تعلیم: پاکستان کےلئے زندگی اور موت کا مسئلہ
1947ءمیں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ تعلیم پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کرتی جا رہی ہے کہ ہم نے اگر تعلیم کے میدان میں خاطر خواہ پیش رفت نہ کی تو نہ صرف ہم دوسروں سے بہت پیچھے رہ جائیں گے، بلکہ ہماری تباہی و بربادی کا امکان بھی موجود رہے گا۔ ”ہمارے لئے یہ ہے قائداعظم کا حکم نامہ“.... سوال اب یہ پیدا ہوگا کہ کیا ہم نے قائداعظم کے اس فرمان پر عمل کیا ہے؟.... میرے لئے اس کا جواب نفی میں آئے گا۔ روزِ اول سے ہی ہم تعلیم سے آراستہ نہیں ہو سکے۔ جہالت زوروں پر ہے۔ اگر ہم نے بامقصد تعلیم حاصل کی ہوتی تو آج کے پاکستانی معاشرے کا تشدد پر مبنی پروگرام کبھی بھی معرض وجود میں نہ آتا۔ اس کے لئے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ تعلیم کا حصول صرف امیروں اور درمیانی طبقات تک ہی محدود رہا ہے۔ افسوس کہ تعلیم کو پاکستان کے عام طبقات تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم دنیا میں ترقی نہیں کر سکے۔ ہمارے حکمرانوں نے کبھی بھی تعلیم کو پاکستانی معاشرے میں اس کا جائز مقام نہیں دیا۔ ہم سب یہ یاد رکھیں کہ اگر ہم نے اب بھی با مقصد تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس نہ کیا تو یقینی طور پر ہمارا مستقل روز بروز تاریک ہوتا چلا جائے گا۔ مجھے سخت خدشہ ہے کہ ہماری آزادی خطرات میں گِھر جائے گی۔
اس موقع پر تعلیم سے متعلقہ، مَیں ایک اہم ترین مثال پاکستان کے کروڑوں لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ قائداعظم کی بے مثال قیادت کی وجہ سے ہمیں 1947ءمیں آزادی تو نصیب ہوئی، مگر اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں ہر وقت جدید ترین ہتھیاروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ بھارت کے جواب میں اگر ہم ایٹم بم نہ بناتے تو کیا ہم اپنی آزادی کو ہمیشہ کے لئے قائم و دائم رکھ سکتے تھے؟.... بھارت نے کبھی بھی دل سے پاکستان کے وجود کو نہیں مانا۔ وہ پوری تیاری سے ہمیں نیست و نابود کرنے کی کوشش میں مصروفہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز تعلیم ہی تو ہے، جس کی وجہ سے ہمارے مایہ ناز سائنس دانوں (ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند وغیرہ) کی اجتماعی کوششوں اور قربانیوں سے اپنے دفاع کے لئے ہم ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہم دشمن کے نرغے میں ہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو بھارت نہ جانے کب کا ہم پر حملہ کر چُکا ہوتا؟.... بھارت ہم سے پانچ گنا بڑا ملک ہے۔ اس کی فوج بھی ہم سے کئی گنا زیادہ ہے۔
کشمیر80 فیصد سے بھی زائد مسلمان آبادی والا علاقہ ہے۔ یہ لوگ قدرتی طور پر دل و دماغ اور جسمانی لحاظ سے پاکستانی واقع ہوئے ہیں۔ کشمیر پر بھارت نے اپنی افواج کی طاقت سے قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر چکا ہے۔ 1947ءمیرا بچپن کا زمانہ تھا۔ ڈوگرہ حکمران تھے۔ وہ مسلمانوں کو جڑوں سے اُکھیڑنے کی خاطر اُن پر ہمیشہ ظلم و ستم کیا کرتے تھے۔ ہمارا علاقہ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہمارے علاقے میں صرف ایک پرائمری سکول قائم ہُوا تھا، جبکہ ہمارا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہمارے گاو¿ں کے نزدیک ہی نوشہرہ شہر تھا۔ نوشہرہ میں صرف ایک مڈل سکول تھا۔ نوشہرہ شہر اور ہمارے گاو¿ں راجل کے درمیان مشہور زمانہ جموں توی گزرتی ہے۔ برسات کے موسم میں اکثر یہ توی طغیانی کی لپیٹ میں رہتی ہے۔ اس طرح توی کے مشرق کی طرف سے آنے والے بچوں کے لئے سکول کا راستہ بند ہو جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس علاقے کے تمام بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بند ہو جاتا تھا۔ اس دریا پر پل بھی نہیں تھا.... کوئی پختہ سڑک نہ تھی۔ لوگ کئی کئی میل کا فاصلہ طے کر کے پیدل نوشہرہ آتے جاتے تھے۔ طالب علم بھی کئی کئی میل کا فاصلہ طے کر کے نوشہرہ مڈل سکول تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے تھے۔ ہمارا سارا وقت تو سکول آنے جانے میں لگ جاتا تھا۔ تھکے ہارے بچوں نے کیا خاک ابتدائی تعلیم حاصل کرنی تھی۔
مَیں خود اُن بچوں میں شامل تھا۔ اس طرح بچوں کی اکثریت سکول کا رُخ ہی نہیں کیا کرتی تھی۔ اس سے بڑا ظلم علاقے کی مسلمان آبادی کے ساتھ اور کیا ہو سکتا تھا۔ مَیں ابھی 1947ءمیں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ ریاست کے طول و عرض میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ مَیں نے کئی کئی میل دور تک مسلمانوں کی بستیوں کو آگ کے شعلوں کی نذر ہوتے دیکھا تھا۔ مسلمان صدیوں سے اس خطے میں آباد چلے آ رہے تھے، جن کو دنوں میں ہی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا تھا۔ ایسے ہی حالات اور واقعات کے پیش نظر ہمارے محبوب قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ تعلیم پاکستان کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم قائداعظمؒ کے مذکورہ بالا حکم کی تعمیل کرتے تو آج ہم دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے تناسب سے پانچویں معاشی اور اقتصادی طاقت بن چکے ہوتے۔ مجھے تو اپنے اس تجزیے پر ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ اب بھی ہم ہوش کے ناخن لیں اور جنگی بنیادوں پر سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم پر دسترس حاصل کر لیں۔ وقت ہمارے پاس بہت ہی تھوڑا ہے۔ اس تھوڑے وقت میں ہم نے ماضی کی تمام کمیوں اور کوتاہیوں کو ایک ایک کر کے ختم کرنا ہے۔ ہمارے دشمن ہم سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ ہم ابھی تک خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
مَیں اس بات کو بار بار دھراتا ہوں کہ ہم صرف تعلیم کی بدولت ہی غربت ختم کر سکیں گے اور خوشحالی اور ترقی کی منزل پا سکیں گے۔ اگر ہم نے ایسے نہ کیا تو قائداعظمؒ کے فرمان کے مطابق ہماری تباہی و بربادی کا امکان ہر صورت میں موجود رہے گا۔ آخر میں میری پاکستان کے حکمرانوں کے لئے یہ تجویز ہوگی کہ وہ جلد از جلد قائداعظمؒ کی خواہش کے مطابق پاکستان سے جہالت کو 100 فیصد ختم کر دیں۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کے ملٹری سیکرٹری یا کیبنٹ سیکرٹری اس مضمون کو اگر پڑھیں تو وہ اپنی اولین فرصت میں یہ کالم دونوں حکمرانوں کی میز پر رکھ دیں، ساتھ ہی اُن کے سامنے قائداعظم کا یہ بیان بھی رکھیں کہ تعلیم پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر اب بھی تعلیم کی طرف توجہ مبذول نہ کی گئی تو ہم دوسروں سے نہ صرف پیچھے رہ جائیں گے، بلکہ ہماری تباہی و بربادی کے امکانات بھی موجود رہیں گے۔
بدقسمتی سے ہمارے حکمران تعلیم کی عظمت سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کم از کم مدت میں حکمران پاکستان سے جہالت کو ختم کر دیتے۔ ایسا وقت کب آئے گا، جب پاکستان 100 فی صد پڑھا لکھا ہوگا؟.... یہ کسی ایک سیاسی جماعت کا کام نہیں ہے۔ ساری پاکستانی قوم کو یک جان ہو کر جہالت کے خلاف جہاد کا آغاز کرنا پڑے گا۔ دنیا کے چھوٹے چھوٹے ملک تعلیم کے میدان میں بہت آگے جا چکے ہیں۔ ہر گلی، محلے، گاو¿ں اور ہر شہر میں تعلیم بالغاں کے سنٹر قائم کئے جائیں۔ پڑھنے والے غریب لوگوں کو مفت کتابیں مہیا کی جائیں۔ اَن پڑھ لوگوں سے حکومت وعدہ کرے کہ اگر انہوں نے تعلیم حاصل کی تو اُن سب کو اُن کی اہلیت کے مطابق روزگار دیا جائے گا۔ تعلیم کو عام کرنے کے لئے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اشتہار دئیے جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ ٹیلی ویژن پر ایک مستقل پروگرام کا بندوبست کیا جائے جس کے تحت لوگوں کو پڑھائی کی جانب راغب کیا جائے۔ حکومت پاکستان سے جہالت کو ختم کرنے کا آئندہ پانچ سال کا پروگرام ترتیب دے۔ اس بات کا باقاعدہ اعلان کیا جائے کہ آئندہ پانچ سال میں 100 فی صدپاکستانی تعلیم حاصل کریں گے۔ تعلیم کے حصول کے لئے یہ اہم وقت ہے۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد دیکھنا ہوگا۔ اس سے بڑا دُکھ اور افسوس کا اور کیا مقام ہوگا کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی درس گاہوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ پاکستان دنیا کاواحد ملک ہے، جہاں سکول گرا دئیے جاتے ہیں۔ یہ کام تو ہمارے دشمنوں نے اپنے ہاتھوں سے کرنا شروع کرنا تھا، جو ہم خود دن رات کرتے چلے جا رہے ہیں۔
ایسا غلط اور غیر اسلامی کام کرتے وقت کیا ہمارے ہاتھ کانپ نہیں جاتے؟ یہ سب دیکھ کر محب وطن لوگوں کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں۔ آئیں ہم سب مل کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم قائداعظمؒ کے حکم پر حرف بحرف عمل کریں گے اور آئندہ پانچ سال میں اپنے وطن پاکستان سے جہالت کو ختم کردیں گے۔ ہم نے اگر یہ نہ کیا تو تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ پیغمبر اسلامﷺ فرماتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرو، چاہے اُس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑ جائے۔ واقعی اب ہمارا دوست ملک چین جانے اور دیدار کے لائق بن چکا ہے۔ ٭