کیا تبدیلی آگئی ہے؟
میں ایمریٹس کی فلائٹ پر دبئی سے اسلام آباد جارہا ہوں۔ اپنی سیٹ کی طرف جاتے ہوئے ایک صاحب پر نظر پڑتی ہے۔میں رک جاتا ہوں۔احترام سے سلام کرنے کے لیے رک جاتا ہوں۔میرے پیچھے سے اور لوگ مجھے کراس کرنے لگے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ صاحب میری طرف دیکھ رہے ہیں اور انتظار کررہے ہیں کہ میں ان سے ہاتھ ملا سکوں۔میں نے ہاتھ ملایا اور انکو عزت اور احترام سے سر سے پاوں تک دیکھا۔ وہ جانتے تھے میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ وہ میری آنکھوں میں اپنے لیے عزت اور احترام دیکھ رہے تھے۔جب میں موصوف کا نام لوں گا تو آپ میری سیاسی وابستگی پر سوچنے لگیں گے۔ آپ مجھے کسی ایک سیاسی پارٹی کے ڈبے میں بند کرنا چاہیں گے۔ پھر آپ اگر زیادہ سوچیں گے تو ججمنٹ بھی سوچ لیں گے۔ ایسے ہی ہوتا ہے۔ آپ کا قصور نہیں ہے۔ سیاست میں ججمنٹ پاس کرنا سب سے آسان ہے۔ سیاست کی دنیا میں لوگ پاور اور مسند اقتدار پر پہنچنے کے اصول وضع کرتے ہوں گے۔ یہ اصول و اخلاقیات ، نصاب میں پڑھائے گیے اصولوں سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ آپ نہیں جانتے تو یہ آپ کا قصور ہے۔
یہ صاحب سینیٹر فیصل جاوید تھے۔ جنھیں میں اکانومی کلاس میں دیکھ کر ٹھٹکا اور میرے دل میں ان کے لیے احترام پیدا ہوا۔ سینیٹر تو بزنس کلا س میں بھی سفر کرسکتے ہیں۔ اکانومی کلاس چن کہ انہوں نے جس تبدیلی کی بنیاد ڈالی ہے۔ وہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے۔ کم از کم پاکستان آزاد ہونے سے اب تک تو کسی نے نہیں دکھائی۔
میں نے سوچا کیوں نہ ان کے ساتھ ایک تصویر بنوائی جائے اور فیس بک پر شئیر کی جائے۔ پھر میں نے سوچا فیصل جاوید صاحب جو تبدیلی دکھانا چاہتے ہیں وہ فوٹو سیشن کے کانسپٹ سے مختلف ہے۔ مجھے لگا میری سیلفی لینے والی خواہش مذکورہ تبدیلی کی خوبصورت اور مخلصانہ سوچ سے کافی دور ہے۔مجھے اچھا لگا کہ میں ایسے ملک جارہا ہوں جہاں ریاست کے اعلٰی ترین قانون ساز ادارے کا ممبر عوام کو یہ دکھا رہا ہے کہ وی۔آئی ۔ پی کلچر کو سہنے کے دن ختم ہورہے ہیں۔ اب عہدے دار اور عوام قانون کو طاقتور سمجھیں گے۔ قانون اور دستور کو ہی طاقتور ہونا ہے۔ اسی اصول سے ریاست نے چلنا ہے۔ یہی اصول جنگل اور شہر کا فرق بتاتا ہے۔پھر ہم سوچتے ہیں اس تبدیلی کو آنے میں اتنا وقت کیسے لگ گیا۔ وہ کیا عوامل تھے۔ وہ کون لوگ تھے جنھوں نے اس تبدیلی کو روکے رکھا۔اور کیوں روکے رکھا؟ انکی تاریخ کون لکھے گا؟ کیا وہ خود لکھیں گے؟ یا کوئی غیر جانبدار تاریخ دان لکھے گا؟
ہم دنیا کے ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک ناروے میں رہتے ہیں۔ صرف رہتے نہیں ہیں۔ اس ملک کی بیوروکریسی میں ذمہ دار عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں۔ دنیا کی بڑی ملٹی نیشنلز میں ذمہ دار عہدوں پر کام کیا ہے۔ ہمارے خیال میں ایک لیڈر کو مسند اقتدار پر بٹھانے سے راتوں رات وطن عزیز دنیا کا خوشحال ترین ملک نہیں بن سکتا۔ یہ تو ایک بنیاد اور شروعات ہے۔ آپ ان ملکوں جیسا خوشحال اور مضبوط معاشی مرکز کیسے بن سکتے ہیں جنھوں نے یہی تبدیلی سوسال یا دو سو سال پہلے شروع کی تھی۔ اور تب سے مسلسل محنت ، جان فشانی سے اپنی ملت کو مضبوط اور باوقار بنایا ہے۔
پھر ائرپورٹ پر سینیٹر فیصل جاوید ایک قطار میں کھڑے ہوئے اور اپنے ڈاکومنٹس دکھاتے ہوئے ائرپورٹ سے نکل گیے۔ یہ تبدیلی بے شک وطن عزیز کی تاریخ کی منفرد تبدیلی ہے۔ایسا تو نہ کہیے کہ فلاں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ آئی۔ایم۔ایف میں واپس جانا پڑگیا۔ فلاں ملک سے امداد لینی پڑگئی۔ اس لیے تبدیلی لانے والے جو وعدے کررہے تھے وہ غلط نکلے۔
ٓآپکو ناروے کے بار ے میں تھوڑا سا بتاتے ہیں۔ اس ملک کا نظام تعمیر کرنے اور بہتر سے بہتر بنانے میں سو سال نہیں تو پچاس سال تو لگے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نظام میں کوئی شخص کسی شخص کا محاسبہ نہیں کرتا بلکہ سسٹم یا نظام خود بخود احتساب کرتا ہے۔ یہ با ت تیسری دنیا کے کسی ملک میں رہنے والوں کے لیے سمجھنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔ یہاں کی سیاست میں یا عدالتی نظام میں یا کسی اور ادارے میں ہیرو ازم کا ٹرینڈ نظر نہیں آئے گا ۔ سب لوگ اپنے اپنے اینڈ پر اپنا کام مقررہ وقت کے اندر مکمل کرنے کے پابند ہیں۔ جو شخص اپنی ڈیڈ لائن پر کام مکمل نہیں کرپاتا۔ نظام اس شخص کی اس تاخیر کو درج کرلیتا ہے۔ اگر یہ تاخیر ہونا ایک مرتبہ کی تاخیر تھی تو نظام پر نظر رکھنے والے ایزی لیتے ہیں۔ اگر بار بار تاخیر ہوتی ہے تو متعلقہ شخص پر اپنی جاب خوش اسلوبی سے انجام نہ دینے کا الزام آنا قدرتی بات ہے۔ کیا متعلقہ ذمہ داری سنھبالنے والے شخص یعنی عہدے دار کو کوئی ذاتی مسلہ درپیش ہے جو اسے ڈسٹرب کررہا ہے؟ کیا متعلقہ شخص دی گئی ذمہ داری نبھانے کی واقعی اہلیت رکھتا ہے؟ کیا ذمہ داری نبھانے والے شخص کا کوئی ہیلتھ ایشیو ہے۔ تب محکمہ صحت سے تصدیق لانا ہوگی۔چنانچہ بوجہ ناقص صحت مذکورہ شخص اپنی ذمہ داری نہیں نبھا سکا اور یوں موصوف کو اپنی جاب سے سبکدوش ہونا پڑے گا۔ اگر کوئی ذاتی مسلہ ہے تب بھی ذمہ داری یا عہدے سے سبکدوش ہونا پڑے گا۔
یہ عمل ایک ترقی یافتہ نظام میں بہت جلد ہوتا ہے۔ ایسے نظام اور قانون اور دستور اور اسکو نافذ کرنے کے لیے دور حاضر کی جدید ٹیکنالوجی سے کام لیا جاتا ہے۔ یہاں ممبر اسمبلی صبح آٹھ بجے سے چار بجے تک اپنے اپنے کام میں مزدوروں کی طرح کام کرتے ہیں۔ انکی میٹنگز ، انکے مذاکرے ، انکا دفتری کام، اسمبلی کے سیشنز سارے کے سارے قانون اور دستور کو جدید تقاضوں کے مطابق کرنے اور انہیں عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق کرنے میں صرف ہوتے ہیں۔ تو یوں اس سارے نظام میں وی۔آئی۔پی کلچر کی جگہ بچتی ہی نہیں۔
ہم آپکو یورپ کے ٹیکس سسٹم کی مثال دیتے ہیںَ۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ یورپ میں عوام ٹیکس دیتے ہیں۔ اگر اسی بات کوہم یوں بولیں کہ سٹیٹ یہاں عوام سے ٹیکس ہر حال میں وصول کرتی ہے تو کیسا ہے۔ یہاں کے ٹیکس سسٹم کو ڈاج دینا ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ اگر ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے ایک روبوسٹ سسٹم نہ وضع کیا ہو تو کس کا دل چاہے گا کہ اپنی آمدنی کا چالیس سے پچاس فیصد سٹیٹ کو ماہانہ ادا کرے؟ یونیورسٹی میں پڑھائی کے دنوں میں یہاں جاب اپلائی کرنے کے تناظر میں مختلف ڈیپارٹمنٹس اور کمپنیوں کی ریٹنگ میں ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کا دوسرا نمبر چلتا ہوتا تھا۔ انتہائی اچھے سٹوڈنٹس محکمہ ٹیکس میں جوائن کرنا چاہ رہے ہوتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھی اور مخلص قیادت عوام کی نفسیات، تحرک اور ولولہ کو جلا بخشتی ہے لیکن بیس کروڑ عوام کے ملک کو تابناک بنانے کے لیے ایک جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ نظام تعمیر کرنا ہوگا۔
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔