پُرامن اور محفوظ پاکستان،ایک خواب
میرے دوست اور ممتاز معالج ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا ملائیشیا کے دورے سے واپس آئے تو آتے ہی مارننگ واک میں ہمرکاب ہو گئے۔انہوں نے اس دورے کی بہت سی یادوں کا تذکرہ کیا۔وہ کوالالمپور کی ترقی دیکھ کر دنگ تھے، سب سے اہم بات وہاں امن وامان کی صورت حال اور احساسِ تحفظ کی اعلیٰ سطح دیکھ کر اُنہیں اس لئے حیرت ہوئی کہ پاکستان میں یہ دونوں چیزیں ناپید نظرآتی ہیں۔انہوں نے بتایاایک ٹرام کے سفر میں اُنہیں ایک اُدھیڑ عمر شخص ملا،اُس نے پوچھا آپ کہاں سے ہیں،ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا نے بتایا پاکستان سے۔اُس نے کہا پاکستان کیسا ملک ہے، ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا نے اوپر تلے تین چار جملے پاکستان کی تعریف میں کہے،اس پر اُس شخص نے کہا کیا وہاں غیر ملکیوں کے لئے سیرو سیاحت کے پُرامن مواقع ہیں، جواب ہاں میں پا کے اُس نے اپنے موبائل سے وہ خبریں دکھائیں جن میں دہشت گردی کے حملوں کا ذکر تھا اور درجنوں لوگ جاں بحق ہوتے تھے،خبریں دِکھا کر اُس نے پوچھا کیا یہ سب جھوٹ ہے؟ اُسے بتایا گیا یہ سچ ہے،مگر یہ اقعات ملک کے دور دراز قبائلی علاقوں میں ہوتے ہیں،شہروں میں امن ہے،لیکن وہ مطمئن نہ ہوا۔ اُس نے بتایا میں ترکی سے ہوں، ملائیشیا میں پچھلے بیس برسوں سے رہ رہا ہوں،اِس ملک کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہاں امن و امان ہے،انصاف ہے،کوئی کسی سے زیادتی نہیں کرتا، لوگ ایماندار ہیں، کئی علاقوں میں پولیس یا چوکیاں نظر ہی نہیں آتیں۔ جب تک امن نہ ہو سیاحت نہیں ہوتی اور بیرونی دنیا سے لوگ نہیں آتے۔آپ اپنے ملک کو پُرامن بنائیں تو شاید میں بھی سیاحت کے لئے آ جاؤں۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا اُس بابت سن کر لاجواب ہو گئے۔ابھی چند روز پہلے میرے بھتیجے حبیب الرحمن خان وینکوور کینیڈا سے ملتان آئے۔ وہ پچیس سال پہلے ملتان سے کینیڈا گئے تھے۔ملتان میں جب وہ مجھ سے ملنے قاسم بیلہ آنے لگے تو انہیں سکیورٹی چیک پوسٹ پر روک لیا گیا۔انہوں نے مجھے فون کیا تو میں نے کہا کیوں روکا ہے،کہنے لگے یہ کہہ رہے ہیں آپ کے پاس کارڈ نہیں ہے۔میں نے کہا بات کراؤ، آگے سے کسی سکیورٹی پر مامور سپاہی نے بات کی،میں نے کہا کینیڈا سے آئے ہیں قاسم بیلہ آنا ہے، مہربانی کریں آنے دیں۔ اُس نے کہا یہ ممکن نہیں،حالانکہ وہ کسی مخصوص سڑک پر نہیں ایئر پورٹ سے آنے والی شاہراہ عام پر کھڑے تھے،میں نے اُنہیں وہیں رکنے کو کہا اور اپنی گاڑی نکال کے وہاں تک پہنچا اور اُنہیں اپنے ساتھ لے کر گھر آیا۔ہم نے خود چیزوں کو اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ یہاں آنے والوں کو وحشت ہونے لگتی ہے، اِن چیزوں سے تحفظ کا احساس پیدا نہیں ہوتا،بلکہ عدم تحفظ جنم لیتا ہے،جگہ جگہ ناکے، چوکیاں، تلاشیاں، رکاوٹیں ہمیں تو اب مجبوراً قبول ہو چکی ہیں،جو باہر سے آتے ہیں انہیں آزاد ممالک میں رہنے کی عادت ہو چکی ہوتی ہے،اُن کے لئے یہ سب کچھ ایک ایسا عذاب ہوتا ہے جو ابن کی پُرامن زندگی کو اجیرن کر دیتا ہے۔بھلا ایسی صورتحال میں ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کوئی سیاح یہاں آئے اور پاکستان کی سیر کرے۔ ہم نے پاکستان کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔کہیں دہشت گردی کے خوف سے، کہیں اپنی چودھراہٹ جانے کی خاطر، کہیں پولیس ناکوں کے ذریعے، کہیں سیاسی ہلچل کو فروغ دے کر، ہم ایک ایسے منجدھار میں گِھر گئے ہیں جہاں سے نکلنے کا ہمیں دور دور تک کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔
ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کے سوچتے ہیں،دنیا کو کیا پتہ ہمارے یہاں کیا ہو رہا ہے۔ہم تو یہی کہتے نہیں تھکتے ہمارے شمالی علاقے سوئٹزر لینڈ سے بھی زیادہ حسین ہیں، ہمارے پہاڑ،آبشاریں، جھیلیں سوئٹزر لینڈ کے نظاروں کو بھی مات دیتی ہیں ہاں جی واقعی یہ تو صحیح ہے،سب کچھ ایسا ہی ہے،لیکن اس میں ہمارا کیا کمال ہے یہ تو قدرت کی دین ہیں، ہم نے کیا حصہ ڈالا ہے۔ کیا ان علاقوں میں امن ہے؟ کیا جب چینی باشندوں کو یہاں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اُس کی خبر دنیا کو نہیں ملتی۔کیا ہم نے اِن علاقوں میں سیاحوں کی سہولت کے لئے کوئی انفراسٹرکچر بنایا ہے۔ روزانہ خبریں آتی ہیں کوئی بس بلندی سے دریا میں گر گئی اور بیس تیس افراد ڈوب گئے۔کبھی کبھار کسی حادثے کی خبر آ جائے تو دنیا اُسے حادثہ سمجھتی ہے،مگر جب خبریں معمول بن جائیں تو حادثہ نہیں رہتیں صریحاً غفلت اور نااہلی کے زمرے میں آتی ہیں۔میرے ایک دوست سفارتکار جو مختلف ممالک میں تعینات رہے ہیں،ایک ملاقات میں بتا رہے تھے، سفارتخانے جب بھی بیرون ملک پاکستان میں سیاحت یا سرمایہ کاری کے لئے کوئی مہم چلاتے ہیں توکوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جو کئے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے، کہیں دہشت گردی ہو جائے تو ہمیں سو سو طرح کی وضاحتیں دینا پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا افغانستان جیسا ملک امن وامان کے حوالے سے ریٹنگ میں ہم سے آگے چلاگیا ہے۔ پاکستان میں بیٹھے ہوئے مقتدر حلقے شاید اِس بات کو اہمیت نہیں دیتے کہ بیرون ملک ہونے والے سیاسی مظاہرے بھی پاکستان کے بارے میں کتنا بُرا امیج ابھارتے ہیں اُن مظاہروں سے اُن ممالک کے عوام کو لگتا ہے پاکستان میں بہت زیادہ بے چینی اور لاقانونیت ہے۔ملکی حالات کو جب تک نارمل نہ کیا جائے، سیاحت نہیں بڑھ سکتی،جبکہ اِس وقت دنیا میں زرِمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ سیاحت کو سمجھا جاتا ہے۔پاکستان سے سیاحت کے لئے جانے والوں کی جتنی تعداد ہوتی ہے،اگر اُس کا تیسرا حصہ بھی غیر ملکی سیاح پاکستان آ جائیں تو ہماری معیشت کو بڑا سہارا مل سکتا ہے،مگر یہاں تو کسی کو اس کی پروا ہی نہیں۔یہ ہماری کسی ترجیح میں شامل ہی نہیں آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔دنیا بھرکے لوگ ایک دوسرے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے منسلک ہو چکے ہیں،مجھ سے اکثر غیر ملکی نہیں بُک فرینڈز پوچھتے ہیں کیا پاکستان سیاحت کیلئے محفوظ ملک ہے؟ آپ یقین کریں میں قسمیں کھا کے انہیں یقین دلاتا ہوں ہاں محفوظ ہے، مگر کچھ ایسی مثالیں پیش کر دیتے ہیں جن سے میری قسموں کا بھرم تہس نہس ہو جاتا ہے۔
دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور ہم پیچھے جا رہے ہیں، آپ غیر ملکی سیاحوں کے اعداد و شمار ہی اُٹھا کر دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا،آج سے تین چار دہائی پہلے ہمارے ہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی تھی، پھر ہم نے امریکہ کی جنگ میں خود کو جھونک دیا۔ وہ شمالی و جنوبی علاقے جو امن کی آماج گاہ ہوتے تھے وہاں اس جنگ کے جنگجو تیار کیے گئے۔ دہشت گردی کے بیج بو کر ہم نے پہلے روس کے مقابل اتارے پھر امریکہ افغانستان آیا تو اسے اپنے علاقے دے کر انہیں جنگ و قتال کا مرکز بنا دیا۔