سرکاری افسران بادشاہ نہ بنیں

سرکاری افسران بادشاہ نہ بنیں
سرکاری افسران بادشاہ نہ بنیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

’’کوئی میری بات سننے کو تیار نہیں‘‘۔۔۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو کم عمری میں طاقتور ترین بیورو کریٹ بننے والے سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ نے احتساب عدالت لاہور میں جج صاحب کے سامنے کہے۔۔۔ میں ابھی تک ان کے یہ الفاظ سن کر ششدر و حیران ہوں۔

یہ نظام قدرت بھی کیا زبردست حقیقت ہے، وہ کیسے کیسے منظر دکھا دیتا ہے۔ احد چیمہ آج جو سوال کررہے ہیں، یہ سوال تو لوگ اس معاشرے میں روزانہ ہی کرتے ہیں، یہاں کون کسی کی بات سنتا ہے؟ خود احد چیمہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کی نہیں سنتے تھے، طاقت کے نشے میں ان کے اندر فرعونیت کے اثرات آگئے تھے، انہیں کسی بات کا ڈر نہیں تھا، میڈیا کا نہ اپنے افسروں کا، کیونکہ وہ شہباز شریف کی آنکھ کا تارا تھے، وہ کسی کو جوابدہ نہیں تھے، بلکہ اُلٹا چیف سیکرٹری اور دیگر محکموں کے سیکرٹری صاحبان اپنی نوکری بچانے کے لئے ان کی مدد لیتے تھے۔ آج احد چیمہ کو نیب کی حراست میں آنے کے بعد یہ علم ہوا ہے کہ اس ملک میں بعض اوقات ایسا وقت بھی آجاتا ہے، جب آپ کی کوئی سننے کو تیار نہیں ہوتا، حالانکہ وہ خود لوگوں کی کوئی بات سننے کو کبھی تیار نہیں ہوتے تھے۔


جب تک اقتدار کا ہما سر پر بیٹھا رہے انسان کو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے، حالانکہ زر دپتے بھی اس ہرے میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتے ہیں۔ احد چیمہ کے بارے میں جو حیرانی لوگوں کو ہوتی تھی، آج وہ خود اس میں مبتلا ہیں۔ جب انہیں ان کی اوقات و بساط سے بڑھ کر نوازا جارہا تھا تو شاید ہی انہوں نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہو کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟

وہ گریڈ اٹھارہ میں تھے، جب انہیں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن پنجاب تعینات کیا گیا جو گریڈ بیس یا اکیس کی سیٹ ہے۔ وہ بڑے مزے سے حکمرانی کرتے رہے۔ ان کے نیچے یونیورسٹیاں بھی تھیں اور کالج بھی، بیسویں، اکیسویں گریڈ کے اساتذہ ان سے ملنے کے لئے سیکرٹریٹ میں دھکے کھاتے، مگر بہت کم اذن باریابی ملتا۔ یہ احد چیمہ ہی تھے جنہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں ریلی نکالنے والے کالج اساتذہ پر بد ترین تشدد کروایا تھا۔

بالکل سادہ سی بات ہے جب وہ خود میرٹ پر تعینات نہیں ہوئے تھے تو انہوں نے میرٹ پر کام بھی نہیں کیا ہوگا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں پورا زور لگایا ہوگا، ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اپنے افسران سے کہیں کہ وہ ان کی خلاف میرٹ تقرری نہ کریں، ان کا اٹھارواں گریڈ ہے تو اسی گریڈ والی پوسٹ پر تعینات کریں، مگر یہ وہ کیسے کہہ سکتے تھے، اس وقت تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ انہیں مخمل و کمخواب کے بستر کو چھوڑ کر نیب کی جیل میں رہنا پڑے گا۔ اب تو لوگ انہیں اپنی داستان سنانے کے لئے دھکے کھاتے پھرتے ہیں، تاہم وہ دن بھی نوشتہ دیوار ہے، جب خود ان کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں ہوگا۔

ڈی سی او لاہور، ڈی جی ایل ڈی اے اور پھر ایک پاور کمپنی کی 25 لاکھ روپیہ ماہانہ پر نوکری وہ بڑی آسانی سے قبول کرتے رہے۔ انہیں ایک بار بھی یہ خیال نہ آیا کہ جو لوگ انہیں یہ سب کچھ دے رہے ہیں، وہ بدلے میں بہت کچھ وصول بھی تو کریں گے۔


کاش! اس وقت انہیں قائداعظمؒ کا وہ فرمان یاد رہتا جو انہوں نے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھا سرکاری افسران حکومت نہیں، ریاست کے ملازم ہیں، انہیں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری نبھانی ہے، کسی فرد واحد کی اطاعت نہیں کرنی۔۔۔ اگر وہ ایک لمحے کے لئے بھی اس فرمان کو ذہن میں لے آتے تو میرٹ سے ہٹ کر عطا کئے جانے والے عہدے قبول کرنے کی بجائے، یہ سوال کرتے کہ انہیں کیوں نوازا جارہا ہے؟ بدلے میں ان سے کیا کام لیا جانا ہے؟ میں تو وہ کام کرنے کو تیار نہیں، لیکن ایسا سوچنے کی فرصت کسے ہوتی ہے، جس پر نوازشات کی بارش جاری ہو۔

آج ہی روزنامہ ’’پاکستان‘‘ ملتان میں ایک خبر چھپی ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی نے نیب کے شکنجے سے بچنے کے لئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے داماد مدثر فارقلیط کو ایک پرائز پوسٹنگ کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی ہے۔

وہ گریڈ سترہ کے افسر ہیں اور ملتان میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہیں، انہیں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایل ڈی اے لاہور تعینات کیا گیا، جو گریڈ بیس کی اسامی ہے۔ وہ بھانپ گئے کہ اس کے پیچھے یقیناً کوئی ایجنڈا ہے۔

انہوں نے یہ پوسٹنگ قبول نہیں کی، حالانکہ بیورو کریسی کے سینئر افسران نے ان سے رابطہ بھی کیا۔ بیورو کریسی کا غالباً مقصد ہی یہ تھا کہ اس آؤٹ آف میرٹ تقرری کے بعد چیئرمین نیب جاوید اقبال سے ریلیف حاصل کیا جاسکے گا، مگر ان کی یہ منصوبہ بندی ناکام ہوگئی، ایسا احد چیمہ بھی تو کرسکتے تھے، وہ بھی تو گریڈ اٹھارہ میں رہ کر 20 ویں اور 21 ویں گریڈ کی پوسٹنگ حاصل کرتے رہے ہیں۔

کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ان سے کام لینے کے لئے یہ سب کیا جارہا ہے؟

میں پہلے بھی کئی کالموں میں یہ لکھ چکا ہوں کہ سرکاری افسران اگر اپنا کندھا پیش نہ کریں تو ملک میں کرپشن ہو ہی نہیں سکتی۔ بد نام صرف سیاستدان ہوتے ہیں، حالانکہ زیادہ حصہ تو بیورو کریٹس لے جاتے ہیں۔

ملتان میٹرو منصوبے میں جو بڑی کرپشن ہوئی ہے، اس میں افسروں کا نام آرہا ہے، تحقیقات بھی جاری ہیں، ہر کوئی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا ذکر کرتا ہے، لیکن موقع پر تو سارا کام افسران ہی کرتے ہیں۔۔۔ مثلاً زمین کی خریداری میں جو گھپلے کئے گئے اور رہائشی زمین کو کمرشل ظاہر کرکے اربوں روپے کی جو ادائیگیاں کی گئیں، وہ تو افسروں نے تحصیلداروں اور پٹواریوں سے مل کر کیں، اس وقت تو ایک لوٹ کا سماں ہوتا ہے اور لینڈ ریکوزیشن کے نام پر کرپشن کی گنگا بہائی جاتی ہے۔

اب سارا ریکارڈ نیب نے اپنے قبضے میں لیا ہے تو اس وقت کے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، تحصیلدار اور پٹواری سب ملوث نظر آرہے ہیں۔ اگلے چند روز میں جب اس کیس میں بھی گرفتاریاں ہوں گی تو وہ افسران بھی یہی دہائی دیں گے کہ ان کی کوئی نہیں سن رہا۔۔۔مگر وہ مکافات عمل کو بھول جاتے ہیں، وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک طاقت اوپر بھی ہے، جو سب کچھ دیکھ رہی ہے اور جس کا اپنا ایک نظام ہے، جس کے تحت وہ پکڑتی ہے تو کوئی چھڑوانے والا بھی نہیں ہوتا۔


احد چیمہ کی گرفتاری کے حوالے سے میں نے دو خبریں دیکھیں۔ ایک پنجاب حکومت کے ترجمان کی تھی، جس میں انہوں نے اس گرفتاری کو روایت سے ہٹ کر قرار دیا، اور کہا کہ سمن کی تعمیل نہ ہونے پر دوسرا سمن بھیجا جاتا ہے، اس طرح گرفتار نہیں کیا جاتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی سرکاری افسر کی کرپشن کے الزام میں گرفتاری پر حکومت کیسے اس کی حمایت میں بیان جاری کرسکتی ہے، اسے تو نیب کے اقدام کی سپورٹ کرنی چاہیے، اگر اس کا دعویٰ شفاف حکمرانی کا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ایک لاہور میں بیٹھا ہوا افسر لاہور میں پیشی پر نہیں جاتا تو اسے کیا سمجھا جائے گا۔ ظاہر ہے وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے یا پھر اسے یقین ہے کہ حکومت اسے بچا لے گی، اُسے دوبارہ سمن کیوں بھیجا جائے، گرفتار کیوں نہ کیا جائے۔

ایک دوسری خبر یہ چھپی ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی نے احد چیمہ کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس سے سرکاری افسران میں عدم تحفظ پیدا ہوگیا ہے۔ کیا مضحکہ خیز مؤقف ہے؟ اول تو ساری بیورو کریسی بُری نہیں، اس میں اچھے افسران بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

بہت بڑی تعداد تو ایسے افسران کی بھی ہے کہ جنہیں کھڈے لائن لگایا گیا ہے، اچھی پوسٹنگ ہی نہیں دی جاتی، وہ بھلا کیونکر احد چیمہ کی حمایت کریں گے؟ جو میرٹ سے ہٹ کر پوسٹنگز لیتے رہے؟


پھر ایک افسر کی گرفتاری سے افسران میں عدم تحفظ کا احساس کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ کیا سب یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایمانداری سے کام نہیں کیا اور کسی بھی وقت ان پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے۔

پنجاب میں جو انٹی کرپشن کا محکمہ قائم ہے، اس نے تو آج تک کسی سی ایس پی افسر پر ہاتھ نہیں ڈالا، بس چھوٹے موٹے کلرکوں اور پٹواریوں پر ہاتھ ڈالا ہے، کیا وہ نیب کو بھی ایسا ہی محکمہ بنانا چاہتے ہیں، بیورو کریسی کو اب اپنے جھوٹے خوابوں سے باہر نکل آنا چاہئے۔

جس ملک میں ایک وزیراعظم کو کوئی رعائت نہیں مل رہی، وہاں اب کرپٹ بیورو کریٹس کیسے بچ سکتے ہیں؟ جب نیب میں ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں تو سرکاری افسران کو ثبوت ملنے پر کیسے چھوڑا جاسکتا ہے۔۔۔البتہ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ سب کو انصاف ملے، احد چیمہ ہو یا کوئی اور اس کی سنی جانی چاہئے اگر اس کے پاس بے گناہی کے ثبوت ہیں تو انہیں اہمیت ملنی چاہئیے، انتقامی کارروائی کا تاثر بھی پیدا نہ ہو، کیونکہ یہ کہاوت مشہور ہے کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہئے، بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ صرف اسی طرح ملک میں قانون اور انصاف کی دھاک بھی بیٹھے گی اور عوام کا اس پر اعتماد بھی بڑھے گا۔

مزید :

رائے -کالم -