جشنِ صوفی تبسم (3)
صوفی تبسم نے ساری زندگی علم و ادب اور مختلف اصناف میں حیران کن کام کیا۔ انہوں نے بچوں کی شاعری کی ان کے بعد بچوں کی شاعری کے حوالے سے کوئی دوسرا شاعر نہ مل سکا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم بڑے ہو جاتے ہیں تو ہمارے لئے بچوں کی سطح پر آکر سوچنا ممکن نہیں رہتا۔ صوفی تبسم نے بچوں کی سطح پر آکر شاعری کی یہی وجہ ہے کہ ان کی بچوں کے لئے شاعری آج بھی بچوں کے لئے ایک مانوس اور پُرلطف شاعری ہے۔ انہوں نے کئی تراجم کئے جن میں امیر خسرو کے فارسی کلام کا منظوم تراجم اقبال اور غالب کے کلام کا منظوم ترجمہ شامل ہیں۔ صوفی تبسم نے خانہء فرہنگ ایران کی بنیاد رکھی اور فارسی کی ترویج اور ترقی کے لئے زندگی بھر کام کیا۔ لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین رہے اقبال اکیڈیمی کے وائس چیئرمین اور کئی جریدوں کے مدیر رہے۔ انہوں نے آخر میں سب کو یہ خوشخبری دی کہ اکیڈیمی آف لیٹر ”پاکستانی ادب کے معمار“ کے سلسلے میں صوفی غلام مصطفےٰ تبسم کی شخصیت اور فن پر بھی کتاب شائع کرے گی۔ ان کی اس خوش خبری پر سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ نسیم شاہد نے نظامت سنبھالی تو ڈاکٹر نجیبہ کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ نسیم شاہد نے چیف ایگزیکٹو طارق اللہ صوفی (CEO)صوفی گروپ آف کمپنیز کو دعوت دی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ طارق اللہ صوفی نے اپنی تقریر میں جشنِ صوفی تبسم منعقد کرنے پر بے حد خوشی کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ صوفی تبسم ہمارے ملک پاکستان کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ وہ معلم کے ساتھ ساتھ واحد ایسے شاعر ہیں جنہوں نے فارسی،اردو، پنجابی تینوں زبانوں میں پائے کی شاعری کی۔
انہوں نے امیر خسرو، اقبال اور غالب کے کلام کے منظوم تراجم کئے جو بے حد مقبول ہیں۔ انہوں نے بہت سے ادارے بنائے۔وہ الحمراء آرٹس کونسل کے چیئرمین رہے۔ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے پہلے چیئرمین بھی رہے۔ ریڈیو پاکستان کے مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے 1965ء کی جنگ میں فوجی بھائیوں اور عوام کے خون کو گرمانے کے لئے جنگی ترانے لکھے جس کی مثال نہیں ملتی۔ کوئی ان کی جگہ نہ لے سکا۔ صوفی تبسم کو غالب اور اقبال کے بعد سب سے بڑا شاعر کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صوفی تبسم کو جو مقام ملنا چاہیے تھا نہیں دیا گیا۔ ہم امید کرتے ہیں حکومت ان کے نام اور کام کو پذیرائی بخشے گی۔ میں صوفی تبسم اکیڈیمی کے ساتھ ہوں اور میری معاونت ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی۔ ہم مل کر صوفی تبسم کے لئے کام کریں گے۔ صوفی تبسم اکیڈیمی کے ہر پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے ہمارا تعاون ہمیشہ صوفی تبسم اکیڈیمی کے ساتھ رہے گا۔
آخر میں تقریب کے صدر اردو صحافت کے میرکارواں جناب مجیب الرحمن شامی کو صدارتی خطاب کے لئے دعوت دی گئی۔ نسیم شاہد نے بہت خوبصورت تمہیدی جملے ادا کئے مگر مجیب الرحمن شامی ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ڈائس پر آگئے تھے۔ نسیم شاہد نے کہا کہ ہر عہد کا ایک استعارہ ہوتا ہے آج کے عہد کا استعارہ مجیب الرحمن شامی ہیں۔ مجیب الرحمن شامی نے اپنی تقریر کے آغاز میں فرمایا کہ نسیم شاہد ملتان کے ولی ہیں اب وہ لاہور کے بھی ولی بن گئے ہیں۔ ہال زور دار تالیوں سے گونج اٹھا۔ مجیب الرحمن شامی نے دو روزہ جشنِ صوفی تبسم کے انعقاد پر مجھے اور میرے شوہر آغا شاہد خان کو مبارکباد دی۔ شامی صاحب نے کہا کہ صوفی تبسم کے لاہور پر بہت احسانات ہیں۔ الحمراء آرٹس کونسل جس میں آج تقریب منعقد ہو رہی ہے انہی کی کوششوں سے تعمیر ہوا مگر حیرت ہے کہ الحمراء میں ان کے نام کی کوئی تختی موجود نہیں ہے کم از کم ایک ہال تو ان کے نام سے منسوب ہونا چاہیے تھا۔ ارباب اقتدار کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے تاکہ صوفی تبسم کا لاہور پر جو قرض ہے اسے اتارا جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ صوفی تبسم ایک شاعر اور معلم ہی نہیں تھے بلکہ ایک مجاہد بھی تھے انہوں نے 1965ء کی جنگ میں جو ترانے لکھے ہیں وہ آج بھی ہمارا لہو گرما دیتے ہیں۔ انہوں نے فارسی، اردو، پنجابی میں شعر کہے اور ساتھ ساتھ تراجم بھی کئے اس میدان میں انہوں نے جو کام کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ علامہ اقبال کے عاشق تھے اور اٹھارہ برس تک ان کے قریب رہے۔ ان کی اقبال کی شخصیت اور شاعری پر کتابیں اقبالیات کا گراں قدر اثاثہ ہیں۔ اس موقع پر خاص طور پر صوفی تبسم کی ڈاکومنٹری دکھائی گئی تھی جسے ہال میں موجود خواتین و حضرات نے بہت سراہا۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ کسی تقریب کی صدارت کرنا واقعی ایک مشکل کام ہے۔آپ نے آج مجھے اس مشکل میں ڈال دیا اس پر قہقہہ لگا اور وہ روانہ ہو گئے۔ اس افتتاحی تقریب کے 30منٹ کے بعد محترمہ سلیمہ ہاشمی اپنے وعدے کے مطابق الحمراء ہال میں تشریف لائیں وہ مصروفیات کے باوجود وقت پر تشریف لائی تھیں اس موقع پر انوشے شاہد کی جو صوفی تبسم کی پڑپوتی ہیں صوفی تبسم پر ایک بہت معلوماتی بامعنی اور دلچسپ ڈاکومنٹری دکھائی گئی جسے ہال میں موجود خواتین و حضرات نے بہت سراہا۔ اس پروگرام کی Moderatorشاہ پارہ تھیں اور چیف گیسٹ محترمہ سلیمہ ہاشمی تھیں۔اس موقع پر فلم بنانے کا مقصد بیان کیا، صوفی صاحب کی شخصیت پر سیر حاصل گفتگو ہوئی انوشے شاہد نے شاہ پارہ کے بہت سے سوالوں کے جوابات دیئے پھر سلیمہ آپا سے بھی شاہ پارہ نے بہت خوبصورت سوالات صوفی تبسم کے بارے میں پوچھے۔ سلیمہ آپا نے صوفی تبسم کے ساتھ یادوں کا تذکرہ بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ صوفی تبسم ہمارے لئے صوفی تبسم نہیں صوفی چاچا تھے۔ وہ ہم سے اور ہمارے ابا سے بے حد محبت کرتے جب بھی ابا (فیض احمد فیض) پر کوئی مشکل آتی تو سب ملنا چھوڑ دیتے مگر صوفی چاچا ابا کو ملنے جیل بھی جاتے اور ہمارا خیال بھی رکھتے۔ ان کے ساتھ صوفی چاچا جو شرارتیں بچپن میں کرتے اس کا ذکر بھی کرتی رہیں۔ ان کے بچپن کی یادوں کو تازہ رکھنے کے لئے صوفی تبسم کی بچوں کی کتابوں کے تحائف شاہ پارہ اور سلیمہ ہاشمی کو دیئے گئے۔ (جاری ہے)