اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا!
اللہ نے انسان کے لئے بے شمار نعمتیں بنائی ہیں اگر ہم سوچیں تو ہمارے جسم کا ایک ایک بال اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہے تو کبھی ادا نہیں کر سکتا اللہ خود فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کر سکتے انسان وہ ہے جو اپنے مالک کی دی ہوئی نعمتیں استعمال کر کے اس کا شکر بھی کرے اور جو لوگ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت کا شکریہ ادا کرتے ہیں اللہ ان پر راضی ہو کر ان کو اور زیادہ عطا فرماتا ہے اور اس کے برعکس جو لوگ اس کا دیا ہوا بھی کھاتے ہیں اور اس کا شکر ادا نہیں کرتے اللہ ان سے ناراض ہو جاتا ہے اور ان لوگوں پر اللہ کا شدید عذاب بھی ہے ہم جب بھی اپنے پیارے کارزق کھائیں اس کی نعمتوں کا استعمال کریں تو دینے والے پروردگار کا شکریہ بھی ادا کرنا ہم سب پر واجب ہے ہمیں اللہ کی نعمتوں کو سوچنے کی عادت ڈالنی چاہیے اگر ہم میں فکر پیدا ہوگئی تو ہم دینے والے محسن کا شکریہ بھی ادا کیا کریں گے اور دل سے نعمتوں کی قدر بھی ہم کریں گے اور ان کے دینے والے ذات سے بھی پیار بڑھ جائے گا ہم زبان سے بھی الحمد اللہ کہیں گے اعضاء سے بھی اس نعمتوں کا شکر اس کی عبادت کی زیادتی کر کے کریں گے اور یقینا ہر مسلمان کو اللہ کی نعمت کی قدر بھی کرنی چاہیے اور ان کا شکر ادا کرنا بھی ضروری ہے مگر جب انسان کو اللہ نعمتیں عطا فرماتا ہے تو وہ اللہ کا احسان مان کر اس ذات کا فرمانبردار بننے کی بجائے اس کی دی ہوئی نعمتوں کی بے قدری کرتا ہے اور نافرمان کو اللہ ڈھیل دیتا ہے اور اس کو مختلف اشاروں سے سمجھایا جاتا ہے کہ یہ کفران نعمت مت کرے اور احسان مان کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا بن جائے جبکہ نافرمان بندہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میرا یہ عمل برا ہوتا تو مجھے مجھ کو سزا ملتی جو نہیں ملی اور اس طرح اس کی جرات بڑھ جاتی ہے پھر تو اس کی نافرمانی کی حد نہیں رہتی اور جب یہ نوبت پہنچ جائے تو بلاؤں کا دروازہ کھل جاتا ہے اگر اس پر بھی انسان نہ سمجھے تواسے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے اور اس کو آخرت کی نعمت یعنی مغفرت اجروثواب سے بھی محروم کردیا جاتا ہے اور جب کوئی اللہ کا بندہ اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر الحمداللہ کہتا ہے اس کا شکر ادا فرماتا ہے تو جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں وہ جس دروازے سے چاہے اند داخل ہو جائے اور ایک مرتبہ الحمد اللہ کہنے سے تیس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اس کی برکت زمین و آسمان کے درمیانی خلا کر پر کر دیتی ہے جب دوسری بار الحمد اللہ کہتا ہے تو اس کے انوار ساتویں طبق آسمان سے لے کر ساتویں طبق زمین تک بھر جاتے ہیں تیسری طرف الحمداللہ کہنے سے اللہ خود اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے کسی نعمت کا شکر صرف زبان سے الحمداللہ کہنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ زبان سے الحمداللہ کہنے کے بعد اپنے عمل سے یعنی اس نعمت کو بندگان خدا کے کام بھی لایا جانا شکرانہ نعمت ہے انسان بڑا نا شکرا ہے اسکی حرص اس کو نعمت کی قدر نہیں کرنے دیتی جو تقدیر میں نہیں اس کو نعمت سمجھتا ہے اور اس کے لئے تدبیر کرتا پھرتا ہے ایسی تدابیر کا انجام ہلاکت ہے نعمتیں ملنے سے قبل اور بعد شغل مع اللہ میں کمی نہ ہو قلب کی وہی حالت رہے جو پہلے تھی اور یہ بھی ہو سکتا ہے اگر اللہ کو چھوڑ کر نعمتوں میں مشغول رہے اور اس کو بھول جائے تو وہ نعمت چھین لی جاتی ہے اسی طرح حسد اور ناشکری بھی نعمتوں اور نیکیوں کو برباد کر دینے والی ہیں جب بھی اللہ کوئی خدمت اپنے بندوں کو عطا فرمائے تو اس کا شکر یہ ہے کہ زبان سے الحمدا للہ کہے اور جن کا اس کام سے تعلق ہو ان کی حاجت براری کیا کرے یہی اصل شکر ہے بندہ بہت سی چیزوں کو برا خیال کرتا ہے حالانکہ اس میں ہی اس کا فائد ہ ہوتا ہے انسان کی شریعت کی پابندی کرنی چاہیے اور ہر لمحہ اللہ کا ذکر بھی کرتے رہنا چاہیے اس سے دنیا میں تو عزت و کامیابی عطا ہو گی ہی مگر آخرت میں بھی اس کا بہت اجر وثواب ملے گا اللہ کا شکر یہ ہے کہ اہل دنیا سے اچھا برتاؤ رکھا جائے اور دل سے اللہ اللہ کیا جائے نفع ونقصاب کا مالک اللہ ہے اللہ کی نعمتوں کی دل سے قدر کر کے اس کی نعمتوں کو اس کی فرماں برداری میں صرف کرنا چاہیے اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا شعار بنانا چاہیے جب بندہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرکے ان پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کا صلہ یہ ملتا ہے کہ نعمت کو بڑھا دیا جاتا ہے حضور پاک ؐ نے فرمایا کہ پیٹ بھر کے شکر ادا کرنے والے شاکر کا مقام روزہ رکھنے والے صابر کے برابر ہے ہم نے صرف زبان سے الحمد اللہ کہنے کو اس کی تسبیح کرنے کی شکر سمجھ رکھا ہے یہ درست نہیں ہے نعمت دینے والے کا کثرت سے شکر ادا کیا جائے اس کی بارگاہ میں جھکا جائے تو یہ اس کا شکر ہے۔ حضرت سری سقطی ؓفرماتے ہیں کہ جو شخص نعمت کی قدر نہیں کرتا اس سے نعمت اس طرح سلب کی جاتی ہے کہ اس کی خبر تک نہیں ہوتی یہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ہی ہے جس سے انسان کے رزق اور اعمال اولاد میں برکت پڑتی ہے اور ناشکرے کو کچھ نہیں ملتا ہمارے ہاں یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی نعمت ملتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری محنت کا ثمرہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو سے نعمت خداوندی سمجھ کر اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور اگر کوئی نعمت واپس لی جاتی ہے تو انسان فورا اس کی ناشکری کرتا ہے یہ حرکت عتاب الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے جبکہ ہر ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا اہل ایمان اور مومن کا شیوہ ہے۔
٭٭٭