جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر97
’’یہ تم نے برا کیا۔ میں سمجھا تھا تم اپنے مذہب کے سچے پیروکار ہو۔ مذہب کوئی بھی ہو وہ انسانیت کی حفاظت کا درس دیتا ہے نہ کہ انسانوں کو ایذارسانی کا پیغام۔ تم نے اس بے قصور شخص کو ناحق قتل کر دیا۔ مجھے تمہارے رتبے اور علم پر افسوس ہوا۔‘‘ ملنگ نے افسوس سے سر ہلایا۔
’’رام چندر! آگے بڑھ اور اس اپرادھی کو نشٹ کر دے۔‘‘ وشنو داس نے اپنے پیچھے کھڑے پجاری کو حکم دیا جو دو مرتبہ اپنی خدمات پیش کر چکا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ باندھ کر پہلے وشنو داس کے آگے جھکا پھر اس کے پیروں کو ہاتھ لگا کر اپنے ماتھے پر لگایا۔ اس کے بعد اس نے بالکل پہلوانوں کے سے انداز میں اپنی ران پر ہاتھ مارا اور اکڑوں بیٹھ کر ملنگ کی طرف تھوک دیا۔ تھوک ہوا میں اڑتا ہوا ملنگ کے چہرے کی طرف بڑھا۔ میں ان لوگوں کی تھوک کی کارستانیاں دیکھ چکا تھا۔ ملنگ کے سکون میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ ساکت کھڑا پجاری کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تھوک ملنگ کے چہرے کے قریب آیا تو نہ جانے کس طرف سے ایک شعلہ لپکا۔ چزززززز کی آواز آئی اور تھوک غائب ہوگیا۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر96 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’تمہارا نام کیا ہے بھلے مانس‘‘ ملنگ نے بڑی شفقت سے پجاری سے پوچھا۔ اس نے نفرت بھری نگاہ ملنگ پر ڈالی لیکن کچھ نہ بولا اور زمین پر ہاتھ مار کر اس کا رخ ملنگ کی طرف کر دیا۔ اس کی ہتھیلی سے ایک شعلہ نکلا اور ملنگ کی طرف بڑھا لیکن ا س تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہوگیا۔
قصہ مختصر بچاری وار پر وار کرتا رہا لیکن ملنگ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ ملنگ نے اپنا سوال ایک بار پھر دہرایا۔ پجاری کی سب اکڑفوں نکل چکی تھی۔ کالی داس کا انجام اس کے سامنے تھا۔ اسنے خوفزدہ نظروں سے وشنوداس کی طرف دیکھا۔ جس کی آنکھوں میں شعلوں کا رقص شروع ہو چکا تھا۔ اس نے اس پجاری کو کچھ نہ کہا اور دوسرے پجاری کو اشارہ کیا۔ وہ جھجھکتا ہوا آگے بڑھا اور پہلے پجاری جیسے داؤ آزمانے لگا۔ نتیجہ حسب سابق نکلا۔ وشنو داس کسی سانپ کی طرح بل کھا کر رہ گیا۔ وہ ایک کے بعد ایک پجاری کو اشارہ کرتا گیا۔ چھ کے چھ پجاری ناکام ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے چہروں پر ندامت ثبت تھی۔ وشنو داس نے ایک نظر ان پر ڈالی اور نفرت سے تھوک دیا۔
’’بھلے مانسو! میں اب بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ شیطانی راستے کو چھوڑ کرصراط مستقیم پر چل پڑو ،اسی میں کامیابی ہے۔ یہ دنیا چند روزہ کھیل تماشہ ہے۔ آخر کار ہم سب نے مر کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ وہ غفوالرحیم اللہ پاک سچی توبہ کرنے والے کو فوراً معاف فرما کر اس کے گناہ بخش دیتا ہے اور۔۔۔‘‘
’’بند کر اپنا بھاشن‘‘ وشنو داس گرجا۔ یہ بالک سپھل نہ ہوئے تو یہ وچار کرنے لگاکہ تو مکت(کامیاب) ہو گیا؟‘‘ وہ حقارت سے بولا۔ اس کے لہجے میں غرور اور تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ سب پجاری ہاتھ باندھے ایک بار پھر وشنو داس کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہوگئے۔ وشنو داس نے ایک نظر رادھا پر ڈالی۔
’’پاپن تیرے کارن ایک مہاپرش اور کالی کا سیوک اس سنسار سے چلا گیا۔ اس دھشٹ سے پہلے میں تیرا کریہ کرم کروں گا۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ رادھا کی طرف کیا۔
’’وشنو داس! مردوں کے ہوتے ہوئے ایک عورت پر ہاتھ اٹھانا کسی بھی مرد کے لئے باعث شرم ہے۔ اگر تو اپنی ناکامی کا اعلان کر دے تو میں تجھے معاف کرکے ان سب کو لے کر یہاں سے چلا جاتا ہوں‘‘ ملنگ نے اسے ایک بار پھر سمجھایا۔
’’یہاں سے تم سب اب نرکھ میں جاؤ گے‘‘ وہ دانت پیس کر بولا۔ ساتھ ہی اس نے اپنا ہاتھ جھٹک دیا۔ ایک شعلہ اس کے ہاتھ سے نکلا اور سرعت سے رادھا کی طرف بڑھا۔ لیکن آفرین ہو عبدالودود پر برق کے کوندے کی طرح لپکا اور شعلے کی راہ میں حائل ہوگیا۔ شعلہ اس کے بائیں بازو پر پڑا اس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ وہ اپنا بازو پکڑے وہیں بیٹھ گیا۔ اس کا بازو جل کر سیاہ ہوگیا۔ وہ بری طرح اپنا بازو جھٹک رہا تھا۔ اذیت سے اس کا چہرہ بگڑ گیا۔
’’نامراد! اپنی حرکتوں سے باز آجا نہیں تو مجھے تیرا بندوبست کرنا پڑے گا‘‘ ملنگ کی دھاڑ کمرے میں گونج اٹھی۔ وشنو داس نے قہر ناک نظروں سے ملنگ کی طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ کا رخ اس کی طرف کر دیا۔
’’سب کو بھسم کر دوں گا۔۔۔سب کو نرکھ میں جھونک دوں گا‘‘ وہ غضبناک ہو کر دھاڑا۔ ملنگ عبدالودود کی طرف متوجہ ہوا اور وشنو داس کو موقع مل گیا۔ اس سے پہلے کہ ملنگ سنبھلتا وشنو داس نے ہاتھ جھٹک دیا۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ ہر چند کہ میں ایک عرسے سے جنات اور جادو کے کارنامے دیکھتا چلا آرہا تھا بلکہ کئی بار ان بدبختوں نے مجھے بھی جادو سے قریب المرگ کر دیا تھا۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ورنہ ان خبیثوں نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ہاں تو میں بتا رہا تھا وشنوداس کی انگلیوں سے باریک تار جیسی ڈور نکلی اور لمبی ہو کر ملنگ کے جسم سے لپٹنے لگی۔ ملنگ نے بہت کوشش کی کہ وہ اس وار سے بچ سکے لیکن وہ موذی وار کر چکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ملنگ کا جسم ڈوری سے بندھ گیا۔ وہ کھڑے کھڑے دھڑام سے نیچے گر گیا۔ اس کا صرف چہرہ آزاد تھا ہاتھ، پاؤں اور جسم بندھ چکا تھا۔
’’پاپی! وشنو داس کو اپدیش دے رہا تھا۔ بالکوں کے کھیل سے یہ مورکھ یہ وچار کر بیٹھا تھا کہ وشنوداس بھی انہی جیسا ہوگا‘‘ اس نے حقارت سے تھوک دیا۔ عبدالودود جلدی سے آگے بڑھا۔
’’اے نابکار! اس مجذوب پر اپنی گندی شیطانی طاقت آزما کر تو نے اللہ کے غضب کو آواز دی ہے۔ اس جبار کا قہر تجھے درد ناک عذاب سے دو چار کرے گا‘‘ عبدالودود طیش کے عالم میں وشنو داس کی طرف جھپٹا۔ وشنو داس نے اس کی طرف ہاتھ کرکے پھر وہی عمل دہرایا جس سے عبدالودود کی حالت بھی ملنگ جیسی ہوئی۔ وہ بھی اسی طرح ڈوریوں میں جکڑا گیا۔ وشنو داس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھی۔ سخت غیض و غضب کے عالم میں وہ رادھا کی طرف مڑا۔
(جاری ہے , اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)