قوم پرست حکومت کے لئے سنہرا دور (1)

قوم پرست حکومت کے لئے سنہرا دور (1)
قوم پرست حکومت کے لئے سنہرا دور (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بلوچستان میں قوم پرست حکومتوں کی تاریخ میرے سامنے ہے سردار عطاءاللہ مینگل کا دور حکومت ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں 1972ءسے شروع ہوا اور 1973ءفروری کو ختم ہوگیا۔ سازشیں ہی سازشیں تھیں۔ سکون سے حکومت کرنے ہی نہیں دی وفاق میں بھٹو صاحب وزیر اعظم تھے سردار عطاءاللہ مینگل حیران تھے کہ کیا ہورہا ہے انہیں پتہ ہی نہیں چلا اور تاریخ میں پہلی بار بلوچ سرداروں کو اپنے صوبے میں حکومت کا موقع ملا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا اور نہ بیورو کریسی سے واقف تھے اور نہ ان کی عیاریوں اور چالبازیوں سے کوئی آگہی تھی نہ وفاق میں کوئی بلوچستانی آفیسر موجود تھا ایسا لگتا تھا کہ سردار عطاءاللہ مینگل کو سازشوں کے جنگل میں اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے وہ ایک طرح سے بھیڑیوں کے درمیان کشمکش محسوس کررہے تھے اور حکومت بچانے کے لئے ہاتھ پاﺅں مار رہے تھے ایک سے ایک بڑھ کر سازشیں ہورہی تھیں شاطر بیورو کریسی کے سامنے سردار مینگل کی حکومت ان کے لئے ترنوالے سے زیادہ نہ تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حکومت کو شاطر اور عیار بیورو کریسی نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور قوم پرست وزیر اعلیٰ اور ان کے وزراءایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔
تاریخ میں پہلی بار قوم پرست وزیر اعلیٰ کو حکومت ملی تھی اور پہلی بار بلوچستان کے عوام نے One man One Vote کا حق استعمال کیا تھا اور اس پر بھی بھٹو نے شب خون مارا اور بلوچستان کو آگ اور خون میں دھکیل دیا ایک خون ریز تصادم شروع ہوگیا اور بھٹو نے فوج کو پوری قوت سے استعمال کیا یہ بلوچستان کی تاریخ کا ایک خونچکاں باب تھا اس فوجی تصادم کے اثرات سے بلوچستان اب تک نکل نہیں سکا ہے سردار مینگل کی نو ماہ کی حکومت پر تفصیل سے لکھا جاسکتا ہے لیکن نہیں لکھا گیا جو اس کھیل میں شریک تھے اور جو اس کے پس پردہ سازشوں سے آگاہ تھے ان میں اکثر و بیشتر کردار ہماری دنیا سے بہت دور جاچکے ہیں بلوچستان کی تاریخ المیوں سے بھری پڑی ہے کئی سردار اورنواب اس کھیل کا حصہ تھے اب وہ اپنے سینے میں راز لئے دنیا سے رخصت ہوگئے وہ لکھتے تو ایک انمول اور حیرت زدہ کرنے والی داستان ہوتی اور نجانے اس کے پس پردہ کتنے خانہ نشینوں کے نام طشت ازبام ہوتے بلوچستان کی سیاسی تاریخ وفاداری اور عہد شکنی کی تاریخ ہے بڑی خوف زدہ کرنے والی تاریخ ہے۔

 اب ان گزرے ہوئے واقعات کو قلمبند کرنا بالکل ایسے ہے کہ جیسے کوئی شخص بھڑکتے ہوئے شعلوں کے درمیان بیٹھا ہو اور وہ ابلتے ہوئے آتش فشاں کے سامنے کھڑا ہو اور قلم اس کے ہاتھ میں ہو تو اس شعلہ جوالا کی شدت اسے لکھنے ہی نہیں دے گی بھڑکتے ہوئے شعلوں اور خونچکاں داستان کو شاید ہی کوئی لکھ سکے ہمیں اس کے لئے کسی اور دور کا انتظار کرنا ہوگا۔ موضوع کو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے ساتھ ساتھ چلیں چونکہ اس دور کا عینی شاید ہوں اب جب لکھ رہا ہوں تو لگ رہا ہے جیسے کل کی بات ہے سب سیاسی کردار جو اس کھیل کا حصہ تھے ان سب کے چہرے میری نگاہوں میں ایک ایک کرکے آتے چلے جارہے ہیں کچھ مٹے مٹے سے نقوش ذہن میں ابھرتے ہیں اور پھر معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں سردار عطاءاللہ مینگل کے مخالفین کی تکون تھی وفاق دشمن نمبر ایک کی حیثیت سے مد مقابل تھا اور بھٹو کے ساتھ بیورو کریسی مکمل ہم آہنگ تھی دوسرا پہلو فوج کا تھا اس کے ذہن میں ان بلوچ سرداروں کی حکومت کی حیثیت غداروں جیسی تھی وطن دشمن تھے۔
 پاکستان مکمل امریکی گرفت میں تھا اور سوویت یونین کے ساتھ اس کی کشمکش تیز تر ہوتی چلی جارہی تھی اور افغانستان میں سوویت یونین ایک شکاری کی طرح عنقریب جھپٹنے والا تھا شاہ ظاہر شاہ کاتختہ الٹ دیا گیا تھا اور نیا کھیل شروع ہونے والا تھا جب تک ظاہر شاہ تھا تو افغانستان مکمل سوویت یونین کے زیر اثر تھا اور پاکستان کی کشمکش چل رہی تھی امریکہ اور سوویت یونین اپنی جنگ بلوچستان کی سرزمین پر لڑرہے تھے یہ کشمکش اندرونی زیادہ تھی اور بیرونی سطح پر کم تھی شاہ ایران امریکی پٹھو تھا اور اس کی سرحد کے قریب روس نواز نیپ کی حکومت وجود میں آچکی تھی اس لئے وہ اس حکومت سے خوف زدہ تھا اس کو امریکہ نے اس سوچ پر ابھارا تھا حالانکہ سردار مینگل کی حکومت اس کے لئے کسی خطرے کا باعث نہ تھی مگر امریکہ اور مغرب نے ایران کو اپنے دائرہ اثر میں لے لیا تھا اس لئے وہ امریکہ کی سوچ سے ہم آہنگ ہوگیا تھا کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ ایران کو اپنے لئے استعمال کیا ۔
 تاریخ کا ورق اس وقت پلٹ گیا جب ایران میں شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا مشرق وسطیٰ اس امریکہ اور مغرب کے لئے ایک بہت بڑا تاریخی دھچکا تھا ایران کا انقلاب ایک شعلہ جوالاکی مانند تھا امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں عربوں کو اس سے خوفزدہ کیا یہ 1979 ءکی بات ہے افغانستان میں 1973ءمیں ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا تھا 1973 ءمیں نیپ کے قائدین پر بغاوت کے مقدمات قائم کئے گئے اور اس دور میں بھٹو نے اپنی حکومت بچانے کے لئے امریکہ اور شاہ ایران کو خوش کرنے کے لئے پوری قوت سے فوجی آپریشن کیا اس آپریشن سے امریکہ اور شاہ ایران کو خوشی بھی ہوئی اور اطمینان بھی ہوا اوربھٹو کی حمایت میں شاہ ایران نے چنیوک ہیلی کاپٹر بھی فراہم کئے تھے یوں بلوچستان میں ایران فوجی مداخلت کرتا رہا اور یہ سب کچھ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے کیا گیا اور سوویت یونین کی دھمکی بھی تھی اور وہ روس نواز حکومت کی طرفداری نہیں کرسکا اور نہ اس نے اسلحہ فراہم کیا بھٹو کا دور اہل بلوچستان کے لئے آگ اور خون کا دور بن گیا تھا اوربھٹو نے بلوچوں کو دبانے کے لئے فوج کو پوری قوت سے استعمال کیا پہاڑوں میں خون بہتا رہا وہ لوگ جو اس تصادم میں شریک تھے ان میں کوئی بھی اپنے دور کو قلم بند نہ کرسکا اس دور نے نیپ کے دوستوں اورہمدردوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا تھا اورتاریخ اس دور کو بڑی حیرت سے دیکھ رہی تھی اور دم بخود تھی۔(جاری ہے)

مزید :

کالم -