ارفن ڈے، مواخات کے ادارے غریب کا بھرم!
نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق صحابہ کرامؓ شعبان میں ہی رمضان المبارک کا شدت سے انتظار شروع کر دیتے تھے اور نیکیوں کے موسم بہار کی لوٹ سیل سے استفادہ کرنے کے لئے جامع منصوبہ ترتیب دے لیتے۔ پاکستان میں بھی رمضان المبارک کے تیزی سے سردیوں کی طرف بڑھنے کی وجہ سے2024ء کا رمضان زیادہ سخت نظر نہیں آ رہا تھا یہی وجہ ہے اس سال مارچ سے شروع ہونے والا رمضان ٹھنڈی ہواؤں اور بوندا باندی کے ساتھ ژالہ باری بھی لے کر آیا ہے دیکھتے ہی دیکھتے پہلا عشرہ مکمل ہو چکا ہے،کوئی بدقسمت ہی ہو گا جو ٹھنڈے رمضان کو اپنی زندگیوں میں پا کر بھی قرب الٰہی کا حصول حاصل نہ کر سکا ہو۔ رحمتوں کے عشرے کے بعد مغفرت کا عشرہ شروع ہے اس عشرے کی خاص بات گزشتہ کئی سال سے یونیسف15رمضان کو ارفن ڈے کے طور پر مناتا ہے، یتیم بچوں کی تعداد دنیا بھر میں ساڑھے14کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، سات کروڑ کے قریب بچے ایشیا میں موجود ہیں۔ عراق، افغانستان، شام، لبنان کے بعد اسرائیل کی دہشت گردی کی وجہ سے فلسطین میں تعداد سب سے زیادہ ہو چکی ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی یتیم بچوں کی تعداد پانچ ملین کو کراس کر چکی ہے، بڑی تعداد ایسے بچوں کی جو تعلیم و تربیت، صحت اور خوراک سے محروم ہیں۔
گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی الخدمت فاؤنڈیشن، غزالی فاؤنڈیشن سرفہرست ہیں۔ ہیلپنگ ہینڈ مسلم ایڈ اسلامک ریلیف ہیومن اپیل، قطر چلائی، تعمیر ملت، ایدھی فاؤنڈیشن، تعمیر ملت، انجمن فیض اسلام، انجمن یتیم بچوں کی کفالت کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کا آغوش نمبرون بن چکا ہے جس نے بڑے شہروں میں بچوں کے لئے بہترین آغوش قائم کر ہے ہیں جہاں تعلیم و تربیت کے ساتھ مفت کھانے پینے کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ یتیم بچوں کی کفالت اگر کوئی خاندان اپنے ذمہ لینا چاہئے تو الخدمت فاؤنڈیشن اور دیگر اداروں سے مستقل بنیادوں پر لے کر اللہ سے جنت کا حصول ممکن بنا سکتا ہے۔رمضان المبارک میں نیکیوں کا بدلہ کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی لاکھوں یتیم بچوں کی کفالت سرکاری سطح پر ممکن نہیں پاکستان میں سات کروڑ سے زائد خاندان کسمپرسی کی حالت میں زندگیاں گزار رہے ہیں ہمارا ملک 99 فیصد مسلمان آبادی والا ملک ہے دنیا میں چیرٹی میں بھی ہم سرفہرست ہیں مواخات کے ادارے بڑھتی ہوئی غربت کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن رہے ہیں آج کا کالم ہر سال کی طرح مواخات مدینہ کے مشن کو آگے بڑھانے میں حصہ ڈالنے کے لئے ہے،حالانکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اصل ذمہ داری تو حکومت کی ہونی چاہئے جو مساجد، مدارس اور غریبوں کی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے منظم پروگرام پر عمل درآمد کرائے۔
ایسا نہیں ہو رہا ہمارے گزشتہ 76 سال سے حکمرانوں کو99فیصد مسلمانوں سے زیادہ ایک فیصد غیر مسلم کی زیادہ فکر ہوتی ہے ان کی داد رسی اور خدمت سے انہیں بین الاقوامی ادارے بہتر انداز میں قرض اور چندہ دیتے ہیں۔اللہ کا شکر ہے مواخات کا نظام جو 1400سال پہلے ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع کیا تھا اس کو آگے بڑھانے کے لئے مخیر حضرات سمیت سوشل سروسز کے ادارے اور سماجی تنظیمیں بڑے احسن انداز میں آگے بڑھا رہی ہیں۔پاکستان میں اِس وقت خدمت کا مربوط اور وسیع نیٹ ورک رکھنے والی الخدمت فاؤنڈیشن ہے جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کا شعبہ ہے جو سیاست سے بالاتر ہو کر ڈاکٹر حفیظ الرحمن صاحب کی قیادت میں یتیم بچوں سمیت صاف پانی کی فراہمی، شہدا کے بچوں اور یتیم بچوں کی کفالت کا بیڑا ٹھائے ہوئے ہے،میں ان کی کوششوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق سے بڑے عاجزانہ انداز میں درخواست کروں گا وہ الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمت اور رہنمائی کا رخ پاکستان کے بڑے شہروں اور چھوٹے قصبات کی طرف موڑ دیں، دنیا بھر کا درد اچھی بات ہے۔ بین الاقوامی سوچ بہتر اندازِ فکر ہے انقلاب اب جمہوری انداز میں اسی معاشرے میں بسنے والوں کے ووٹوں سے لانا چاہتے ہیں اِس لئے ہدف بھی انہیں بنانے کی ضرورت ہے۔ آپ کے ادارے واقعی منفرد ہیں پہلا حق آپ کے ارکان، پھر کارکنان،پھر حمایت کرنے والوں اور پھر اردگرد بسنے والوں کا ہے جذباتی تجویز نہیں ہے اپنے گھر کی فکر پہلے کی جاتی ہے۔
ہیلپ لائن ایسی سماجی تنظیم ہے جس کا میں بھی باقاعدہ حصہ رہا ہوں۔ جسٹس(ر) اعجاز چودھری، مجیب الرحمن شامی، سید احسان اللہ وقاص بھی ہر اول دستہ میں رہے، مگر اس کے روح رواں اخلاق الرحمن جنہوں نے اپنی زندگی فلاح انسانیت کے نام وقف کر رکھی ہے۔ ہیلپ لائن کسی نہ کسی انداز میں معاشرے کو سنوارنے میں لگی رہتی ہے۔ راشن کی تقسیم، ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے مفت کھانے کی فراہمی، سرکاری سکولوں کی تعمیر و مرمت، غریب لوگوں کو پانی کی فراہمی کے لئے واٹر پمپ لگانے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی میدان میں سب سے زیادہ فلاحی و سماجی خدمات انجام دینے والی الغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا تذکرہ نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔ صدارتی سول ایوارڈ یافتہ سید عامر جعفری جو ایک وقت میں 500سے زائد سکولوں میں پڑھنے والے سوا لاکھ سے زائد یتیم اور مستحق بچوں، پانچ ہزار سے زائد معذور بچوں کی کفالت کا بیڑ اٹھائے ہوئے ہیں، سالانہ 14کروڑ سے زائد کا بجٹ درکار ہوتا ہے۔
غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو اعزاز خاصل ہے ان کا ٹارگٹ دیہات میں غریب بستیاں ہیں ان کو خواندہ بنانے کا عزم ہے غزالی فاؤنڈیشن کے ترجمان بتا رہے تھے، ایک یتیم بچے کی سالانہ کفالت پر20 ہزار روپے سے زائد جبکہ معذور سپیشل بچے پر 25 ہزار روپے سے زائد اخراجات آ رہے ہیں، ان کی کتابیں، کاپیاں، سٹیشنری، یونیفارم، فوڈ پیکیج علیحدہ ہیں۔غزالی کے مشن کا حصہ براہ راست بننے کے لئے ہاٹ لائن (0333-1213623) یا ہیلپ لائن 438-438-111 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے،اسی طرح لاہور میں ثریا عظیم ہسپتال،آمنہ جبار ہسپتال،منصورہ ہسپتال کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔
ثریا عظیم ہسپتال جدید سہولیات کا حامل ہے چوبرجی میں واقع ثریا عظیم ٹرسٹ میں صرف200 روپے کی پرچی پر آپ اپنا چیک اپ کرا سکتے ہیں۔ضیاء الدین انصاری کی سرپرستی میں ڈاکٹر افتخار احمد چودھری کی زیر نگرانی معروف سرجن ڈاکٹر فواد نور ایم ایس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، ایمرجنسی، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ، لیبارٹری ٹیسٹ، ہڈی، دانتوں کے شعبوں سمیت گائنی کے تجربہ کار ڈاکٹرز موجود ہیں تقریباً مفت علاج جاری ہے۔فیصل آباد شہر میں مجاہد ہسپتال نے خدمت کے شعبے میں خوب نام کمایا ہے۔ مشتاق احمد شیخ کی زیر نگرانی معروف ڈاکٹر 24گھنٹے خدمت میں مصروف ہیں، ہر شعبے کی طرف سے ماہانہ سہ ماہی فری میڈیکل کیمپ ان کا طرہئ امتیاز ہے۔
سماجی اور خدمت کے ادارے ہی ہمارے معاشرے کا حسن اور غریبوں کا واحد سہارا ہیں اور ان تمام اداروں کی نظریں اہل خیر پر لگی ہوتی ہیں اور نیکیوں کے موسم بہار رمضان المبارک کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے، جس میں ایک روپے کے بدلے70 روپے اور 700 روپے تک اجر بڑھا دیا جاتا ہے،نفل کا ثواب فرض کے برابر ہو جاتا ہے، خدمت کرنے والے اداروں کی تحسین ضروری ہے،میں نے چند اداروں کا تذکرہ کیا ہے،حالانکہ ہمارے گلی محلوں میں واقع درجنوں شخصیات اور ادارے بالعموم اور ہمارے دینی مدارس جو ہمارے مستقبل کی ضمانت میں ان کی مدد ہمارا فرض ہے آئیں مل کر سماجی اور خدمت کے اداروں کا حصہ بنئے اللہ ہماری کوششوں کو قبول فرمائے، آمین
٭٭٭٭٭