ایک لا جواب خود نوشت!

میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا بمبئی کے رہنے والے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد میمن خاندان کے بہت امیر کبیر لوگ تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے انہوں نے برٹش انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ یہ 1942ء کا زمانہ تھا اور دوسری عالمی جنگ زوروں پر تھی۔ انہوں نے اس جنگ میں حصہ لیا اور 1947ء میں پاکستان چلے آئے۔ لیکن ان کے والدین انڈیا (بمبئی) ہی میں رہے۔پاکستان آرمی میں ان کو ترقیاں ملتی رہیں اور وہ میجر جنرل کے رینک تک پہنچے۔
وہ ایس ایس جی (سپیشل سروس گروپ) کے بانی تھے جو آج بھی ایک سربرآوردہ کمانڈو فورس ہے۔ بعد میں وہ PMA کے کمانڈانٹ بھی رہے۔ 1971ء میں ان کو ذوالفقار علی بھٹو نے قبل از وقت ریٹائر کر دیا۔ 1999ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ عسکری کیرئیر کے دوران ان کو ہلالِ جرات، ستارۂ پاکتان اور ستارۂ قائداعظم کے اعزازات دیئے گئے۔
اپنی وفات سے قبل انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان Unlikely Beginningsتھا جس کا اردو ترجمہ راقم الحروف نے ان کی اہلیہ کے کہنے پر کیا اور اس کانام ”بمبئی سے جی ایچ کیو تک“ رکھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزی عنوان کا ترجمہ ”غیر ممکن (یا غیر روائتی) شروعات“ کیا جا سکتا تھا جو کتاب میں بیان کئے گئے واقعات کا عکاس نہ تھا۔ یہ کتاب ان کی خودنوشت بھی ہے۔ اس میں انہوں نے بڑے دلنشیں اور شگفتہ الفاظ میں اپنی عمر کے واقعات کا احاطہ کیا ہے جو ان کا بچپن سے شروع ہو کر ان کی ریٹائرمنٹ تک کے عرصے کو محیط ہیں۔ یہ خودنوشت ایک طرح کے ”افسانوی ادب“ کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ ان کی تحریر براہِ راست دل کی گہرائیوں اور دماغ کی وسعتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے شروع کے چند پیراگراف ذیل میں درج ہیں۔ ان سے قارئین کو اندازہ ہوگا کہ وہ نہ صرف ایک غیر روائتی آرمی آفیسر تھے بلکہ ان کے قلم میں ایک قادر البیان مورخ کا زور اور وسعت موجود تھی……اس خودنوشت کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:
میں نے یکم جون 1923ء کو بمبئی میں اپنے آبائی گھر میں آنکھ کھولی۔ یہ گھر مالابار ہل میں ”لینڈز انڈ روڈ“ (Lands End Road) پر واقع تھا۔ کسی سیانے نے اس سڑک کا نام نہایت سوچ بچار کے بعد رکھا ہوگا کہ اس سڑک سے چند گز دور جانے کے بعد ساحل سمندر کا پانی آجاتا تھا اور زمین واقعی ختم ہو جاتی تھی۔ سارا سارا دن طوفانی لہریں پتھریلی چٹانوں سے سر ٹکراتی رہتیں اور رات کو بھی یہی عالم ہوتا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ مون سون کے موسم میں ان لہروں کی اونچائی بارہ پندرہ فٹ تک چلی جاتی۔ زور دار ہوائیں چلتیں تو دل دہلانے والا شور پیدا ہوتا۔ لیکن یہ سارا منظر ایک اعتبار سے بڑا پرلطف اور مسرت انگیز بھی تھا۔ موسم کوئی بھی ہوتا اور خاص طور پر جب سمندر چڑھا ہوتا تو ان لہروں کی بلندی اور ان کا ہیبت انگیز شور مجھے مدہوش بلکہ مسحور کر دیتا۔ میں ابھی نو دس برس کا ہی تھا کہ ان امواج کے شور بلاخیز میں کھو جاتا اور دنیا و مافیہا سے بے خبر گھنٹوں بلکہ پہروں ساحل پر بیٹھا رہتا۔ یہ ساحل بالعموم سنسان رہتا تھا اور شاذ ہی کوئی متنفس ادھر آتا۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ میں ان لہروں کے شور و غل میں کھویا مبہوت بیٹھا ہوتا کہ ہماری کوئی ”بوا“ زور سے کان میں آکر آواز دیتی اور مجھے عالم بے خودی سے گویا عالم بیداری میں لے آتی۔ (بوا ہمارے گھر میں نوکرانی کو کہا جاتا تھا۔ ویسے اس لفظ کا لغوی مطلب ہے باپ کی بہن یعنی پھوپھی) ایک روز میں بغیر کسی کو بتائے اچانک ساحل کی طرف نکل گیا۔ وہاں جا کر ایسا کھویا کہ خبرہی نہ رہی اور اندھیرا چھا گیا۔ مجھے ڈھونڈنے کے لئے ”تلاش پارٹیاں“ نکالی گئیں۔ اس کے بعد اکیلے ساحل پر جانا، ہمارے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا۔ لیکن میں پھر بھی کبھی کبھار اپنا شوق پورا کر لیا کرتا تھا۔ جب لہریں کم بلند ہوتیں اور سمندر طوفانی نہ ہوتا تو ہم لڑکے بالے، بالٹیاں اور ٹین کے ڈبے لے کر ساحل پر آجاتے اور پانی کے چھوٹے چھوٹے گڑھوں میں ”بے بی فش“ پکڑا کرتے۔ کبھی کبھار ہم گھی اور مرچ مصالحہ بھی ساتھ لے جاتے اور ان مچھلیوں کو ”برسرساحل“ بھون کر لذت کام ودہن کا سامان کرتے…… اور ایسا کرنے سے ہمیں کوئی بھی نہ روکتا!
یہ ایک وسیع و عریض اور خوبصورت گھر تھا جس کے دو حصے تھے۔ ایک حصے میں ایک بہت بڑا بنگلہ بنا ہوا تھا جو پرانی وضع کا تھا اور دوسرے میں جدید طرز کے فلیٹس تھے۔ ان دونوں حصوں کے درمیان اور ان کے آس پاس وسیع باغات اور لان پھیلے ہوئے تھے۔
بنگلے میں مہمان خانے بھی تھے اور رہائشی اپارٹمنٹ بھی۔ ایک اپارٹمنٹ میں میرے دادا اور دادی رہتے تھے اور دوسرے میں ان کی ایک بیٹی جو ہنوز غیر شادی شدہ تھیں۔آخر میں ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں لڑکے اور لڑکیاں دن کے مختلف اوقات میں ٹیوشن پڑھتی تھیں۔ پڑھانے کے لئے گورنس (لڑکیوں کے لئے) اور اتالیق (لڑکوں کے لئے) مقرر تھے جو متعین اوقات پر آتے اور پڑھا کر واپس تشریف لے جاتے۔ اس بنگلے میں دو بڑے بڑے ڈرائنگ روم اور ایک وسیع و عریض ڈائننگ روم بھی تھا۔ اس کی چھتیں سرخ ٹائلوں کی اور سلوپ دار تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کئی کمرے اور بچوں کے چھپنے چھپانے کے بہت سے کونے کھدر نے بھی تھے، جن میں ہم سارا سارا دن کھیل کود میں مصروف رہا کرتے تھے۔ نوکروں اور نوکرانیوں کی بہترین کوششوں کے باوجود ہم شاذ ہی کسی کو پکڑائی دیتے تھے۔ اس گھر کے سامنے والے حصے کو 15 فٹ چوڑے برآمدے سے ڈھانپ دیا گیا تھا جو اس کی خوبصورتی کا باعث تھا۔ گھر تک آنے اور باہر جانے کے لئے باقاعدہ سڑکیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک سڑک داخلے کے دروازے سے گیراجوں تک جاتی تھی اور دوسری برآمدے تک آتی تھی۔
ان باغات اور لانوں کی بہت احتیاط سے دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ تین مالی اس کام کے لئے رکھے ہوئے تھے، جو زندگی بھر اسی گھر ہی میں رہے۔ بنگلے کے سامنے والا لان تقریبا فٹ بال گراؤنڈ کے سائز کا تھا۔ دن کو لڑکے اس میں طرح طرح کی گیمیں کھیلتے اور شام کو بزرگ اور بڑی عمر کے لوگ تازہ ہوا کھانے ادھر آنکلتے۔
باغوں میں قسم قسم کے پھلدار درخت تھے۔ کیلے، چیکو، امرود، ناریل، کھجور اور سیب وغیرہ کی بہتات تھی۔ بیروں کی بہت سی اقسام تھیں۔ ایک بیر کا درخت سفید اور سرخ رنگ کا پھل دیتا تھا۔ اس جیسا درخت میں نے زندگی بھر کہیں اور نہ دیکھا۔ بچوں کو ان درختوں سے دور رکھنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی۔ جو بچہ پھل توڑتا، اس کی خوب پٹائی ہوتی۔ میرے ساتھ کئی بار یہ وقوعہ گزرا لیکن لالچ بھی کیا بری بلا ہے!
گیراجوں کے سامنے بڑ کا ایک بہت بڑا درخت تھا۔ بارہ جوان آدمی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھیرا باندھتے تو اس کے محیط کا سائز بنتا۔ اس کی بلندی 35 فٹ سے زیادہ ہوگی۔ اس کی بعض شاخیں ہمارے سرونٹ کوارٹروں کے اوپر سے گزرتی تھیں جو دو منزلہ تھے اور جن کی اونچائی بیس فٹ سے زیادہ تھی۔ اس درخت پر چڑھنا اور پھر وہاں سے سرونٹ کوارٹروں کی چھتوں پر سے کودتے ہوئے نیچے ان گھروں کے صحن میں جا دھمکنا، ہمارا محبوب مشغلہ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک روز جونہی والدہ گھر سے نکلیں، ہم سب بھائیوں نے موقع غنیمت سمجھا اور درخت پر چڑھ گئے۔ بوا بیچاری چیختی چلاتی رہی لیکن ہم کسی کی کہاں سنتے تھے! اتنے میں دیکھا کہ والدہ کی گاڑی واپس گیٹ میں داخل ہو رہی ہے اور سیدھی اسی جگہ آ کر پارک ہوئی جہاں ہم درخت کے اوپر چڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے شاید جاتے جاتے بوا کی چیخیں سن لی تھیں۔ والدہ نے جوتا اتارا اور ہمیں مخاطب ہو کر بولیں: ”تم فلاں ابن فلاں! ذرا نیچے تو آؤ پھر دیکھو میں تمہاری کیسی درگت بناتی ہوں ……“ ہم بہت ڈر گئے۔ جلدی جلدی درخت پر ہی ایک فضائی کانفرنس منعقد کی اور والدہ محترمہ کو بتایا کہ جب تک وہ ہمیں معاف نہیں کریں گی ہم نیچے نہیں اتریں گے۔ وہ ہماری درخواست کو شرف قبولیت عطا کرنے پر راضی نظر نہ آئیں تو ہم سب ایک نازک سی شاخ سے چمٹ کر اسے زور زور سے ہلانے لگے۔ شاخ جب ایک خطرناک زاویئے سے لہرانے لگی تو ماں آخر ماں ہوتی ہے، بڑی پریشان ہوئیں اور کہنے لگیں کہ نیچے اتر آؤ، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم لوگوں کو کچھ نہیں کہوں گی۔ لیکن جونہی ہم نیچے اترے والدہ نے میرا گریبان پکڑ لیا اور باقی بھائیوں کو آیاؤں اور ڈرائیور نے قابو کر لیا۔ بس پھر کیا تھا۔ اللہ دے اور بندہ لے…… ہمیں وہ سزا ملی کہ جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ نہیں دیں گی!