ڈاکٹر فرید پراچہ کی ادھوری خود نوشت 

ڈاکٹر فرید پراچہ کی ادھوری خود نوشت 
ڈاکٹر فرید پراچہ کی ادھوری خود نوشت 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تقریباً ہر شخص کی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس کی وہ عمر بھر کوئی عقلی توجیہہ نہیں کر سکتا۔ ہمارے زمانہئ طالبعلمی کے رہنما جناب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے بھی اپنی خود نوشت ”عمر رواں“ میں ایک باب جنات پر باندھا ہے۔ اس حوالے سے چند واقعات سپرد قلم کئے ہیں۔ ایک واقعہ اس طرح ہے کہ ان کے سامنے چائے کی پیالی خود بخود پرچ میں گھومنے لگی اور گھومتے گھومتے بالکل دوسری سمت مڑ گئی۔  دوسرا واقعہ  کمرے کی بتی کا بار بار از خود بجھ جانے کا ہے، تیسرے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ان کے گھر کی بالائی منزل پر واقع ایک کمرہ اچانک شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ بہت بھاگ دوڑ کے بعد ہی آگ پر قابو پایا جا سکا۔ پراچہ صاحب نے لکھا ہے کہ ایسے واقعات عام طور پر شارٹ سرکٹ کے باعث پیش آتے ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ بجلی کی تاریں بالکل ٹھیک تھیں۔ پھر وہ کمرہ زیادہ تر بند ہی رہتا تھا، معلوم نہیں آگ کیسے لگ گئی۔ غالباً یہ جنوں کی کارروائی تھی۔


ڈاکٹر پراچہ کی زندگی کا بہت بڑا حصہ چونکہ سیاست کے جنگل میں گزرا ہے اس لئے ہمارا خیال تھا کہ وہ اس ماحول کے جنوں بھوتوں کے قصے بھی لکھیں گے۔ کیونکہ ہماری آسیب زدگی پر تومنیر نیازی کا کمال کا شعر ہے:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے 
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ


ہم کسی روز بھلے چنگے جمہوری ماحول میں سوئے ہوتے ہیں، اگلے روز آنکھ کھلتی ہے تو سارا ماحول آسیب کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔ ہر شے سہمی ہوئی اور ہر چہرے پر خوف کی پرچھائیاں۔ اخبارات کی سرخیاں چیخ رہی ہوتی ہیں کہ ہمارے بنیادی حقوق سلب ہو چکے ہیں، جن ہاتھوں میں ہتھ کڑیاں پہنائی جاتی ہیں انہیں خبر دار کیا جاتا ہے کہ سول کورٹ کا رخ نہ کریں، آئین معطل ہو چکا ہے ہر شہری دوسروں سے سوال کر رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں، کیا ہم بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں جب کوئی چاہے لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دے، کیا اندھیر ہے آخر! 
میں ”عمررواں“ پڑھ کر فارغ ہوا تو کسی دوست نے پوچھا، اس میں انہوں نے کسی ایسے جن کا بھی کہیں ذکر کیا ہے جس نے پراچہ صاحب کو بری طرح خوفزدہ کر دیا تھا۔ میرے اس دوست کو در اصل پراچہ صاحب نے خود ایک واقعہ سنایا تھا۔ جب وہ مشرف دور کی قومی اسمبلی کے ممبر تھے اور ایک پارلیمانی کمیٹی کے رکن تھے جس کے ذمے چین سے خریدے گئے ناکارہ انجنوں کی خریداری پر تحقیقات کرنا تھا۔ پراچہ صاحب نے بتایا کہ ایک روز ہماری اس کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا، ہم انجنوں کے سودے میں ہونے والی کرپشن کا جائزہ لے رہے تھے۔ دستاویزات کے مطالعہ اور بعض متعلقہ افراد سے پوچھ گچھ کے بعد ہمارے ہاتھ اصل مجرموں تک پہنچ رہے تھے۔


اچانک باہر سے ہمارے کمرے کے دروازے پر زور سے ٹھڈا پڑا در اصل آنے والے نے اپنے بھاری بھرکم بوٹ سے کام لیا تھا۔ دروازہ جو کھلا تو جو جن ظاہر ہوا اور جس کو ہم نے بچشم سر دیکھا وہ ریٹائرڈ جرنیل اشرف قاضی تھے۔  چہرے سے خشونت ٹپک رہی تھی۔ بڑے اکڑے اکڑ ے  سے انداز میں کمرے میں داخل ہوئے اور چیخ پڑے، کیا ہو رہا ہے یہاں؟ ہم نے اپنے حواس مجتمع کرتے ہوئے عرض کیا، پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہو رہا ہے۔ ہم خراب انجنوں کی خریداری پرانکوائری  کر رہے ہیں۔ آنے والا دوبارہ چیخا۔ ”بند کرو یہ سب کچھ، کسی تحقیقات کی ضرورت نہیں۔ خبردار جو آئندہ ایسا کوئی اجلاس بلایا!“ یہ کہہ کر وہ جن نما شخصیت پاؤں پٹختی باہر نکل گئی۔ صحیح پوچھیئے تو ہم کئی دن تک اس خوف سے باہر نہ آ سکے۔ ہم نے نہ کوئی بیان دیا، نہ کوئی پریس کانفرنس کی وہ انکوائری بھی پھر فائلوں میں دب کر رہ گئی۔ در اصل اشرف قاضی ہی تو ریلوے کے وزیر تھے جب ان انجنوں کی حکومت پاکستان نے خریداری کی تھی۔  میں نے اس دوست کو بتایا کہ کتاب میں تو ایسا کوئی واقعہ میرے مطالعہ میں نہیں آیا۔ وہ دوست گویا ہوئے، پراچہ صاحب سے کوئی پوچھے غیر جمہوری اقتدار میں وہ اسمبلی میں لینے کیا گئے تھے؟ ضیا کے دور میں جماعت نے چار وزارتیں لے کر کیا تیر مار لیا تھا جو اب کر لیتے سوال یہ ہے کہ مولانا ابوالاعلی مودودیؒ نے اپنے لٹریچر میں جس اسلامی ریاست کے خدوخال بیان کئے ہیں کیا ان میں کہیں غیر جمہوری قوتوں کے سائے تلے ایسی کسی اسمبلی کا تصور ملتا ہے؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان لوگوں نے تو مرشد کی تعلیمات کو طاقِ نسیان کی زینت بنا دیا ہے، کوئی کیا کہے، کیا سمجھائے ان کو!

مزید :

رائے -کالم -