ستم رسیدہ، اَجل کے راہی ۔۔۔ ہماری پولیس کے سپاہی
ستم رسیدہ، اَجل کے راہی
ہماری پولیس کے سپاہی
کہ جن کو ہم سب کی کم نگاہی کا کوئی شکوہ ہے ناں گلہ ہے
وہ جانتے ہیں
کہ اُن کی قربانیوں کا لوگوں کے پاس تھوڑی کوئی صلہ ہے
وہ جانتے ہیں
کہ ذاتِ باری
خبیر بھی ہے، بصیر بھی ہے
عظیم بھی ہے، علیم بھی ہے
رحیم بھی ہے، کریم بھی ہے
وہ جانتے ہیں
کہ ذاتِ باری
جلیل بھی ہے، وکیل بھی ہے
مجید بھی ہے، حمید بھی ہے
معید بھی ہے، رشید بھی ہے
وہ جانتے ہیں کہ ذاتِ باری کا
ایک نام ”الشہید“ بھی ہے
ستم رسیدہ اَجل کے راہی
ہماری پولیس کے سپاہی
کہ جن کو ہم سب کی کم نگاہی کا
کوئی شکوہ ہے ناں گلہ ہے
یہ جانتے ہیں
کہ عید کے دن بھی اُن کا جوڑا نہیں سلے گا
اور عیدکا دن بھی اُن کا زیتون رنگ کی وردی میں ہی کٹے گا
وہ جانتے ہیں
کہ عید گاہوں کے داخلی راستوں سے آتے
نئے چمکتے لباس پہنے تمام بچوں کی اور بڑوں کی
وہ مسکراہٹ کے ہیں محافظ
ہر اِک عبادت کے ہیں محافظ
وہ جانتے ہیں
کہ عید کے بعد پھر محرّم میں
وہ عزادارآنسوؤں کے بھی ہیں محافظ
وہ ماتموں کے بھی ہیں محافظ
وہ تازیوں کے بھی ہیں محافظ
وہ جانتے ہیں
کہ اُن کے ذمے ہے ہنستے بستے گھروں کے بچوں کی بھی حفاظت
اور اُن کے بستوں کی بھی حفاظت
کہ جن کواسکول بھیجتے وقت مائیں آیات پھونکتی ہیں
ستم رسیدہ اجل کے راہی
ہماری پولیس کے سپاہی
یہ جانتے ہیں
کہ اُن کی وردی کا فرض کیا ہے؟
ادا جو کرنا ہے قرض کیا ہے؟
وہ جانتے ہیں
کہ پار دریا کے
”چھوٹو“ جیسے ہزاروں مجرم
ہر اِک گھڑی اُن کی تاک میں ہیں
کہ کیسے اُن کے لہو سے دریا کے بہتے پانی کو سرخ کردیں
اور اُن کی بے خوف چھاتیوں کو اَجل بکف گولیوں سے بھر دیں
ستم رسیدہ، اَجل کے راہی
ہماری پولیس کے سپاہی
یہ جانتے ہیں
کہ ایک دن جب شہید ہو کر نصیب اُن کا چمک اُٹھا تو
زمانے والوں کی کم نگاہی سے اُن کا رُتبہ چھپا رہے گا
مگر و ہ یہ بھی تو جانتے ہیں
کہ ذاتِ باری کا ایک نام ”الشہید“بھی ہے
جو سب شہیدوں کو جانتا ہے
اور اُن کے رتبوں کومانتا ہے
جو آپ قرآں میں کہہ چکا ہے
شہید مردہ نہیں ہیں ہرگز
شہید زندہ ہیں تاقیامت
شہید زندہ ہیں تا قیامت!
شہید زندہ ہیں تا قیامت!!
کلام :جبار واصف (رحیم یار خان)