برطانیہ2-
میں اپنی قیام گاہ پہنچا تو برادرم رضوان سلہریا پہلے سے منتظر تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے دوستوں سے تعلق نبھانے اور پاکستان کا نام سر بلند کرنے کی توفیق دے رکھی ہے اور میں حیران ہوتا ہوں کہ وہ اتنے سارے کام اکیلے کیسے کر لیتے ہیں۔ وہ پاکستان میں ہی پلے بڑھے۔ سیالکوٹ سے ان کا تعلق ہے۔ انہوں نے پاکستان سے پولیٹیکل سائنس اور تاریخ میں ماسٹرز کیا‘ پھر ایل ایل بی کیا۔ پاکستان میں ایک بینک میں منیجر کی جاب پہ تھے کہ اعلیٰ تعلیم اور بہتر مستقبل کے خواب لیے وہ برطانیہ روانہ ہوگئے۔
انہوں نے 2010ء میں لندن سے ایل ایل ایم کی تعلیم مکمل کی اورسال 2012ء میں انگلینڈ اور ویلز میں بطور وکیل اپنے کیرئیر کا آغاز کر لیا۔ 2020ء میں انہوں نے اٹلی میں وکالت کا امتحان پاس کرکے ایک بین الاقوامی وکیل کا درجہ بھی پا لیا۔
برطانیہ میں اپنی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے جہاں وہ اپنی جہدِ مسلسل کی کہانی سناتے ہیں وہیں بریٹین سالیسیٹرز (Briton Solicitors) میں پرنسپل سالیسیٹر کے طور پراپنی پیشہ وارانہ زندگی کوبھی خدمت خلق قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی ہنر مند ٹیم کے ساتھ مل کر اہم پیچیدہ چیلنجز، انفرادی حقوق کے تحفظ اور لوگوں کو حصول انصاف میں ہر ممکن مدد فراہم کرتے ہیں۔
رضوان سلہریا صاحب کا سفر قانونی پیشے کے لیے ان کی غیر متزلزل لگن، انصاف کے لیے ان کی وابستگی اور بین الاقوامی تعاون اور ترقی کو فروغ دینے کے ان کے جذبے کا ثبوت ہے۔ برطانیہ اور پاکستان میں قانونی برادری کی بہتری کے لیے ان کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں۔ برطانیہ میں سیمینارز، ایوارڈز، کرکٹ ٹورنامنٹس اور دیگر مختلف تقریبات کے انعقاد میں انکی شمولیت کمیونٹی کی تعمیر اور پیشہ ورانہ نیٹ ورکنگ کے حوالے سے ان کی لگن کو ظاہر کرتی ہے۔
وہ پاکستان کو مستحکم بنانے اور عالمی برادری میں بلند مقام دلانے کے لیے بھی فکر مند رہتے ہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں منعقد اہم سیاسی، معاشی اور ثقافتی تقریبات اور سرگرمیوں میں وہ نا صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ پاکستان کی بہتری کے لیے مواقع بھی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جب وہ پاکستان تشریف لاتے ہیں تو یہاں صاحبانِ اقتدار کو ان مواقعوں سے مستفید ہونے کی ترغیب اور تعاون کی دعوت بھی دیتے ہیں۔
میں جب بھی برطانیہ آیا رضوان سلہریا صاحب سے ضرور ملا۔ میں نے جانا کہ وہ سارا وقت پیسہ کمانے اور جمع کرنے کی دوڑ میں نہیں لگے رہتے بلکہ اپنا وقت اور کمایا ہوا پیسہ پاکستان میں لوگوں کی بہتری کے لیے اور برطانیہ میں پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے صرف کرتے ہیں۔ اس مقصد کے تحت انہوں نے کئی تنظیمیں بنائیں اور کئی تنظیموں کی مالی مدد بھی کی۔ وہ انسانی بہبود‘ خصوصاً پاکستانیوں کی فلاح کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے انٹرنیشنل بزنس اینڈ پروفیشنل کارپوریشن کے نام سے ایک ایسوسی ایشن بنائی۔یہ ایسوسی ایشن برطانیہ میں مقیم مختلف کاروبار اور پیشوں سے وابستہ پاکستانیوں کو ایک مؤثر پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔
رضوان سلہریا اور اس تنظیم کے دیگر عہدے داران نے جن میں عاصم یوسف صاحب سر فہرست ہیں، اس ادارے کے پلیٹ فارم پر نہ صرف مختلف کاروباری حلقوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کی ہے بلکہ پاکستان کی ثقافت اور پاکستانیت کو اجاگر کرنے کے لیے کئی تقریبات منعقد کی ہیں۔ عاصم یوسف صاحب کی کہانی بھی جدوجہد پر مبنی ہے، وہ بھی ایک سیلف میڈ انسان ہیں۔ ان کی شخصیت کا تذکرہ آگے کسی کالم میں آئے گا‘ اس کالم کو فی الحال میں رضوان صاحب کی کاوشوں کے ذکر تک ہی محدود رکھتا ہوں۔ جب میں امسال فروری میں لندن گیا تھا تو اس پلیٹ فارم پر انہوں نے میرے اعزاز میں بھی ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں برطانیہ میں مقیم ممتاز پاکستانیوں اور معروف صحافیوں کے روبرو کاروان علم فاؤندیشن کا تعارف پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے کاروان علم فاؤنڈیشن کے پیغام کو برطانیہ میں مقیم افراد تک پہنچانے کے لیے ہم سے باقاعدہ ایک معاہدہ بھی کر چکے ہیں جس میں انٹرنیشنل بزنس اینڈ پروفیشنل کارپوریشن اپنے پلیٹ فارم پر منعقد ہونے والی تقریبات میں کاروان علم فاؤنڈیشن کی خدمات سے شرکاء کو آگاہ کرنے اور انہیں پاکستان میں فروغِ تعلیم کے لیے کاروان علم فاؤنڈیشن کے ساتھ مالی تعاون کرنے کی دعوت دینے کے لیے ضروری انتظام کرے گی۔ رضوان سلہریا صاحب اور ان کے رفقاء انٹرنیشنل بزنس اینڈ پروفیشنل کارپوریشن کے پلیٹ فارم سے اب تک 500 سے زائد تقریبات کا انعقاد کر چکے ہیں جن میں پاکستانی ثقافت کو اجاگر کرنے اور مذہبی تہواروں کو منانے کا خصوصاً اہتمام کیا گیا۔ اس حوالے سے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے منعقد ہونے والی تمام تقریبات کے اخراجات رضوان سلہریا صاحب اور اس تنظیم کے عہدیداران نے ذاتی جیب سے برداشت کئے اور کبھی مہمانوں کو ٹکٹ بیچی گئی اور نہ ہی کوئی سپانسر شپ لی گئی۔یوں وہ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایک باوقار طریقے سے برطانیہ میں پاکستانی رنگوں کو اجاگر کرنے میں مصروف ہیں۔