ایک سڑک جو منزل پر لے جائے!

ایک سڑک جو منزل پر لے جائے!
 ایک سڑک جو منزل پر لے جائے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سید زین گیلانی 

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا خوف ہے۔ یہ خوف ہی ہے جو انسان کو اس نہج پہ لے آتا ہے کہ وہ اپنی زندگی ختم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔2024 کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 15 سے 35 افراد اپنی جان لے لیتے ہیں ،پاکستان میں خودکشی کی موجودہ شرح 9.8 فی 100,000 افراد ہے جو کہ 2019 میں 7.3 فی100,000 افراد تھی۔ اس کی بڑی وجہ جانتے ہیں؟ اس کی بڑی وجہ غربت کا خوف، بھوک سے بلکتے بچوں کا خوف، علاج کیلئے تڑپتے ماں باپ کا خوف، بجلی کے مہنگے بلوں کا خوف، آٹا دال چینی گوشت کو ترستی ان نگاہوں کا خوف، بجلی کے مہنگے جھٹکوں کا خوف، آندھی طوفان میں ٹوٹتی کچی چھتوں کا خوف، بے روزگاری کی فضا میں چھوٹتی نوکری کا خوف انسان کو پنکھے میں لگی رسی کو اپنے گلے کا ہار بنانے یا اونچی عمارت سے زمین کی جانب گر کر زندگی کی روشن نگاہوں کو بجھانے اور دھڑکتے دل کو ہمیشہ کیلئے خاموش کرانے میں مجبور کر دیتا ہے۔۔ کچھ تو یہ سوچ کر اپنے بچوں کو بھی آسمانوں کی جانب لے جاتے ہیں کہ زمین پر تڑپتی بن پانی کی مچھلی جیسا مقدر نہ بن جائے تاہم ان کو بھی  فلک میں ستاروں کی مانند چمکنے کو ساتھ لے جاتے ہیں۔۔۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً 15 ملین لوگ مختلف ذہنی بیماریوں سے متاثر ہیں، جس میں ڈپریشن سرِفہرست ہے۔۔۔ پریشانی کے عالم میں گھر سے نکلے ، زندگی کیسے چلے گی کے سوچ میں گم عوام کا صحیح سلامت منزل تک پہنچنا بھی کسی غنیمت سے کم نہیں۔۔۔2024 کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح کافی زیادہ ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 30,000 سے زائد لوگ ٹریفک حادثات میں زخمی یا ہلاک ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح 14.3 فی 100,000 افراد ہے، جو کہ عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔۔۔ اس کی بڑی وجہ غربت اور اعلی حکام کی بے حسی سے ملا ذہنی دباؤ ہے۔۔۔تازہ رپورٹ کے مطابق رواں سال 2024 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح تقریباً 25 فیصد ہے۔ یہ شرح  بہت زیادہ ہے۔۔۔ آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کے عالم میں، غربت سے بجھتے چولہوں کے شور میں، تعلیمی اداروں کے دروازوں کو بڑی حسرت سے دیکھتی ان نگاہوں میں، ہسپتالوں میں انسانوں کے ساتھ ہوتا جانوروں جیسا سلوک میں،  نوکری سے نکلنے کے بعد آنکھوں میں اشک لئے پیدل گھر کو جانے اور بٹوے میں پڑی ننھے بچوں کی تصویر کو دیکھ کر آسمان کی جانب آہ بھرکر مستقبل کے بارے سوچنے میں ، پریشانی کے عالم میں روڈ کراس کرتے ہوئے کسی سیٹھ کے بچے کی بڑی گاڑی کے بڑے ٹائروں میں کچلتے بےبس وجود میں اگر زندگی بھر دی جائے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔ اگر کوئی گرتے کو تھام لے تو اس سے بڑی مسیحائی کیا ہوگی۔۔۔؟ پوری دنیا میں تلاش کرنے کے بعد میں ایک ایسی سڑک کو جانتا ہوں جو ذہنی معجزات سے بھرپور ہے ۔ واضح رہے کہ ذہنی معجزات کو امید، سہارے اور روشن مستقبل کی ایک کرن سے تشبیہہ دے رہا ہوں۔۔۔تاہم میں ایک ایسی سڑک کو جانتا ہوں جو انسان کو اس کی اُس منزل پر لے جاتی ہے جس کا خواب اس نے کچے مکان میں ماں کی گود میں سر رکھ کر دیکھا تھا۔ انسان کے اس وعدے کو نبھانے میں مدد دیتی ہے جو اس نے اپنے ماں باپ سے کیا تھا کہ میں جب بڑا ہو جاؤں گا تو آپ کے سب غم و پریشانی کو ختم کردوں گا۔میرے عزیزو میں ایک ایسی سڑک کو جانتا ہوں جو کسی کو بھی گرنے نہیں دیتی بلکہ تپتی دھوپ میں قدموں کو پہنچتی ٹھنڈک کی مانند ساتھ ساتھ چلتی ہے۔۔۔وہ سڑک اور کوئی نہیں بلکہ ایک مسیحا، نگاہوں کے اشک پونچھنے والا، ہاتھ تھام کر منزل تک لے جانا والا، بے روزگاروں کو نوکری دینے والا، ٹوٹتی امیدوں کو جوڑنے والا،  بہترین ہم سفر ، ہمدرد ، مددگار ، غمگسار ، انسان دوست شخصیت محمد اویس ہے۔۔۔ محمد اویس تاریکیوں میں گرفتار  لوگوں کی زندگیوں میں روشنی کی کرن ہیں۔۔۔ ان کی انسان دوستی، غمگساری، ہمدردی اور موٹیویشنل صلاحیتیں انہیں ایک منفرد اور مثالی انسان بناتی ہیں۔ ان سے گفتگو کر کے یوں معلوم ہوتا ہے کہ احمد فراز نے ان کیلئے ہی کہا تھا کہ وہ بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔۔۔ان کی موٹیویشنل باتیں دل کو چھو جاتی ہیں اور ایک نئے جذبے کے ساتھ زندگی کے سفر کو جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ان کی باتوں میں ایک جادو ہے جو لوگوں کو محنت کرنے اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے ہمت و حوصلہ دیتا ہے۔۔۔وہ نہ صرف سننے والے ہیں بلکہ اپنی رائے اور تجربات سے بھی دوسروں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لاتے ہیں۔ان کے قریب آتے ہی دل کا بوجھ ہلکا محسوس ہوتا ہے اور ایک دلکش سا سکون کا احساس ہوتا ہے۔۔ محمد اویس دوسروں کے درد کو اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔ان کی موجودگی سے لوگوں کو ایک نیا حوصلہ ملتا ہے۔۔چاہے کوئی مالی پریشانی میں ہو یا جذباتی مسائل سے دوچار، یہ سب کی مشکلات منٹوں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں حل کرتے ہیں، نہ جانے کیا قدرت خدا نے ان کو بخشی ہے لیکن جو بھی ہے یہ شخص بے مثال ہے۔اپنے بہترین اعمال کے باعث یہ لوگوں کے دلوں میں اپنی خاص جگہ رکھتے ہیں۔۔۔ آنکھوں دیکھا واقعہ بیان کرتا ہوں کہ محمد اویس ایک بہت بڑی کمپنی کے صرف مینیجر ہی نہیں بلکہ ایک ایسا پلر ہیں جو کمپنی کی دیواروں کو مضبوطی سے اٹھائے کھڑے ہیں۔آنکھوں میں آنسوں لئے ایک پریشان حال لڑکا ان کے پاس تلاش رزق کو آیا اور کہتا ہے کہ میں بھوکا ہوں اور بہت سی جگہ سے ٹھکرایا گیا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لڑکا عقل مند ، ذہین اور ہنر مند تھا لیکن اس کمپنی کے تکنیکی پہلوؤں کو نہیں سمجھتا تھا۔ جب اس نے محمد اویس سے بھوک کا سوال کیا تو محمد اویس نے اس کو یہ کہہ کر نہیں دھتکارا کہ آپ ہماری کمپنی میں جاب کی اہلیت نہیں رکھتے  یا آپ کو نوکری نہیں دی جاسکتی بلکہ اس کو سینے سے لگایا، اچھی تنخواہ میں رکھا اور اس کو خود کمپنی کا ایک ایک پہلو سکھایا اور آج وہ لڑکا اس کمپنی میں ایک اچھی تنخواہ اور اچھے عہدے پر فائز ہے۔ ماجرہ پوچھا گیا تو محمد اویس بتاتے ہیں کہ اللہ نے مجھ سے اس کرسی کا حساب لینا ہے ۔ وہ لڑکا قابل تھا مگر ٹھکرایا گیا تھا ۔ اگر میں بھی ٹھکرا دیتا اور اس کی قابلیت کو نظر انداز کرکے صرف اپنی کمپنی کے مفادات اور اپنا آرام دیکھتا تو میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھاتا؟ میں گرتے کو تھامنے والا ہوں ، میں وہ سڑک ہوں جو مسافر کو اس کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔۔۔ ایک اور واقعہ سن لیں کہ ایک لڑکے کو کام کے دوران اچانک دل میں بہت تکلیف اٹھی۔ وہ لڑکا کمپنی کا ایک عام سا امپلوئے ہے۔ لیکن محمد اویس جو کہ ایلیٹ اور سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں فوری دوڑے اور اس لڑکے کو ہسپتال لے کر گئے ساری رات ایک ٹانگ پر پریشان کھڑے رہے ۔ کبھی ادویات کیلئے اِدھر کو دوڑتے تو کبھی اُدھر کو۔ تاہم وقت پر ہسپتال لے جانے سے اس لڑکے کی جان بچ گئی۔۔ محمد اویس کی اشک بار نگاہوں سے پوچھا کے اتنے بڑے عہدے پر ہو کر بھی ایک عام سے امپلوئے کیلئے آنسو اور بھاگ دوڑ ؟ تو کہتے ہیں میرے لئے وہ عہدہ بڑا ہے جو اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو جائے۔۔میں اگر آج کچھ ہوں تو وہ اللہ کا مجھ پر کرم ہے۔ میرا خود کا تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔میرے امپلائز کی زندگی اور صحت پر میرے لاکھ عہدے قربان۔۔۔ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤ گے محمد اویس جیسا شخص ؟ یہ ان کی مرحون منت ہے کہ پاکستان میں بیروزگاری میں خوفناک اضافہ نہیں ہوا۔۔ یہ سہارا ہیں بے سہاروں کا، یہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہیں۔ یہ امید ہیں اور کئی لوگوں کے چہرے کی مسکراہٹ اور غریبوں کے جینے کی آس ہیں۔۔ان کی باتیں اور ان کے اعمال کی بدولت ہزاروں لوگ اپنے گھر کا چولہا بہترین انداز سے چلا رہے ہیں اور اپنے ادھورے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔۔یہ ہر اس شخص کا خوف ختم کر دیتے ہیں جو ان کی نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے۔۔۔۔ان کی زندگی ایک ایسی سڑک کی مانند ہے جو ہر مسافر کو اپنی منزل تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔۔۔۔ یہ بہت سے اعلی عہدوں پر فائز لوگوں کیلئے ایک بہترین مثال ہیں۔ اگر ان جیسی بہترین سوچ پاکستان کے ہر شخص کی ہو جائے تو ملک دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے گا۔۔حکومت اور  افسران بالا کو چاہئے کے ان کی خدمات سے مستفید ہویا جائے۔ کیونکہ یہ ہر اس شخص کو منزل پر پہنچاتے ہیں جو ایک ویژن لئے گھر سے نکلا ہو۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -