قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 108
اب میں نے پہلی سیچوئیشن کے لیے جو گانا لکھا تھا وہ میں نے امتیاز علی تاج صاحب کو دکھایا اور کہا کہ میری نظر میں یہ گانا بہت اچھا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ میری نظر میں یہ بہت اچھا ہے۔ میں نے کہا کہ پھر آپ یہ گانا ماسٹر صاحب سے Approve کروائیں ۔ اور اس طرح کروائیں کہ وہ ناراض نہ ہو ں۔ میں نے کہا کہ آپ انہیں سامنے بٹھا کر مجھ سے یہ گانا سنیں اور اپروو کردیں۔ وہ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے ۔ چنانچہ ہم ایک ساتھ بیٹھے اور انہوں نے ماسٹر صاحب کے سامنے مجھ سے پوچھا کہ قتیل صاحب ! سنائیے کیا لکھا ہے۔ میں نے گانا سنایا تو وہ کہنے لگے واہ واہ۔۔۔واہ واہ۔۔۔ کیا خوبصورت گانا لکھا ہے۔ اور انہوں نے اس طرح کہا جیسے ان پر وجد طاری ہو گیا ہو۔ پھر کہنے لگے کہ یہ گانا ماسٹر صاحب کو دیجئے۔ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ تاج صاحب ! یہ گانا تھوڑا سا مشکل نہیں ہے۔ تاج صاحب کہنے لگے کہ مشکل ہے؟ وہ غزل تھی۔
لو چل دیئے وہ ہم کو تسلی دیئے گئے
اک چاند چھپ گیا ہے اُجالا کئے بغیر
اے ضبط عشق اور نہ لے امتحانِ غم
ہم رو رہے ہیں نام کسی کا لیے بغیر
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 107 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اب ماسٹر صاحب لفظ امتحان غم پر انگلی رکھ کر کہنے لگے کہ یہ ذرا مشکل ہے ۔ تاج صاحب کہنے لگے کہ ماسٹر جی آپ ان معاملات پر کیوں کڑھتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے ۔ آپ بس ٹیون بنائیے ان معاملات کے لیے میں جو بیٹھا ہوں ۔ اور آپ لفظوں کو مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ اس طرح تاج صاحب نے ایک طرح سے ان کی فہمائش کر دی۔ پھر ماسٹر جی نہیں بولے۔ اس واقعہ کے بعد بھی میں ماسٹر صاحب سے مل کر کام کرتا رہا اور بالآخر ہم دونوں میں اتنی انڈر سٹینڈنگ ہو گئی کہ آئندہ کیلئے لمبے چوڑے پروگرام بننے لگے۔ ایک دن وہ مجھے کہنے لگے کہ قتیل صاحب ویسے تو یہاں بھی ٹھیک ہے کیونکہ یہ اپنا وطن ہے لیکن میں کاروبار ی طور پر یہاں آکر پچھتایا ہوں۔ کیونکہ یہاں فن کی قدر نہیں ہے ۔ پھر کہنے لگے کہ میں وہاں پر ایک لاکھ روپے لیتا تھالیکن یہاں پر صرف دس ہزار روپے لیتا ہوں۔ پھر مجھے کہنے لگے کہ آپ بھی میرے ساتھ چلئے۔ ہم ادھر جا کر ایک دو سال لگا کر واپس آئیں گے اور یہاں آکر بزازی کی دوکان کھول لیں گے لیکن یہ کام یہاں نہیں کریں گے۔ غرضیکہ پھر ہمارے درمیان انڈر سٹینڈنگ اتنی بڑھ گئی تھی کہ اس طرح کے پروگرام بھی بننے لگے اور کھانا پینا بھی اکثر ایک ساتھ ہوتا۔
وہ پیتے بھی تھے اور ان کی عادت تھی کہ پینے کے بعد انہیں وہ لوگ یاد آتے تھے جن سے کبھی انہوں نے پیار کیا تھا۔ ان کانام میں یہاں نہیں لیتا کیونکہ مجھے کسی کی رسوائی مقصود نہیں۔ یہ ان کا نام لیتے تھے اور روتے تھے اور یا پھر یہ کہتے تھے کہ اس ملک میں فن کی کوئی قدر نہیں ہے آپ میرا ساتھ دیں۔ انڈیا جائیں گے دو سال لگا کر واپس آئیں گے۔ میرے پاس کوئی دس لاکھ روپے ہوں گے۔ اور آپ کے پاس بھی دو لاکھ روپیہ تو ہو ہی جائے گا۔ دونوں مل کر بزازی کی دوکان کھولیں گے اور آپ میرے پارٹنر ہوں گے۔ پینے کے بعد پھر اور پیگ لیتے تھے اور پھر انہی چیزوں کو دہراتے تھے۔ پھر کہتے تھے کہ آہ اس کی کیا آواز تھی اور کیا حسن تھا۔ افسوس کہ اس کا ساتھ نہ ہو سکا۔
اس دوران میں انہیں گلے کا کینسر ہو گیا ۔ انہوں نے دو شادیاں کی ہوئی تھیں۔ ایک تو فیملی ہی میں کی ہوئی شادی تھی۔ جس وقت ان کی یہ شادی ہوئی تھی اس وقت وہ اتنے بڑے میوزک ڈائریکٹر نہیں بنے تھے۔ اس لیے وہ شادی اسی برادری سے اسی معیار کے مطابق ہوئی تھی۔ ویسے وہ ذہنی طور پر بہت بڑے آدمی تھے۔ ان کا گھریلو ماحول تو اسی سطح پر رہا لیکن وہ خود بہت اوپر پہنچ گئے۔ ان کے اندر ایک بڑا آدمی بھی تھا۔ ان سے بات کرتے ہوئے پتہ چلتا تھا کہ ہم کسی معزز آدمی سے بات کر رہے ہیں۔
ان کی دوسری شادی امراؤ ضیاء بیگم سے ہوئی تھی۔ ان کی ان کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ چائنا فون سے وابستگی کے زمانے میں ہو گئی تھی کیونکہ یہ گھر سے اکتائے ہوئے تھے۔ جس وقت یہ گلے کے کینسر کی بیماری میں میوہسپتال میں پڑے ہوئے تھے’’گلنار ‘‘ فلم کا میوزک مکمل کر چکے تھے لیکن ابھی بیگ گراؤنڈ میوزک باقی تھا۔ جو انہی کے رشتہ دار رشید عطرے نے کیا۔ جب یہ ہسپتال میں پڑے تھے تو دونوں بیویوں کی طرف سے سازشیں جاری تھیں۔ ایک طرف کی فیملی جاتی اور کہتی کہ ماسٹر جی ہمارا کیا بنے گا۔ دوسری طرف اکی فیملی جاتی تو کہتی کہ یہ مکان ہمارے نام کر دیں۔ یہ ان سازشوں سے تنگ آئے ہوئے تے۔ میرے اس زمانے میں ان کے ساتھ تعلقات عروج پر پہنچ گئے ہوئے تھے اور شروع میں جتنی ناچاقی تھی اب اتنی قربت تھی۔
میں ایک دن ہسپتال گیا تو کہنے لگے کہ قتیل صاحب ! آپ زندگی میں دوسری شادی کبھی نہ کریں مر جائیں لیکن دوسری شادی نہ کریں۔ ان سے بولا نہیں جاتا تھا اور انہوں نے بڑی مشکل سے اور بڑی آہستہ آواز میں یہ بات کہی تھی ۔ وہ اپنی دو بیویوں سے کم اور ان کے رشتہ داروں سے زیادہ تنگ آئے ہوئے تھے جو یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ وہ مررہے ہیں بلکہ یہ سوچ رہے تھے کہ کسی طرح جائیداد میں سے حصہ مل جائے۔
پہلے بھی دو شادیوں کے بارے میں میرا تصور ایسا ہی تھا کیونکہ کچھ گھریلو معاملات بھی میرے سامنے تھے۔ لیکن اس دن سے میں نے یہ بات پلے باندھ لی اور ماسٹر غلام حیدر کے ان الفاظ سے دو شادیوں کے خلاف میرے دل میں ایک جذبہ مرتسم ہو کر رہ گیا ۔اس کے بعد زندگی میں ہزار انقلاب آئے لیکن میں دو شادیوں والے پل صراط سے آسانی سے گزر گیا۔(جاری ہے)
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 109 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں