اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا!

  اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اللہ نے انسان کے لئے بے شمار نعمتیں بنائی ہیں اگر ہم سوچیں تو ہمارے جسم کا ایک ایک بال اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہے تو کبھی ادا نہیں کر سکتا اللہ خود فرماتا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کر سکتے انسان وہ ہے جو اپنے مالک کی دی ہوئی نعمتیں استعمال کر کے اس کا شکر بھی کرے اور جو لوگ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت کا شکریہ ادا کرتے ہیں اللہ ان پر راضی ہو کر ان کو اور زیادہ عطا فرماتا ہے اور اس کے برعکس جو لوگ اس کا دیا ہوا بھی کھاتے ہیں اور اس کا شکر ادا نہیں کرتے اللہ ان سے ناراض ہو جاتا ہے اور ان لوگوں پر اللہ کا شدید عذاب بھی ہے ہم جب بھی اپنے پیارے کارزق کھائیں اس کی نعمتوں کا استعمال کریں تو دینے والے پروردگار کا شکریہ بھی ادا کرنا ہم سب پر واجب ہے ہمیں اللہ کی نعمتوں کو سوچنے کی عادت ڈالنی چاہیے اگر ہم میں فکر پیدا ہوگئی تو ہم دینے والے محسن کا شکریہ بھی ادا کیا کریں گے اور دل سے نعمتوں کی قدر بھی ہم کریں گے اور ان کے دینے والے ذات سے بھی پیار بڑھ جائے گا ہم زبان سے بھی الحمد اللہ کہیں گے اعضاء سے بھی اس نعمتوں کا شکر اس کی عبادت کی زیادتی کر کے کریں گے اور یقینا ہر مسلمان کو اللہ کی نعمت کی قدر بھی کرنی چاہیے اور ان کا شکر ادا کرنا بھی ضروری ہے مگر جب انسان کو اللہ نعمتیں عطا فرماتا ہے تو وہ اللہ کا احسان مان کر اس ذات کا فرمانبردار بننے کی بجائے اس کی دی ہوئی نعمتوں کی بے قدری کرتا ہے اور نافرمان کو اللہ ڈھیل دیتا ہے اور اس کو مختلف اشاروں سے سمجھایا جاتا ہے کہ یہ کفران نعمت مت کرے اور احسان مان کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا بن جائے جبکہ نافرمان بندہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میرا یہ عمل برا ہوتا تو مجھے مجھ کو سزا ملتی جو نہیں ملی اور اس طرح اس کی جرات بڑھ جاتی ہے پھر تو اس کی نافرمانی کی حد نہیں رہتی اور جب یہ نوبت پہنچ جائے تو بلاؤں کا دروازہ کھل جاتا ہے اگر اس پر بھی انسان نہ سمجھے تواسے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے اور اس کو آخرت کی نعمت یعنی مغفرت اجروثواب سے بھی محروم کردیا جاتا ہے اور جب کوئی اللہ کا بندہ اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر الحمداللہ کہتا ہے اس کا شکر ادا فرماتا ہے تو جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں وہ جس دروازے سے چاہے اند داخل ہو جائے اور ایک مرتبہ الحمد اللہ کہنے سے تیس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اس کی برکت زمین و آسمان کے درمیانی خلا کر پر کر دیتی ہے جب دوسری بار الحمد اللہ کہتا ہے تو اس کے انوار ساتویں طبق آسمان سے لے کر ساتویں طبق زمین تک بھر جاتے ہیں تیسری طرف الحمداللہ کہنے سے اللہ خود اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے کسی نعمت کا شکر صرف زبان سے الحمداللہ کہنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ زبان سے الحمداللہ کہنے کے بعد اپنے عمل سے یعنی اس نعمت کو بندگان خدا کے کام بھی لایا جانا شکرانہ نعمت ہے انسان بڑا نا شکرا ہے اسکی حرص اس کو نعمت کی قدر نہیں کرنے دیتی جو تقدیر میں نہیں اس کو نعمت سمجھتا ہے اور اس کے لئے تدبیر کرتا پھرتا ہے ایسی تدابیر کا انجام ہلاکت ہے نعمتیں ملنے سے قبل اور بعد شغل مع اللہ میں کمی نہ ہو قلب کی وہی حالت رہے جو پہلے تھی اور یہ بھی ہو سکتا ہے اگر اللہ کو چھوڑ کر نعمتوں میں مشغول رہے اور اس کو بھول جائے تو وہ نعمت چھین لی جاتی ہے اسی طرح حسد اور ناشکری بھی نعمتوں اور نیکیوں کو برباد کر دینے والی ہیں جب بھی اللہ کوئی خدمت اپنے بندوں کو عطا فرمائے تو اس کا شکر یہ ہے کہ زبان سے الحمدا للہ کہے اور جن کا اس کام سے تعلق ہو ان کی حاجت براری کیا کرے یہی اصل شکر ہے بندہ بہت سی چیزوں کو برا خیال کرتا ہے حالانکہ اس میں ہی اس کا فائد ہ ہوتا ہے انسان کی شریعت کی پابندی کرنی چاہیے اور ہر لمحہ اللہ کا ذکر بھی کرتے رہنا چاہیے اس سے دنیا میں تو عزت و کامیابی عطا ہو گی ہی مگر آخرت میں بھی اس کا بہت اجر وثواب ملے گا اللہ کا شکر یہ ہے کہ اہل دنیا سے اچھا برتاؤ رکھا جائے اور دل سے اللہ اللہ کیا جائے نفع ونقصاب کا مالک اللہ ہے اللہ کی نعمتوں کی دل سے قدر کر کے اس کی نعمتوں کو اس کی فرماں برداری میں صرف کرنا چاہیے اس کی مخلوق کی خدمت کو اپنا شعار بنانا چاہیے جب بندہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرکے ان پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کا صلہ یہ ملتا ہے کہ نعمت کو بڑھا دیا جاتا ہے حضور پاک ؐ نے فرمایا کہ پیٹ بھر کے شکر ادا کرنے والے شاکر کا مقام روزہ رکھنے والے صابر کے برابر ہے ہم نے صرف زبان سے الحمد اللہ کہنے کو اس کی تسبیح کرنے کی شکر سمجھ رکھا ہے یہ درست نہیں ہے نعمت دینے والے کا کثرت سے شکر ادا کیا جائے اس کی بارگاہ میں جھکا جائے تو یہ اس کا شکر ہے۔ حضرت سری سقطی ؓفرماتے ہیں کہ جو شخص نعمت کی قدر نہیں کرتا اس سے نعمت اس طرح سلب کی جاتی ہے کہ اس کی خبر تک نہیں ہوتی یہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ہی ہے جس سے انسان کے رزق اور اعمال اولاد میں برکت پڑتی ہے اور ناشکرے کو کچھ نہیں ملتا ہمارے ہاں یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ جب بھی کوئی نعمت ملتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری محنت کا ثمرہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو سے نعمت خداوندی سمجھ کر اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور اگر کوئی نعمت واپس لی جاتی ہے تو انسان فورا اس کی ناشکری کرتا ہے یہ حرکت عتاب الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے جبکہ ہر ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا اہل ایمان اور مومن کا شیوہ ہے۔

٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -