سوالیہ نشان
اسلام علیکم پارے دوستو کیسے ہیں امید ہے کہ اچھے ہی ہونگے ہم بھی یقینا اچھے ہی ہیں، جی دوستو آج ہم آپ کو ایسی بات بتانے جا رہے ہیں کہ آپ بھی ہنس ہنس کے پاگل ہو جائیں۔ جی دوستو جب ہم نے یہ بات سنی تو یقینا ہم بھی ہنس ہنس کے سمجھیں پاگل ہی ہو گئے اور اب ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو بھی بتائیں تاکہ آپ بھی انجوائے کریں تو دوستو بات یہ ہے کہ دو تین دن پہلے ہمیں ہماری گاڑی کا چالان موصول ہوا اور چالان کی تاریخ تھی 29 جولائی اور ہماری گاڑی ہمارے چھوٹے بھائی صاحب کے نا م پر ہے جو انہوں نے ہمیں گفٹ کی، گاڑی چھوٹے بھائی صاحب کی طرف سے اور رہنے کے لئے گھر ہمارے والد صاحب کی طرف سے، خیر بات ہو رہی تھی ہنسی کی تو ہنسی کی بات یہ ہے کہ دو تین دن قبل ہماری اہلیہ محترمہ نے ہمیں ایک کاغذ دیا ہم نے پوچھا کیا ہے تو جواب ملا کہ چالان ہے ابو کے گھر سے مختار علی لے کر آیا ہے اور ہم نے جب چالان دیکھا تو وہ گزشتہ ماہ کی 29 تاریخ کا تھا اور ہماری گاڑی کا نمبرLeaہے لیکن جو چالان موصول ہوا اس پہLecلکھا تھااور وجہ چالان ہیلمٹ تھا تو یقینا یہ دیکھ کے ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑا پہلے تو ہنسی اس بات پہ آئی کہ گاڑی میں کونسا ہیلمٹ کا چالان ہوتا ہے اوراس سے بڑھ کرجب چالان کی تاریخ کو دیکھا تو پتہ لگا کہ اس تاریخ کو تو ہم لاہور میں تھے ہی نہیں اس وقت ہم بچوں کے ہمراہ مری، نیلم ویلی کی سیر کر رہے تھے اور جب ہم لاہور شہر میں ہی نہیں تھے تو یہاں ہماری گاڑی کا چالان کیسے ہو گیا۔جی دوستو یہ یقینا حیرت انگیز اور باعث ہنسی تھی ہمارے لئیبندہ پوچھے گاڑی چلاتے وقت کون ہیلمٹ پہنتا ہے لیکن ہمیں گاڑی میں ہیلمٹ نہ پہننے کا چالان موصول ہوا۔اور چالان دیکھ کے ہنسی بھی آئی اور خیال بھی گزرا کے چالان بھیجنے والوں کو ڈنڈوں سے مارنا چاہیے لیکن یہ سوچا کہ چالان بھیجنے والے سرکاری بندے ہیں اس لئے ڈنڈوں سے مارنے کا خیال دل سے نکال دیا۔لیکن سوالیہ نشان پیدا ہو گیا کہ سیف سٹی کے کیمروں پر جس طرح سے واپڈا والے بجلی کے بلوں میں زائد یونٹ ڈال کے بھاری بھر کم بل بھیج دیتے ہیں۔۔ اب بالکل ویسے ہی شاید عوام کو گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کے ناجائز چالان بھیج کے افسر شاہی کے خرچے پورے ہو رہے ہیں۔