ضمنی انتخابات کے نتائج 

ضمنی انتخابات کے نتائج 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک بھر میں اتوار کو ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق ن لیگ نے قومی اسمبلی کی پانچ میں سے دو نشستیں حاصل کیں،باقی تین نشستوں میں سے ایک سنی اتحاد کونسل اور ایک پیپلز پارٹی نے جیتی جبکہ باجوڑ میں آزاد امیدوار نے سنی اتحاد کونسل کو اپ سیٹ شکست دے دی۔ صوبائی اسمبلیوں کی 16 میں سے 10 نشستوں پر مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی جبکہ پیپلز پارٹی،سنی اتحاد کونسل، استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ ق اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے ایک ایک نشست حاصل کی جبکہ خیبر پختونخوا (باجوڑ) کی ایک صوبائی نشست آزاد امیدوار نے جیتی۔ وزیر آباد کی صوبائی نشست پر سنی اتحاد کونسل کے امیدوار کو مسلم لیگ ن کے امیدوار نے شکست دی جبکہ گجرات میں چوہدری پرویز الٰہی اپنے ہی بھتیجے اور مسلم لیگ ق کے امیدوار موسیٰ الٰہی کے مقابل ہار گئے۔ لاہور میں ن لیگ نے تمام نشستیں جیت کر کلین سویپ کیا، مریم نواز شریف کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی سیٹ جبکہ حمزہ شہباز کی چھوڑی ہوئی پنجاب اسمبلی کی دونوں نشستیں مسلم لیگ ن نے دوبارہ حاصل کر لیں، وزیراعظم شہباز شریف کی قصور سے چھوڑی نشست بھی دوبارہ مسلم لیگ ن کے حصے میں آگئی۔ لاہور سے چوہدری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الہیٰ بھی پنجاب اسمبلی کی نشست پر انتخاب ہار گئے۔ 

ضمنی انتخاب کے دوران بعض شہروں میں پرتشدد واقعات کی خبریں آئیں، ایک ناخوشگوار واقعہ ظفروال (نارووال) میں پیش آیاجہاں سنی اتحاد کونسل اور ن لیگ کے کارکنوں کے درمیان جھگڑا ہوا،اِس دوران سر پر ڈنڈا لگنے سے لیگی کارکن محمد یوسف جاں بحق ہو گئے۔ بعض مقامات پر فائرنگ کے باعث پولنگ تعطل کا شکار ہوئی تاہم سیکیورٹی کے معاملات پر قابو پاتے ہی پولنگ کاعمل دوبارہ شروع کر دیا گیا۔ لاہورکے مختلف علاقوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی عارضی طورپر معطل رہیں۔ مجموعی طور پر ضمنی انتخابات میں پولنگ پرامن رہی تاہم ٹرن آؤٹ نسبتاً کم رہا۔ اتوار کی چھٹی کے باوجود لوگ گھروں سے نہیں نکلے، بعض جگہوں پر تو دوپہر تک پولنگ انتہائی سست تھی پھر آہستہ آہستہ اس میں تیزی آئی۔ اِن انتخابات کے نتائج کا ویسے تو کسی جماعت کی اسمبلی پوزیشن پر کوئی خاص فرق پڑنے کا امکان نہیں تھا لیکن عام انتخابات میں دھاندلی اور ایک جماعت کی طرف سے دو تہائی اکثریت اور مینڈیٹ چوری کرنے کے الزامات کے تناظر میں ان کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ضمنی انتخابات کے نتائج کم و بیش عام انتخابات جیسے ہی ہیں، پنجاب میں مسلم لیگ ن، سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں ووٹرز کی اکثریت نے سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ دیا۔ ضمنی انتخابات کے دوران کسی قسم کی بے قاعدگی کی رپورٹ نہیں آئی، امیدواروں نے حسب منشا کاغذات نامزدگی جمع کرائے، پولنگ کے دوران دھاندلی کا کوئی شور بھی سننے میں نہیں آیا۔البتہ سنی اتحاد کونسل کے رہنما بیرسٹر گوہر نے انتخابات کے اگلے روز پیر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ افسر عدلیہ سے لینا چاہئیں تھے، الیکشن کمیشن نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ پولنگ کے بعد اُنہوں نے دھاندلی کا الزام دہرا دیا، ان کے مطابق ہر بار ملک میں ووٹ اور جمہوریت کے ساتھ کھیلا جاتا ہے، حقیقی عوامی منتخب نمائندے ہوں گے تو ملک میں بہتری آئے گی۔بیرسٹر گوہر کے ہمراہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا بھی یہی کہنا تھا کہ ضمنی الیکشن نہیں بلکہ ایک ڈھونگ رچایا گیا، انٹرنیٹ سروسز بند کر دی گئی۔ سنی اتحاد کونسل کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ گجرات پولنگ سٹیشن میں اُنہیں روکا گیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ اْنہیں الیکشن کمیشن حکام نے خود بتایا کہ دھاندلی کی جارہی ہے۔ دوسری   طرف جناب وفاقی وزیرِ اطلاعات عطاء اللہ تارڑکا کہنا تھا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کی نفرت، انتشار اور منافقت کی سیاست کو عوام نے رد کر دیا ہے، جھوٹ کا بیانیہ دفن ہو گیاہے۔ اپنے ویڈیو بیان میں وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ ضمنی انتخابات کے نتائج مسلم لیگ (ن) پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہیں، ثابت ہو گیا کہ مسلم لیگ (ن) کی پالیسیاں عوام کے دلوں میں گھر کر چکی ہیں، تحریک انصاف کا ووٹر مایوسی کا شکار ہے۔ 

المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ماضی میں ہی زندہ ہیں تو غلط نہ ہو گا، الزام کی سیاست جاری ہے، بیانات کا مقابلہ ہو رہا ہے اور عوام کی مشکلات بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ریاست کا نظام چلانے کے لئے حکومت اور حزب اختلاف دونوں کا ہی اپنا اپنا کردار ہے، منفی سیاست سے صرف تلخیاں بڑھیں گی، عوام کا اعتماد جو پہلے ہی کافی مجروح ہے مزید کمزور ہو جائے گا۔ حکومت کو ہر حال میں عوام کو ریلیف دینے کا اہتمام کرنا چاہئے اور اپوزیشن کو مثبت تنقید اور تعمیری کردار ادا کرنا چاہئے۔ انتخابات کے بعد کسی نہ کسی جماعت نے تو حکومت بنانی تھی، کسی کو واضح اکثریت نہیں ملی اسی لئے اتحادی حکومت بنانا پڑی، اب حکومت پوری دیانتداری اور ایمانداری سے اپنے فرائض نبھائے اور جن جماعتوں نے اپوزیشن کے بنچ سنبھالے ہیں وہ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھیں، لیکن تنقید برائے تنقید اور اسمبلی میں غیر ضروری ہلے گلے سے اجتناب کریں۔دنیا بھر میں یہی نظام رائج ہے، ایسے ہی کاروبار ریاست چلتے ہیں۔ وہی ممالک ترقی کرتے ہیں جہاں سیاست ذاتی خواہشات کی بجائے قاعدے قانون، اصول و ضوابط کی پابند ہو۔ یہ دھرنے، لانگ مارچ، احتجاج اور جلوسوں کا رواج بھی ہمارے ہاں ہی زیادہ ہے۔اب حال ہی میں سعودی عرب کی طرف سے  اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی خبریں سامنے آئی ہیں، سعودی وزیر خارجہ کی سربراہی میں آنے والے وفد نے پاکستان کے ساتھ بہت سے سیکٹرز میں سرمایہ کاری پر بات چیت کی۔ توقع ہے کہ سعودی ولی عہد کے پاکستان کے آئندہ ماہ ہونے والے دورے کے دوران سرمایہ کاری کے معاہدوں کا اعلان کیا جائے گا۔ ایران کے صدر بھی پاکستان کے سہ روزہ دورے پر ہیں، مختلف سیکٹرز میں آٹھ معاہدوں اور مفاہمی یاداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ایران بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔معیشت کو سنبھالنے کے لئے  اس وقت بین الاقوامی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، ایسے میں ملک میں سازگار ماحول مہیا کرنا اہل ارباب اختیار کا فرض ہے، ہر کسی کو اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہئے۔ہر سیاستدان عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتا ہے،اسی کے ووٹ سے منتخب ہو کر اسمبلی تک پہنچتا ہے وہ ہر صورت عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ عوامی اور ملکی مفاد سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، جتنی جلدی یہ بات سمجھ لی جائے ترقی کا سفر اتنا ہی آسان ہو جائے گا۔

مزید :

رائے -اداریہ -