قرارداد پاکستان کا پس منظر
لاہور میں واقع اقبال پارک کو قیامِ پاکستان سے قبل منٹو پارک کہا جاتا تھا جوکہ سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا۔منٹو پارک میں 23مارچ 1940ء کو آل انڈیامسلم لیگ کا ایک ایسا تاریخی اجلاس ہواجس نے دنیا کا نقشہ بدل کررکھ دیا،لاکھوں مسلمانوں کے اس تاریخی اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی گئی جسے قرار داد پاکستان کہا جاتا ہے،اس قرار داد نے انگریزوں اور ہندووں پر واضح کردیا تھاکہ برصغیر میں رہنے والے مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں اور اسی بنیاد پر مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا قیام ضروری ہے۔تاریخ کے اس اہم ترین فیصلہ کی بنیاد پر تقریباسات سال بعد پاکستان کا قیام عمل میں آگیااسی لئے ہر سال 23 مارچ کو قومی جوش و جذبہ کے ساتھ قراردادپاکستان کا جشن منایا جاتا ہے۔ قرارداد پاکستان کی یادگار کے طور پر 23مارچ 1960میں اقبال پارک لاہور میں مینار پاکستان کی تعمیر شروع کی گئی جو تقریبا آٹھ سال میں مکمل ہوئی۔
مسلمانان ہندکے لئے الگ وطن کے مطالبہ پر قائد اعظم ؒ سے کئی مرتبہ مختلف انداز میں سوالات پوچھے جاتے جن کے جوابات قائد بڑی ذہانت سے دیتے تھے۔سر آغا خان نے اپنی کتاب میں قائد اعظمؒاور صحافی کے درمیان ایک دلچسپ گفتگو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ایک مرتبہ مشہور صحافی بیورلے نیکولسن نے قائد ِاعظمؒ سے سوال کیا کہ آپ کس اصول کے تحت پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں؟“ تو جناح نے پیارے انداز میں جواب دیا کہ صرف چار لفظوں کی بنیادپر”Muslims are a Nation“۔اسی طرح ایک مرتبہ قائد اعظمؒ طلباء سے خطاب کررہے تھے کہ ایک ہندو طالبِ علم نے قائدسے سوال کیا کہ”آپ پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں، ہندو اور مسلمان میں کیا فرق ہے؟“ قائداعظم ؒ کچھ دیر خاموش رہے پھر پانی کا ایک گلاس منگوایا،آپؒ نے اس میں سے ایک گھونٹ پانی پیااور گلاس میز پر رکھ کرہندو طالبِ علم کو بلایا اور ا سے پینے کو کہا۔ ہندو طالبِ علم نے پانی پینے سے صاف انکار کر دیا۔ قائداعظمؒ نے اسی لمحہ ایک مسلمان طالب علم کو بلا کر پانی پینے کا کہا تو اس نے فوری وہ پانی پی لیا۔ اس پر آپؒ نے کہا کہ”دونوں قوموں میں بس یہی فرق ہے، اسی لئے میں مسلمانوں کیلئے الگ ملک بنانا چاہتا ہوں۔“
برصغیر پاک وہند کی تاریخ مرتب کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والے تاریخ داں اورمصنف اسٹینلے والپرٹ نے قائد اعظم ؒکی سوانح حیات پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا ٹائٹل ہے”جناح آف پاکستان“۔سن1982ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قائد اعظمؒ کے بارے میں شائع ہونے والی مستند ترین کتب میں سے ایک ہے۔اس کتاب میں قائد اعظمؒ کاایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جب قائد اعظم ؒ کو آخری ایام میں ڈاکٹروں نے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا تو آپؒ نے اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ سے مخاطب ہوکر کہا”فاطی، کیا تم نے کبھی کسی جرنیل کو اُس وقت رخصت پر جاتے ہوئے دیکھا ہے جب اس کی فوج میدانِ جنگ میں اپنی بقا کے لئے مصروفِ پیکار ہو؟“محترمہ فاطمہ جناحؒ نے جواباََ کہا کہ”آپؒ کی زندگی بہت قیمتی ہے۔“قائد اعظمؒ نے فرمایا”مجھے تو ہندوستان کے 10 کروڑ مسلمانوں کی فکر ہے۔“ قائد کی یہ فکر ہندوستان کے دو قومی نظریے کومزید واضح کررہی تھی۔
ایک مرتبہ سن1941 ء میں قائد اعظم مدراس میں مسلم لیگ کا جلسہ کرکے واپس جارہے تھے کہ راستے میں ایک قصبہ سے گذر ہوا جہاں مسلمانوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا،سب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگارہے تھے اسی ہجوم میں پھٹی پرانی نیکر پہنے ایک آٹھ سال کا بچہ بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگارہا تھا،اسے دیکھ کر قائد نے اپنی گاڑی روکنے کو کہا اور لڑکے کو پاس بلا کرپوچھا”تم پاکستان کا مطلب سمجھتے ہو؟“لڑکا گھبراگیا۔قائد نے اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پیار سے پھروہی سوال پوچھا۔لڑکا بولا”پاکستان کا بہتر مطلب آپ جانتے ہیں،ہم تو بس اتنا جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ پاکستان اور جہاں ہندووں کی حکومت وہ ہندوستان۔“قائد اعظمؒ نے اپنے ساتھ آئے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ”مدراس کا چھوٹا سا لڑکا پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے لیکن گاندھی جی نہیں سمجھ سکتے۔“یہ بات صحافی نے نوٹ کرلی اور اگلے روزتمام اخبارات میں یہ خبر شائع ہوگئی اور دنیا جان گئی کہ قرار داد پاکستان نے بچہ بچہ کو سمجھا دیا ہے کہ پاکستان کیا ہے۔