عمران خان کا یقین
جب عمران خان صاحب گرفتار ہوئے تو ان کی پارٹی کے پاس ایک راستہ پرامن احتجاج کے ساتھ آئینی و قانونی جدوجہد کا تھا جس سے یقیناً عمران خان چند دن بعد ہی رہا ہوجاتے اور عمران خان کی مقبولیت کے سورج کی آب و تاب میں مزید کئی گنا اضافہ بھی ہوجاتا. بے صبری انسان سے ہمیشہ غلط فیصلے کرواتی ہے جو لمحہ بھر میں کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیتے ہیں.
عدم اعتماد کے بعد عمران خان کے ہر فیصلے میں بے صبری اور حواس باختگی نطر آتی ہے.عمران خان کی زبان سے جاری ہونے والا فرمان ساری پارٹی کے اتفاق و فیصلوں پر بھاری قرار پایا اور حرف آخر ٹھہرا.اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران خان اس عمل کو دل پر لے گئے اور ہر روز معرکہ حق و باطل یا فیصلہ کن جنگ سمجھتے ہوئے آر یا پار کا ذہن لیے ہی میدان میں اترے.
انہیں یہ پختہ یقین تھا کہ وہ یہ 5 سال ہر صورت پورے کریں گے اور اگلے 5سالوں کا بھی پختہ انتظام کیا جاچکا ہے. ان کے خلاف ہونے والی ہر سیاسی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے کبھی عمران خان کو خود سے کچھ نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ ان کے آگے طاقتور حلقے حفاظتی دیوار بنے کھڑے ہوتے تھے.اس حفاظتی دیوار کو 2028 تک ہر صورت اپنے آگے کھڑے رہنے کا عمران خان کو مکمل یقین تھا.
عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عوام کی ہمدردی سمیٹنے میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے اور یوں وہ مقبولیت کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے.انہیں وہاں سے پاکستان کا ہر شخص (اپنی پارٹی کے اہم ترین رہنماؤں سمیت) "بونا" نظر آنے لگ گیا.
وہ یہ بھول گئے کہ 2018 میں انہیں اقتدار محض "قبولیت" کی بنیاد پر ملا تھا ورنہ اس وقت "مقبولیت" میں نواز شریف ان سے کہیں آگے تھے.
پوری پارٹی نے سمجھایا کہ سیاست دان کے لیے اقتدار آنے جانے والی شے ہوتی ہے لیکن ہمیں قومی اسمبلی سے باہر نہیں نکلنا چاہیے. عمران خان نے کسی کی بات کو اہمیت نا دی اور "میری پارٹی میری مرضی" کے اصول کے تحت سب کو استعفے دینے کا حکم دے دیا.
پارٹی کی اکثریت نے کے پی اور سندھ میں اچھی بھلی چلتی حکومتوں کو نا چھوڑنے اور اسمبلیاں نا توڑنے کا مشورہ دیا مگر عمران خان صاحب نے وہاں بھی "میری پارٹی میری مرضی" کے تحت اسمبلیاں توڑیں اور مقبولیت کے نشے میں سب کو للکارنے کے سلسلے کو مزید تیز کردیا.
حکومت گرانے کو امریکی سازش، بیرونی مداخلت اور ملک سے غداری قرار دیا. دعویٰ کیا کہ میری حکومت امریکہ نے گرائی کیونکہ میں نے امریکہ کو absolutely not کہا تھا. انہوں نے سائفر کو لہرا لہرا کر عوام کو بتایا کہ پہلی دفعہ کسی حکمران نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی تھی جس کی انہیں سزا ملی ہے.ہماری عوام نے امریکہ مخالف بیانیے کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور یوں عمران خان کو عوامی ہمدردی سمیٹنے کا موقع آسانی سے میسر آگیا.
نیب کے ایک کیس میں جب عمران خان کی گرفتاری ہوئی تو عمران خان کی پارٹی نے اس پر کور کمانڈر ہاؤس جلا دیا، شہداء کی یادگاروں کی بیحرمتی کی گئی، حساس ترین مقامات کو نشانہ بنایا گیا، گاڑیاں جلائی گئیں، پلازے نذرآتش کیے گئے، ملک کے اہم ترین اور حساس ادارے کے خلاف عوام کو لاکھڑا کرنے کی کوشش کی گئی، عوام اور ان کے محافظوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ اس حد کو اس حد تک پار کرنے کی کوشش کی گئی.
پی ٹی آئی نے مقبولیت کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر چھلانگ لگادی جس سے وہ شدید ترین زخمی ہوچکی ہے لیکن پھر بھی اس کی مرہم پٹی کے بعد یہ جانبر ہوسکتی ہے لیکن اس کے لیے عمران خان کا سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے.
9 مئی کے واقعات کے بعد عمران خان تو رہا ہوگئے لیکن ساری پارٹی گرفتار کروالی اور مزید یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے.روزانہ کی بنیاد پر درجنوں اہم ترین افراد پارٹی چھوڑنے کا اعلان کررہے ہیں.جس امریکہ پر حکومت گرانے اور پی ڈی ایم کی حکومت بنوانے کا الزام تھا عمران خان اسی امریکہ سے دن رات مدد کی اپیل کررہے ہیں.مولانا فضل الرحمن کے مطابق 60 سے زائد امریکی حکام نے پاکستان کی وزارت خارجہ کو عمران خان کے لیے خط لکھا ہے.
زلمے خلیل زاد دن رات پریشانی کے عالم میں مارےمارےپھر رہے ہیں.عمران خان امریکی کانگریس کے لوگوں سے شکایتیں لگ کر رہے ہیں.
سابق امریکی مشیر نے عمران خان کے ساتھ ناروا سلوک کو پاک امریکہ تعلقات میں تناؤ کا باعث قرار دے دیا .گویا کہ جیسے تحریک انصاف کے کارکنان عمران خان کو اپنی "ریڈ لائن" قرار دیتے تھے ویسے ہی اب امریکہ عمران خان کو اپنی "ریڈ لائن" قرار دے رہا ہے.
میں سوچ رہا تھا کہ 9 مئی سے اب تک جو کچھ عمران خان اور ان کی جماعت نے کیا ہے اگر کسی دوسری جماعت نے کیا ہوتا تو نونہالان انقلاب اس کو ملک دشمن، غدار اور میر جعفر و میر صادق قرار دے کر ملک سے بھاگنے پر مجبور کرچکے ہوتے لیکن چونکہ یہ سب کچھ عمران خان نے کیا ہے اس وجہ سے اب سکوت ہی سکوت ہے اور ان کا راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے.
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔