تعلیمی اداروں کو جنگل بننے سے بچائیں

تعلیمی اداروں کو جنگل بننے سے بچائیں
تعلیمی اداروں کو جنگل بننے سے بچائیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈی آئی جی پولیس محمد احسن یونس سی پی او آفس لاہور میں تعینات ہیں۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں۔ آج کل پنجاب پولیس میں ڈی آئی جی مانیٹرنگ اینڈ پلاننگ ہیں۔ وہ ملتان میں سی پی او بھی رہے اور ایک دن شہبازشریف کے جلال کی بھینٹ چڑھ گئے، جب انہوں نے شجاع آباد میں ریپ کے ایک واقعہ میں ان پر غفلت کا الزام لگا کر او ایس ڈی بنا دیا۔ بعد میں انکوائری ہوئی تو تیر کمان سے نکل چکا تھا کہ ایک بے گناہ کو عتاب کا نشانہ بنا کر تبدیل کیا گیا، حالانکہ انہوں نے بروقت ایکشن لیا تھا اور ملزمان بھی گرفتار کر لئے تھے۔ محمد احسن یونس کو ملتان کے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے تھوڑا عرصہ ہی رہنے کے باوجود بہت بڑے کام کئے ، عوام کو ریلیف فراہم کیا۔ کل ان کا لاہور سے فون آیا اور انہوں نے پوچھا کہ ایس ای کالج بہاولپور میں کالج کے اندر ایک استاد کا طالب علم کے ہاتھوں قتل کیا معمولی واقعہ ہے؟

اس پر اب تک کیا ایکشن ہوا ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی پیش بندی کے لئے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں، کیا تعلیمی شعبے کے افسران نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے، کیا وہ اس واقعہ میں روا رکھی گئی کالج انتظامیہ کی کمزوریوں اور حالات پر نظر نہ رکھنے کی وجوہات کا تعین کریں گے۔پھر انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ ملتان میں تعیناتی کے دوران انہوں نے تعلیمی اداروں میں وی آئی پی کے نام سے ایک سکیم متعارف کرائی تھی۔ وی آئی پی مخفف تھا ۔۔۔Volunteer in Policlicing ۔۔۔یعنی پولیس کے مددگار۔ اس کے تحت بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی سمیت بڑے کالجوں میں ہر کلاس کے طلبہ و طالبات کو وی آئی پی قرار دے کر کارڈز جاری کئے گئے تھے اور انہیں پولیس کے نظام سے منسلک کر دیا گیا تھا۔ وہ کسی بھی واقعہ یا ایمرجنسی کی اطلاع مخصوص نمبروں یا واٹس اپ پر دے سکتے تھے، جن تعلیمی اداروں میں وی آئی پی بنائے گئے، ان کی ایڈمنسٹریشن بہت بہتر ہو گئی۔


مَیں نے ان کی اس حوالے سے اس لئے تائید کی کہ جب گورنمنٹ کالج آف سائنس ملتان میں طلبہ کو پولیس کا مددگار بنایا گیا تو مَیں وہاں پرنسپل تھا۔ وہ عمومی شکایات جو کالج میں آؤٹ سائیڈرز یا منشیات فروشی کے حوالے سے آتی تھیں، وہ یکدم ختم ہو گئیں، کیونکہ جو پولیس مددگار تھے، وہ ایسے افراد کے بارے میں پولیس کو باخبر کر دیتے تھے، جس سے ان کی فوری بیخ کنی ہو جاتی تھی۔ محمد احسن یونس نے کہا کہ اگر گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں یہ نظام رائج ہوتا تو یہ سانحہ رونما ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کی وضاحت انہوں نے اس طرح کی کہ قاتل طالب علم نے یہ واردات ایک دن میں نہیں کی، وہ کئی روز سے اس کی منصوبہ بندی کر رہا ہو گا۔ اس نے اپنے کلاس فیلوز سے بھی یہ معاملہ ڈسکس کیا ہو گا۔

خود دوسرے طالب علموں کو بھی اس کا علم ہو گا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے، مگر حیرت ہے کہ اس کی اطلاع نہ تو کالج کے پرنسپل کو ملی اور نہ ڈائریکٹر سٹوڈنٹس افیئرز کو، نہ ہی کالج کی ڈسپلن کمیٹی کے علم میں یہ معاملہ آیا۔انہوں نے مزید حیرت اس بات پر ظاہر کی کہ جس دن یہ وقوعہ ہوا، وہ خنجر لے کر بڑی آسانی سے کیمپس میں آ گیا۔ اس نے لازماً اپنے کسی ساتھی طالب علم یا کلاس فیلو سے اشارے کنائے میں یہ ذکر کیا ہو گا کہ آج وہ کیا کرنے جا رہا ہے، مگر یہ بات کوئی بھی نہیں جان سکا۔ اسی نکتے پر ان کا کہنا تھا کہ اگر کیمپس میں پولیس مددگار طالب علم موجود ہوتے تو اس کی بھنک انتظامیہ یا پولیس کو ضرور پڑجاتی اور وقوعہ رونما ہونے سے پہلے روکا جا سکتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ آئی جی پنجاب کو یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ پورے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پولیس والنٹیرز بنائے جائیں جو کالج میں کسی بھی کریمنل سرگرمی پر نظر رکھیں اور اس کی اطلاع فوراً کالج انتظامیہ اور پولیس کو دیں۔ پولیس انہیں اس حوالے سے مناسب تربیت بھی دے گی، تاکہ وہ پُرامن معاشرے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔


محمد احسن یونس نے سانحہء ایس ای کالج کے تناظر میں جو باتیں کیں، وہ ایک ہمدرد اور حالات پر نظررکھنے والے پولیس افسر کی مثبت سوچ کی آئینہ دارتھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو بے لگام چھوڑ دیا ہے۔ یونیورسٹیوں کے حالات دیکھیں تو شبہ ہوتا ہے کہ وہاں قانون نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے ہاسٹل جرائم پیشہ آؤٹ سائیڈرز کی آماجگاہیں بن چکے ہیں۔ کالجوں کا حال بھی بُرا ہے۔ جب سے کالجوں میں بی ایس پروگرام آیا ہے، جس میں انٹرمیڈیٹ کے بعد مخلوط تعلیم دی جاتی ہے، مسائل اور خرابیاں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ منشیات کا رجحان تو اب سرکاری سطح پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے بارے میں خفیہ اداروں کی وہ رپورٹ ریکارڈ پر موجود ہے،

جس میں کہا گیا تھا کہ کینیٹن چلانے والا مافیا اس دھندے میں ملوث ہے اور کینٹین پر بکنے والی اشیائے خور و نوش کی آڑ میں منشیات یونیورسٹی میں لائی جاتی ہیں، جس پر ایک بڑا آپریشن بھی کیا گیا، مگر یہ دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا کہ یہ دھندہ رک گیا ہے۔ محمد احسن یونس جب سی پی او ملتان تھے اور انہوں نے طالب علموں کو پولیس مددگار بنایا تھا تو منشیات فروشی کی سب سے زیادہ تفصیلات تب سامنے آئی تھیں اور گرینڈ آپریشن کئے گئے تھے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آئی جی پنجاب پولیس والنٹیئرز کے حوالے سے تجویز وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کریں اور پنجاب کی وزارتِ تعلیم کے ذریعے مشترکہ طور پر طالب علموں کو پولیس، مددگار بنانا چاہیے۔ یہ ایسا طریقہ ہے جس سے پولیس کو نہ تو تعلیمی اداروں میں اپنی چوکیاں بنانے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ ہی کیمپس کے اندر کسی مجرمانہ سرگرمی کی گنجائش رہے گی۔


19مارچ 2019ء کو ڈی پی آئی کالجز لاہور نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کی ہدایت پر ایک حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں اساتذہ کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ وقت مقررہ پر کالج آئیں اور جائیں۔ اس سلسلے میں کالجوں کے پرنسپل اور ڈپٹی ڈائریکٹرز و ڈائریکٹرز کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں۔ ایسے احکامات پہلے بھی جاری کئے جاتے رہے ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آتی، کیونکہ خود پرنسپل صاحبان اور ڈائریکٹرز وقت پر دفاتر میں نہیں آتے۔ کالجوں میں اکثر مسائل کمزور ایڈمنسٹریشن کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ پرنسپلز کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اساتذہ کو من مانی سے روک سکیں۔ سوائے اے سی آر خراب کرنے کی دھمکی کے وہ اور کچھ نہیں کرسکتے۔

سب پرنسپلوں اور ڈائریکٹروں کو اس بات کا علم ہے کہ کون سا استاد کالج اوقات میں کہیں اور پڑھاتا ہے، مگر وہ اپنی نوکری بچانے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ جب سے بوائز کالجز میں مخلوط تعلیم آئی ہے، اساتذہ اگر سارا وقت کالجز میں نہ رہیں تو اخلاقی حوالے سے کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایس ای کالج بہاولپور میں ایک استاد کے قتل کو اگر ایک عام واقعہ سمجھ کر بھلا دیا گیا تو یہ بہت بدقسمتی ہو گی۔ کالج میں ایک طالب علم استاد کے قتل کا منصوبہ بنا رہا ہو اور کسی کوا س کا علم نہ ہو، اس سے بڑی غفلت اور ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب اس سانحہ کے بعد ہوش کے ناخن لے اور مقامی پولیس و انتظامیہ کے اشتراک سے ایسا فول پروف نظام وضع کرے کہ تعلیمی ادارے جنگل بننے سے محفوظ رہیں۔

مزید :

رائے -کالم -