اتحاد امت کا بیانیہ (1)

اتحاد امت کا بیانیہ (1)
 اتحاد امت کا بیانیہ (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تعارف:فرقہ وارانہ دہشت گردی پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ہزاروں افراداس فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں پروفیسر، دانشور، علماء ، وکلاء ، تاجر، ڈاکٹر ، انجینئر، سول و عسکری آفیسرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاوہ نوجوان، طلبہ، بچے، بوڑھے اور خواتین شامل ہیں جن کو محض مسلکی وابستگی کی بنا پر نشانہ بنایا گیا ۔اس تشدد اور انتہا پسندی کی وجہ سے ایک طرف خوف اور منافرت کی فضا عام ہو رہی ہے اور دوسری طرف اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ رجحان عالمی سطح پر پاکستان کے وقار اورتشخص کونقصان پہنچا رہا ہے ۔ اختلاف رائے میں کوئی عیب نہیں مگر آج ہمارے مسلکی اختلافات دشمنی وعناد، الزام تراشی، کذب و افتراء یہاں تک کہ ایک دوسرے کی تکفیرسے بڑھ کر خون ریزی کی حد کو پہنچ گئے ہیں۔مذہبی حلقوں میں باہمی عداوتوں کے نتیجے میں دین اسلام کو بدنام اور مورد الزام ٹھہرایا جارہاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری سماجی و سیاسی زندگی پر بھی بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔مسلکی اختلاف کی اس دلدل میں مذہب کی اعلی اقدار اور اخلاقیات کومکمل نظر انداز کر دیا گیاہے۔


اگرچہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ موقف پیش کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں کوئی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہے ، پاکستان میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل و غارت میں دشمن ممالک کی ایجنسیاں شامل ہیں۔ان کے نزدیک مسالک کے درمیان فروعی اختلافات ہیں جبکہ بنیادی عقائد پر کوئی اختلاف نہیں۔ تاہم دیگر مذہبی مفکرین اور سکالرزکے نزدیک یہ بیانیہ مصنوعی اور سطحی نوعیت کا دکھائی دیتا ہے کیونکہ فروعی اور فقہی اختلاف کی بناء پرکوئی مسلک دوسرے مسلک کی تکفیر نہیں کرتا۔ ایک دوسرے مسالک کے بارے میں فتویٰ لگانے والوں میں برصغیر کے جید علمائے کرام بھی شامل رہے ہیں۔ سلامتی امور کے ماہرین کے مطابق بیرونی سازشوں کے امکانات سے قطع نظر حالیہ فرقہ وارانہ تشدد میں نہ صرف مختلف مسالک کے افراد ملوث ہیں ،بلکہ اپنے عمل کو جائز قرار دینے کے لئے اپنے مسالک کے اکابرین کے دیے گئے فتووَں کاہی سہارا لیتے ہیں۔


پاکستان میں اتحاد امت کی بحث کے تناظر میں تمام مذہبی طبقات مسالک کی موجودہ تقسیم کو حقیقت مانتے ہیں اور ان کے ادغام کو خارج از امکان سمجھتے ہیں۔اس لئے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اپنے اپنے عقائد و نظریات پر کاربند رہتے ہوئے اتحاد امت کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔ اہل فکر و نظر کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی کہ فرقہ وارانہ تشدد کے موجودہ بیانیوں اور اسباب کا عمیق جائزہ لیا جائے تاکہ ا ن کی روشنی میں اتحاد امت کے لئے ایک متبادل بیانیہ اور لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ متبادل یا جوابی بیانیہ فقط کسی ایک دستاویز کا نام نہیں بلکہ یہ مسلسل سماجی تعامل کا نام ہے۔اتحاد امت کے اس بیانیہ سے مسلکی اختلاف اور منافرت کے بیانیہ کے اثرات کو زائل کرنے میں یقیناًمدد ملے گی۔ بیشتر مذہبی مفکرین کی رائے کے مطابق ماضی میں بھی پاکستان میں علمائے کرام نے اتحاد امت کے لئے کوششیں کی ہیں جو کافی حد تک ثمر آور رہی ہیں جن کی بدولت فرقہ وارانہ تشدد ایک حلقے تک محدود رہا اور عوام اس سے لاتعلق رہے۔ الحمد للہ کہ آج بھی تقویٰ شعار،اعلیٰ کردار، اعتدال پسند اور صاحب بصیرت علماء و صلحائے امت کا ایک گروہ موجود ہے جو امت مسلمہ کے درد کو سمجھتا ہے اور پاکستان میں اتحاد امت کے لئے ہر محاذ پر کوشاں ہے۔

اس فکرکوعملی جامہ پہناتے ہوئے ہم نے اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق ومکالمہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اشتراک سے پاکستان بھر سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام ، مذہبی سکالرز اور ماہرین کو اسلام آباد میں اتحاد امت کا بیانیہ اور لائحہ عمل کے عنوان سے منعقدہ فکری اور تربیتی نشست میں مدعو کیا۔اس عمل کا بنیادی مقصد اتحاد امت کے بیانیے کی تیاری اور موَ ثر ترویج کی حکمت عملی وضع کرنا تھا۔اس مشاورتی اجلاس میں مذہبی سکالرز اور ماہرین نے مسلکی اختلاف کے حوالے سے مختلف موضوعات پر مقالہ جات پیش کئے اور اتحاد امت کے لئے متبادل بیانیہ اور لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے اپنی سفارشات پیش کیں۔ ہم نے مذکورہ موضوع پر ماہرین کے مابین بحث کو آگے بڑھانے اور کتابچہ کو مرتب کرنے میں سہولت کاری کا فریضہ سرانجام دیا ۔ مختلف مکاتب فکر سے رکھنے والے علمائے کرام،مذہبی سکالرز اور ماہرین سماجیات سے مسلسل مشاورت کے بعدکل مسالک علماء بورڈ نے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے اوراتحاد امت کے فروغ کے لئے ایک بیانیہ تشکیل دیا ہے۔اس بیانیہ میں سب سے پہلے پاکستان میں مسلکی منافرت کے حوالے سے درپیش پانچ بڑے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پھران مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اتحاد امت کا مجوزہ بیانیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس متبادل بیانیہ کے فروغ میں علمائے کرام کی طرف سے اب تک تجویز کئے گئے عملی اقدامات اور لائحہ عمل عملدر آمد کی اتھارٹی کے اعتبار سے ترتیب دیے گئے ہیں۔ہم امید کرتے ہیں کہ اتحاد امت کے اس بیانیے کی موَثر ترویج کے ذریعے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور تنازعات کی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

کل مسالک علماء بورڈ پاکستان
دستاویز کی تیاری کا طریقہ کار:اس دستاویز کی تیاری کے پہلے مرحلہ میں پاکستان میں مسلکی اختلاف اور منافرت کے حوالے سے مختلف مسالک کے علمائے کرام، مذہبی سکالرز اور ماہرین کی رائے جاننے کے لئے اسلام آباد میں ایک پانچ روز ہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ ورکشاپ میں بین المسالک اختلافات کے حوالے سے تفویض کردہ مختلف موضوعات اور جہتوں پر مذہبی سکالرز اور ماہرین کی جانب سے مقالہ جات پیش کئے گئے۔ ہر مقالہ کے اختتام پر سوال و جواب کی نشست رکھی گئی۔ بحث کے دوران اٹھنے والے نئے سوالات کو دوبارہ علمائے کرام کے سامنے رکھا گیا۔ اس عمل کے نتیجے میں اتحاد امت کے بیانیہ کو مرتب کرنے کے لئے مختلف سفارشات اور تجاویز سامنے آئیں۔ مشاورتی اجلاس کے دوران علمائے کرام اور مذہبی سکالرز نے کھل کر فرقہ وارانہ اختلاف کے اسباب کا تجزیہ پیش کیا اورہم آہنگی کے لئے عملی اقدامات تجویز کئے۔ اگلے مرحلہ میں کل مسالک علماء بورڈ کی ٹیم نے پانچ روزہ ورکشاپ کی کاروائی ، مقالہ جات اور بحث سے استفادہ کرتے ہوئے اتحاد امت کے بیانیہ کا ابتدائی مسودہ تیار کیا۔ اس مسودہ پرمزید مشاورت کے لئے نظرثانی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس نے ابتدائی مسودہ کا جائزہ لیا اور ترامیم تجویز کیں۔


اتحاد امت کے اس مجوزہ بیانیہ کی جانچ کے لئے اسے پاکستان کے چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں منعقدہ پانچ فوکس گروپ ڈسکشنز میں مختلف مسالک کے علماء کے سامنے پیش کیا گیا۔جنہوں نے اس بیانیہ کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کی ترویج کے لئے مختلف تجاویز بھی پیش کیں۔ مزید رہنمائی کے لئے بیانیہ کی اس دستاویز کو پاکستان کے جید علماء کی طرف بھی بھیجا گیا۔جن میں سے اکثریت نے اسے سراہا اور اس میں بہتری کے لئے تجاویز پیش کیں۔ اس عمل کے آخری مرحلہ میں اتحاد امت کے اس مجوزہ بیانیہ کو حتمی شکل دینے اور اس کی ترویج کے لائحہ عمل پر مشاورت کیلئے کو اسلام آباد میں ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیاجس میں تمام مکاتبِ فکر کے جیّد علمائے کرام، مذہبی سکالرز اور ماہرین تعلیم نے ترامیم کے ساتھ اس دستاویزکی منظوری دی۔دستاویز کا دائرہ کاراس دستاویز میں پاکستان میں مسلکی تقسیم کے اعتبار سے صرف مقامی عوامی بیانیوں کی بات کی گئی ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد گروہوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے دلائل اور بیانیے اور ان کا جواب اس کے دائرہ کار سے خارج ہے ۔
فرھنگ اصطلاحات:دستاویز میں استعمال کردہ چند کلیدی اصطلاحات کے مطالب کو درست طور پر سمجھنے کے لئے ان کی وضاحت ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔


بیانیہ :بیانیہ سے مراد چند ایسے عقائد و نظریات ہیں جنہیں معاشرے کا ایک گروہ بطور حقیقت قبول کر لیتا ہے۔ ان کے نزدیک یہی بیانیہ سچائی کا حامل ہوتا ہے اور وہ اس بیانیہ کو من و عن قبول کرتے ہیں ۔ بعض اوقات افراد یا گروہ ان بیانیوں پر سختی سے کاربند ہوتے ہیں اور اس کے مخالف کوئی آواز یا رائے سننا پسندنہیں کرتے۔


جوابی؍متبادل بیانیہ: جوابی یا متبادل بیانیہ ایسے خیالات، آراء یا نظریات پر مشتمل ہوتا ہے جسے لوگوں کے سامنے ایک الگ رائے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ جوابی بیانیہ کسی کے عقائد و نظریات کی نفی نہیں کرتا بلکہ غورو فکر کے لئے مختلف زاویہَ نظر فراہم کرتا ہے۔ جوابی بیانیہ کسی بھی موجود بیانیہ کی دوسری فکر کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

فتنہ وفساد : فتنہ کے لغوی معنیٰ آزمائش، آفت، دنگا فساد، ہنگامہ، دُکھ دینا اور تختہء مشق بنانا وغیرہ ہیں۔ قرآن و احادیث میں یہ کئی معانی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً عذاب، شرک اور کفر ،ابتلاء اورامتحان اللہ تعالی کے راستہ سے روکنا، فساد برپا کرنا،اور اختلاف امت کو بھی فتنہ کہا گیا ہے۔


نہی عن المنکر: نہی یعنی روکنااورمنع کرنا اورمنکریعنی ناپسند،ناروااوربد ۔اصطلاح میں اس سے مراد ہرو ہ مجسے شارع مقدس ( خدا)نے براجاناہے اوراسے حرام قراردیاہے اسے منکرکہتے ہیں۔ اگرچہ اسلام کی دعوت و تبلیغ میں سے ایک اہم قانون نہی عن المنکریعنی برائی سے روکنا ہے مگرپاکستان میں مسلکی منافرت کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس اصطلاح کااکثر غلط استعمال کیا جاتاہے۔ دوسرے مسالک کے عقائد و نظریات کو برائی قرار دینا ایک روایت بن چکا ہے۔ شریعت کے عطاکردہ معیار کے مطابق اس اصطلاح کا درست استعمال اتحاد امت کے قیام کے لئے اہم ہے۔
مسئلہ نمبر:تکفیری سوچ اور ایک دوسرے کے خلاف شرک ،کفر اور گستاخ رسول کے فتاویٰ
مسلمان کون ہے ؟
آئین پاکستان کی دفعہ کے مطابق مسلم سے مراد ایساشخص ہے جواللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدت وتوحید ، حضرت محمد، جو اللہ کے آخری پیغمبر ہیں، کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتاہو اور کسی بھی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم نہیں کرتا جو حضرت محمدکے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہو یا دعویٰ کیا ہو۔ اور غیر مسلم سے مرادایسا شخص ہے جو مسلم نہ ہو اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص ، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی اور نام سیموسوم کرتے ہیں)کا کوئی شخص،یا کوئی بہائی اور جدولی ذاتوں میں سے کسی سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہیں۔
مذکورہ بالا تعریف کے مطابق پاکستان میں مسلمانوں کے تمام فرقے مسلمان ہیں۔ مسلمان کی اس تعریف پرتمام مسالک (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ)کے اکابرین علماء متفق ہیں اور آئین پاکستان پر ان کے دستخط موجود ہیں۔


ء کی متحدہ علماء کمیٹی، متحدہ مجلس عمل، ملی یکجہتی کونسل ، اتحاد تنظیمات مدارس اور دیگر اتحاد میں تمام مسالک کاایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا اس بات کی علامت ہیکہ ہر مسلک دوسرے مسلک کومسلمان سمجھتا ہے ۔ مسلمانوں کے یہ فرقے اسلام کے بنیادی اعتقادات جیسے توحید و رسالت، وحی، آسمانی کتابوں کے نزول، آخرت، ملائکہ کے وجود، حضورکی خاتمیت، تقدیر اور بنیادی ارکان جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی فرضیت پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں۔ آئین پاکستان میں بیان کردہ مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کے علاوہ کسی مسلمان فرقے کو کافر قرار دینا اور سمجھناآئین پاکستان کی صراحتاً توہین ہے۔ اس لیے ایک مسلمان ریاست میں رہتے ہوئے اس طرح کا تکفیری منہج یا تکفیری طرز عمل انتہائی غلط ہے۔


کافر قرار دینے کی ممانعت
جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا اسے کافر کہنا کسی طرح درست نہیں ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاجس شخص نے بھی کسی بھائی کو کہا کہ اے کافر!تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)
حدیث شریف میں ارشادہے: اگر کسی نے دوسرے کو کافر کہا، تو ان میں سے ایک نے کفر کیا۔ اگر دوسرا شخص کافر ہے تو اس کے ساتھی نے درست بات کہی، اور اگر وہ ایسا نہ تھا جیسا اس نے کہا (یعنی اگر وہ کافر نہ تھا)تو کافر کہنے والا کفر کے ساتھ لوٹا (امام بخاری، الادب المفرد(
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تین باتیں ایمان کی بنیاد میں سے ہیں۔جو لا الہ الا اللہ کہے اسے تکلیف نہ دینا،کسی گناہ کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کرو اور نہ ہم اسے کسی عمل سے اسلام سے نکالیں۔(سنن ابی داود:کتاب الجھاد،باب الغزو مع ائمۃ الجور)
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں امام ابو اللیث سمرقندی فرماتے ہیں ؛


امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے اپنے بیٹے کو مناظرہ کرتے دیکھا تو ان کو منع کر دیا۔ آپ کے صاحبزادے نے کہا کہ آپ خود تو یہ کام کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہم بات اس طرح کرتے ہیں کہ گو یا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ تم مناظرہ کرتے ہو تو تم میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا کفر چاہتا ہے۔ جو اپنے ساتھی کے لیے کفر کا ارادہ کرے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔ (فتاویٰ النوازل ،ص،امام ابو اللیث نصر بن محمد بن ابراہیم سمرقندی،دار الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان)
علمائے امت نے صراحت کی ہے کہ کسی مسلمان سے کوئی ایسا قول و فعل سرزد ہو جس میں ننانوے احتمالات کفر کے اور صرف ایک احتمال صحیح نکلتا ہو تو حسنِ ظن رکھتے ہوئے اس ایک صحیح احتمال کی بنیاد پر اسے مسلمان کہا جائے گا اور اس پر کفر کا فتوی عائد نہیں کیا جائے گا ۔
علمائے کرام اس بات میں توعلمی طور پر اختلاف کرتے ہیں کہ کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ مگر سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی شخص کومحض اس کے کفر کی وجہ سے قتل کرنے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔


ہر گروہ کے علما خود بھی صدقِ دل سے اس کے قائل ہوں اور اپنے پیروکاروں کو بھی قائل کریں کہ ہم جو عقائد وتصورات رکھتے ہیں، ان کی وجہ یہ نہیں کہ ہم باقی تمام مسلم فرقوں کیعقائد وتصورات کو یکسر غلط یا کفر سمجھتے ہیں ، بلکہ اس وجہ سے کہ دلائل کے اعتبار سے ہمارے عقائد ونظریات قابلِ ترجیح ہیں،لیکن ہم شرعاً یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ دوسرے سب غلط یا خدا نخواستہ کفر پر ہیں۔


کسی نظریہ یا عقیدہ کی تکفیر کرنا ایک الگ معاملہ ہے اور کسی شخص یا گروہ کو کافر قرار دینا ایک الگ مسئلہ ہے۔ علمائے دین کلماتِ کفر کو کفر قرار دے سکتے ہیں مگر کسی شخص نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ قاضی یا عدالت کرے گی۔ (جاری ہے)

فقہی اختلاف تکفیر کا باعث نہیں
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فقہی اختلافات تکفیر کا باعث نہیں بنے اور کسی نے فقہی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر نہیں کہا ،مثلانماز اوردیگر عبادات کی ادائیگی کے طریقہ کار میں اختلافات و غیرہ۔ مسالک کے درمیان بعض اوقات قرآن و حدیث کی تاویل و تفسیر میں فرق ہوتا ہے۔ ایک مسلک نے قرآن و حدیث سے ایک طرح کا حکم لیا ہے اور وہ اس پر عمل کررہے ہیں،جبکہ دوسریمسلک نے دوسری طرح کا حکم لیا ہے اور وہ اس پرعمل کررہے ہیں۔ اس میں جتنی ہم آہنگی ہو سکتی ہے وہ اچھی ہے اور جہاں نہیں ہو سکتی وہاں اپنے نقطہ نظر پر عمل کرنا ہی مناسب ہے۔ ۔ اختلاف میں کوئی حرج نہیں لیکن تناوَ، قتل وغارت اور تشدد کی کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔

وہ اختلاف جس کی نوعیت علمی و تحقیقی ہے وہ برا نہیں بلکہ قابلِ تعریف ہے، یہ اختلاف بلاشبہ باقی رہنا چاہیے کہ زندگی کی علامت اور علم و استدلال کے لیے مہمیز ہے،لیکن ایسا اختلاف جس کی عمارت دوسرے سے نفرت، اسے باطل ، بدعتی اور کافر وگستاخ قرار دینے جیسی خطرناک بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہے۔ یہ باعثِ رحمت اختلاف کو بھی زحمت اور عذاب میں بدل دیتا ہے۔

مزید :

کالم -