آسمان سے زمین کی طرف نازل ہونے والے فرشتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ زمین ان کے لیے تنگ پڑ جاتی ہے۔
انسان کے بس میں نہیں کہ وہ اس کی عظمت وشان کا صحیح معنوں میں ادراک کر سکے۔ چنانچہ اس مبارک رات کو وہ شان عطا ہوئی ہے کہ انسانی ذہن اور دماغ اس کا اندازہ کرنے سے قاصر ہے۔
اس ایک رات میں کی جانے والی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔
اس رات حضرت جبریل امین علیہ السلام کی قیادت میں اپنے رب کے خصوصی حکم سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں اور طلوعِ فجر تک ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہوتی ہے۔
اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مکمل ایک سورت اسی نام سے نازل فرمائی۔
اس رات اللہ تعالی اپنے بندوں کے رزق، تقدیر اور بڑے بڑے معاملات کے فیصلے فرماتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’قسم ہے اِس کتاب مبین کی ، کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ، یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ ہمارے حکم سے صادر کیا جاتا ہے، تیرے رب کی رحمت کے طور پر ہم ایک رسول بھیجنے والے تھے، یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الدخان:6۔2)
اس کی اہمیت اس سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ یہ خاص تحفہ اللہ تعالی نے امتِ محمدیہ کو ہی عطا فرمایا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ سابقہ امتوں میں لوگوں کی عمریں بہت لمبی ہوتی تھیں جبکہ اس امت میں جب اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی عمریں کم کر دیں تو متبادل کے طور پر انہیں یہ رات عطا فرمائی تاکہ خیر وبرکت اور نیکی کے کاموں میں یہ امت کسی سے پیچھے نہ رہ جائے۔ یہ بھی اللہ تعالی کا فضل ہے کہ نیکیوں کا یہ موسم بہار وقتی اور عارضی نہیں بلکہ دائمی اور قیامت تک کے لیے ہے۔
(1)۔ صحیح ابن خزیمہ میں موجود ایک حدیثِ نبوی سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ رات نہ تو زیادہ گرم ہوتی ہے اور نہ ہی ٹھنڈی، بلکہ اس رات موسم بڑا ہی معتدل ہوتا ہے۔
(2)۔ رات کو عموما ایک چمکدار ٹوٹا ہوا ستارہ ( شہابِ ثاقب) ہم دیکھتے ہیں، وہ ان جنات کو مارا جاتا ہے جو آسمان کی طرف چڑھ کر فرشتوں کی باہمی گفتگو سننے اور اسے چرانے کی جسارت کرتے ہیں۔
(3)۔ صحیح مسلم میں موجود حدیث کے مطابق اس رات کے بعد آنے والی صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو معمول کے مطابق طلوع ہوتے وقت اس کی جو شعاعیں ہوتی ہیں، اس دن وہ معدوم ہوتی ہیں۔
یہ چند علامتیں صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہیں۔ یہاں نشاندہی کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ علامتیں عوام الناس میں شہرت حاصل کر چکی ہیں، حالانکہ وہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔ مثلا درختوں کا جھکنا اور سجدہ ریز ہو جانا، سمندری پانی کا میٹھا ہو جانا، بالٹی وغیرہ میں موجود پانی کا دودھ میں تبدیل ہو جانا، آسمان سے روشنی کا اترنا، فرشتوں کا مسلمانوں کو سلام کہنا، کتوں کا اس رات نہ بھونکناور گدھوں کا بھی خاموش رہنا وغیرہ وغیرہ۔
اس رات کو اللہ تعالی نے جب اس قدر عظمت عطا کی ہے تو ایک مسلمان اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی نعمت اور احسان کے شکریہ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جائے جس کے لیے اللہ تعالی نے وہ عطا کی ہے۔ ذیل میں چند اعمال کی نشاندہی کی جاتی ہیجنہیں اپنا کر ہم اس رات سے کسی حد تک استفادہ کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
(1)۔ توبہ واستغفار: انسان اپنی سابقہ زندگی میں کیے ہوے گناہوں کا اللہ تعالی کے سامنے اعتراف کرے، گناہوں پر ندامت کا اظہار کرے، سچے دل سے معافی مانگے اور آئندہ وہ غلطی نہ دہرانے کا پختہ وعدہ کرے۔
(2)۔ تلاوتِ قرآن: چونکہ قرآن مجید اسی مبارک رات میں نازل ہوا تھا، اس لحاظ سے لیلۃ القدر کے ساتھ اس کا بہت گہرا تعلق ہے، چنانچہ اس رات زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ قرآن مجید کی تلاوت یا اسے سننے کی خاطر جو شخص اپنی نیند اور آرام قربان کرتا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن قرآن مجید اللہ تعالی سے سفارش کرے گا اور اس کی سفارش کو قبول بھی کر لیا جائے گا۔
(3)۔ ذکر اذکار اور دعا: اس رات اللہ تعالی کے ذکر اذکار اور دعا کا بہت زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔ ترمذی شریف میں ایک روایت ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ۃ سے دریافت کیا کہ اگر انہیں لیلۃ القدر نصیب ہو جائے تو وہ کون سی دعا مانگیں ؟ تو آپ ۃ نے فرمایا: یوں کہا کرو ’’ اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند فرماتا ہے، چنانچہ مجھے بھی معاف کر دے۔‘‘ انسان کو اپنے لیے، اپنے والدین، اہل وعیال ، عزیز واقارب اور تمام اہل ایمان کے لیے اسی طرح پیارے وطن کے لئے بھی دعا کرنی چاہیے۔
(4)۔ عبادت کا خصوصی اہتمام: اس مبارک رات کی ایک ایک گھڑی بہت قیمتی ہوتی ہے، اس لیے اسے زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت میں صرف کرنا چاہیے۔ اس رات کی عبادت اور فضیلت پانے کی خاطر ہی نبی کریم ۃ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا کرتے تھے اور اپنی امت کو بھی اس کی تعلیم فرمائی۔
عموما دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اس رات کو بیدار تو ہوتے ہیں لیکن یہ بیداری اللہ تعالی کی عبادت میں صرف کرنے کی بجائے انواع واقسام کے کھانے اڑانے، گپ شپ لگانے اور ادھر اْدھر کی باتیں کرنے میں ہی ضائع کر دیتے ہیں۔