پاکستانی عوام آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کے ہاتھوں یرغمال

      پاکستانی عوام آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کے ہاتھوں یرغمال
      پاکستانی عوام آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کے ہاتھوں یرغمال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پاکستانی قوم بھی بڑی سادہ ہے گزشتہ77سال سے اس کو مختلف انداز سے پُرکشش نعروں،وعدوں اور سہانے خوابوں کے ذریعے اس انداز میں بیوقوف بنایا گیا ہے پورا ملک قرضوں میں ڈوب گیا، بچہ بچہ مقروض ہو گیا،25روڑ کی آبادی کا زیادہ حصہ غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا،مگر سیاست دانوں کے جادو اور سحر نے عوام کی آنکھیں نہیں کھلنے دی، روٹی کپڑا اور مکان سے شروع ہونے والا سفر ملک کے دو ٹکڑے کر گیا، ملک کی ترقی کے نام پر کبھی کرپشن کے خاتمے کے نام پر اور کبھی نیا پاکستان بنانے کے نام پر۔

عوام سے فراڈ ہوتا رہا، عوام میٹھا زہر اس انداز میں پیتے رہے اب انہیں سوشل میڈیا نے جھنجھوڑ کر جگایا ہے تو عوام کا بالعموم اور ملک کا بالخصوص سب کچھ لٹ چکا ہے،عوام کی آنکھیں کھلنے لگی ہیں تو پتہ چل رہا ہے، قوم کا بچہ بچہ مقروض ہو چکا ہے، ملکی معیشت کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے، ہم اس حد تک ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور طاغوتی اداروں کے ہاتھوں بک چکے ہیں، ہم پاکستان کا بجٹ بنانے کے بھی قابل نہیں رہے، ہمیں اُدھار دینے والے ہی اپنی مرضی کا بجٹ بنائیں گے۔ دوسری طرف قوم کو انکشاف ہو رہا ہے حکمرانوں نے گزشتہ 43سالوں میں ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، آئی پی پیز،یعنی بجلی پیدا کرنے والی 90 سے زائد پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ جان لیوا اور قاتلانہ شرائط کے ساتھ ایسے معاہدے کر دیئے ہیں جس کو نہ ہم توڑ سکتے ہیں نہ ختم کر سکتے ہیں۔

آئی پی پیز1929ارب روپے وصول کر چکی ہیں معاہدے بھی اس نوعیت کے ہیں ہم ان کی ہر شرط ماننے پر مجبور ہیں،90کمپنیوں میں ایسی کمپنیاں بھی ہیں جن میں سے کئی ایک سے745 روپے کا یونٹ خرید رہے ہیں۔ دلچسپ انکشاف ہوا ہے آئی پی پیز کو ہونے والی ادائیگیاں ہمارے دفاعی بجٹ سے بھی زائد ہو چکی ہیں، آج تک اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے پاکستان آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کے ہاتھوں پوری طرح یرغمال ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف نے وفاقی بجٹ2024ء بنانے کے بعد حکمرانوں کو اس حد تک بلیک میل کرنا شروع کر دیا ہے عام آدمی تو عام خواص  بھی یوٹیلٹی بلز اور مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور ہو رہے ہیں۔ آئی پی پیز کے حوالے سے معلوم ہوا ہے ظلم ڈھانے والے کوئی اور نہیں ہمارے اپنے سیاستدان ہی ہیں جن کے ہاتھوں ہم آج تک کھلونا بن کر کھیلتے چلے آ رہے ہیں۔90 آئی پی پیز  کمپنیوں میں 28 فیصد کا مالک شریف خاندان ہے،16 فیصد ن لیگی رہنما ہیں،16فیصد زرداری صاحب ہیں،10فیصد اسٹیبلشمنٹ، 8فیصد پیپلزپارٹی کے رہنماء ہیں، 7فیصد عرب کے سرمایہ دار(قطری) ہیں،7فیصد پاکستانی سرمایہ کار ہیں۔ اس سے اگلا المیہ سن لیں،78فیصد میں صرف تین گروپس شریف، زرداری،اسٹیبلشمنٹ کی ملکیت میں 90فیصد لوگ یا گروپس کہہ لیں جس کے پاس تمام شوگر ملز، سٹیل ملز، سیمنٹ، کھاد، کپڑے، بینک، ایل پی جی اور گاڑیاں بنانے کے لائسنس ہیں۔دلچسپ انکشاف ہوا ہے، بجلی گھر، پاکستان کی کل ضرورت 125 فیصد پیدا کرنے کی صلاحیت بتا کر لگائے گئے ہیں،لیکن صرف48فیصد دیتے ہیں،قیمت125 فیصد وصول کرتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال میں چھ ہزار ارب دینے کے باوجود ملک ان کا 29 ہزار ارب کا مقروض ہے، میرے پاس 61 آئی پی پیز مالکان کے نام موجود ہیں،لیکن میں تفصیل نہیں لکھنا چاہتا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اور امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کے ذریعے نام اور تفصیل آہستہ آہستہ عوام کے سامنے آ رہی ہے،عوام کو سمجھ بھی آنا شروع ہو گئی ہے ان کو مقروض کرنے والے ان کے بچوں کے مستقبل کے قاتل کوئی اور نہیں ان کے اردگرد بسنے والے سیاسی پنڈت ہی ہیں جن کے پُرکشش نعروں اور وعدوں پر آج تک تالیاں بچاتے آ رہے ہیں۔ آئی پی پیز کے معاہدے ایسی چھپکلی جس کو نہ نگل سکتے، نہ اُگل سکتے ہیں، یعنی معاہدے ایسے ظالمانہ ہیں نہ ختم کر سکتے ہیں نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔عالمی عدالتیں ہمارا سر کچلنے کے لئے تیارہیں، ریکوڈک کی مثال ہمارے سامنے ہے اس کا حل یقینا عوام کے پاس ہے جن کا پارہ اور صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے ان سے کتنی دیر بچتے ہیں انتظار کرنا ہو گا۔ کب عوام ان ظالموں کا گھیراؤ کرتے ہیں۔

دوسری طرف آئی ایم ایف نے مزید آٹھ ارب ڈالر دینے کے لئے جو تازہ شرائط عائد کی ہیں اب تک ٹیکسز ود ہولڈنگ سے کوئی چیز نہیں بچی،تمام صنعتیں اور ادارے آہستہ آہستہ ہڑتال پر جا رہے ہیں مزید شرائط آنے کے بعد کیا ہو گا سوچنے پر ہی رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں آئی ایم ایف کا تازہ ترین فرمان جو جاری ہوا ہے اس نے چھ سے آٹھ ارب ڈالر کے ساتھ سعودی عرب کے پانچ ارب،چین کے چار ارب، متحدہ عرب امارات کے 12ارب، قرضوں کی تین سے پانچ سال کے لئے واپسی کی توسیع کی شرائط عائد کر دیں ہیں۔پورا ملک آئی ایم ایف اور آئی پی پیز کے چنگل میں ہے وفاقی بجٹ میں زراعت سمیت کسی ادارے کو نہیں چھوڑا گیا ایک طرف بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسز کی وجہ سے ادارے اور صنعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ دوسری طرف سرکاری اداروں کی نجکاری کی وجہ سے ملازمین سڑکوں پر ہیں، پنشنرز اپنی جگہ رو رہے ہیں، سیاست ضد اَنا کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے، ملک کے لئے سوچنے کی بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ان حالات میں سنجیدہ حلقوں کو آگے آنا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں، مقتدرہ کے درمیان ڈیڈ لاک ختم کرا کے ملک کو آگے لیجانے کے لئے مذاکرات کرنا ہوں گے۔آئی پی پیز کے چنگل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑوانے کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ حکومت کی طرف سے ایک ماہ میں 38 ارب مقامی بینکوں سے حاصل کیے گئے8500 ارب نئے قرض کا پلان ہے، 90فیصد ادارے صنعتیں مزدور،دوکاندار ہڑتالوں پر ہیں۔ مرکز کی بجائے پنجاب کی طرف سے بجلی کے بلوں میں ریلیف نے نیا پنڈورا بکس کھل گیا ہے۔ سندھ،کے پی کے اور پنجاب کے درمیان محاذ آرائی ہے مرکز تمام صوبوں کی بات کرنے کی بجائے پنجاب کی بات کر رہا ہے۔دوسری طرف آئی ایم ایف کے ہونے والے ابتدائی معاہدے کا اجلاس رواں ہفتے ہو رہا ہے اس کے ایجنڈے میں پاکستان کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔وزیر خزانہ اسلامی ممالک سے گارنٹی اور قرضوں کی ری شیڈولنگ سمت آئی ایم ایف کے ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں نئے معاہدے کی خوشخبری دے رہے ہیں۔بین الاقوامی ادارے دباؤ بڑھا  رہے ہیں معاہدہ نہ ہونے کی بھی خبریں ہیں، چاروں اطراف مشکلات بڑھ رہی ہیں۔خدارا ملک کو چاروں اطراف سے خطرات نے گھیر رکھا ہے ہر فرد یہی سوچے خرابی کہاں ہے، کیوں ہے؟

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -