فروغ نعت کی تحریک اور محمد علی ظہوریؒ
قیام پاکستان کے بعد فروغ نعت کی تحریک کو بتدریج آگے بڑھتا ہوا دیکھیں تو اس میں ایک نمایاں نام محمد علی ظہوری ؒ کا بھی ہے جنھوں نے اپنے انداز ثنا خوانی، نعتیہ شاعری اور پھر نعت کے موضوع کو ایک تحریک بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔جس وقت انھوں نے نعت خوانی کا آغاز کیا اس وقت مذہبی مجالس میں زیادہ تر علما کے خطابات سننے کا رواج تھا اور نعت پڑھنے والا کسی نہ کسی عالم کے ساتھ منسلک ہو جاتا جو اسے اپنی تقریر سے پہلے نعت کے لیے کچھ وقت دے دیتا۔اس ماحول میں پروان چڑھنے والی نعت خوانی کو انھوں نے اپنی لگن، محنت اور مسلسل ریاضت سے کچھ ہی عرصے میں اہل محبت کے دلوں کے قریب کر دیا۔ مجلس حسان کا پلیٹ فارم متعارف کروا یا اور یوم حسان کی بنیاد رکھی جس نے پورے منظر نامے کو تبدیل کر دیا۔ بابا بلھے شاہ ؒ کی نگری قصور میں اس کی سالانہ مرکزی تقریب نے پورے ملک میں نعتیہ محافل کے ذوق شوق کو ایک نئی آب و تاب بخشی اور دوردراز سے لوگ اس میں شریک ہونے لگے۔ مرکزی مجلس حسان کے ساتھ منسلک ہونیوالوں کا دائرہ مختلف شہروں میں پھیلنے لگا اور یوں اس ادارے سے صوبے بھر کے مختلف شہروں میں یوم حسان منعقد کرنے کی سالانہ تقریبات ہونے لگیں۔یہی وہ وقت تھا جب ان شہروں کے محبان نعت کے دلوں میں محافل نعت کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ آج کی نسل کو نعت خوانی کا جو ماحول میسر آیا ہے اس میں محمد علی ظہوری ؒ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔اس دور میں اور لوگ بھی اپنے اپنے تئیں نعتیہ مجالس کو پروان چڑھانے میں کوشاں تھے لیکن محمد علی ظہوری کی انفرادیت ان میں تین جہتوں سے نمایاں ہے۔ سب سے پہلے ان کا انداز نعت خوانی ہے جس نے عام لوگوں کے بہت بڑے طبقے کو اپنی طرف مائل کیا۔ سادہ انداز بیان، پنجابی لہجہ اور اردو کے الفاظ بھی ایسے جو اپنے ابلاغ اور اثر پذیری کے اعتبار سے دلوں کی دھڑکن بنتے چلے گئے۔ کلام کے دوران گرہ لگانے کو بھی انھوں نے ایک نیا اسلوب اور آہنگ دیا جو نہایت سادہ اور سہل تھا جس سے ایک طرف شعر کا مضمون واضح ہو جاتا اور دوسری طرف محفل میں ذوق شوق کی فضا کو چار چاند لگ جاتے۔ اپنے اشعار میں بزرگو ں کے کلا م کو شامل کرنے سے ان کے وسعت مطالعہ کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ نعت خوانی کے ساتھ ساتھ ان کی دوسری اہم جہت ان کی نعت گوئی بھی ہے جس کی مقبولیت اور قبولیت کا دائرہ بہت وسیع تراہمیت کا حامل ہے۔ یہاں بھی انھوں نے سادگی کو پیش نظر رکھا اور تمام تر شعری صلاحیتیں رکھتے ہوئے بھی مشکل پسندی کی طرف نہیں گئے۔وہ عام لوگوں کے دلوں کے قریب رہے اور ان کے دلوں میں اترتے چلے گئے۔ ادھر وہ کوئی کلام لکھتے اور ادھر وہ ہر کہیں زبان زد عام ہو جاتا۔ "نوائے ظہوری" "کتھے تیری ثنا"، "توصیف"، "صفتاں سوہنے رسولؐ دیاں " جیسی نعتیہ کتابیں آج بھی نعت پڑھنے والے اس کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ ان کی تیسری جہت فروغ نعت کے لیے نمایاں کردار ادا کر نا ہے جس میں انھوں نے مرکزی مجلس حسان کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ملک بھر میں محافل نعت کے انعقاد کو ایک تحریک بنا دیا اور اس کے ذریعے نعت پڑھنے والوں کو عشاقان رسولؐ سے متعارف ہونے کا بہترین موقع فراہم کیا۔ اس دور میں محافل نعت میں مدعو کئے جانے والی نمایاں آوازیں اسی پلیٹ فارم سے متعارف ہوئیں۔ اختر سدیدی جیسے بے مثال ادیب و شاعر کو محافل نعت میں بطور نقیب متعارف کروانے کا سہرا بھی انھی کے سر ہے جن کو اس شعبے میں نمایاں ترین حیثیت حاصل ہوئی جن کا نعم البدل آج تک دکھائی نہیں دیا۔ان کے فیض یافتہ تلامذہ بھی کثیر تعداد میں تھے جنھوں نے اس فن میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اپنے دولت خانے پر ہفتہ وار نعت کلاسز کا سلسلہ بھی شروع کیا جس میں شریک ہونیو الوں نے نعت کے حوالے سے نہ صرف بنیادی تعلیم حاصل کی بلکہ آگے جا کر اس شعبے میں نام بھی بنایا۔ اپنے آبائی گاؤں آرائیاں میں "مرکز توصیف " کے نام سے مرکز بھی قائم کیا جہاں ان کے وصال کے بعد ان کی تدفین بھی ہوئی۔انھیں بعد ازل وصال حکومتی اعزاز پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا جو اگر ان کی زندگی میں دیا جاتا تو اس کا وقار اور بھی بڑھ جاتا۔ایک تقریب میں اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین کو ان کی نعتیہ خدمات کے اعتراف کے طور پر تمغہ حسن کارکردگی دینے کی قرارداد پیش گئی تو انھوں نے یہ کہہ کر اس ذمہ داری سے خود کو سبکدوش کر لیا کہ یہ دنیاوی اعزازات ایسی شخصیت کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے جو بہت مضحکہ خیز بات تھی۔ ان کے وصال سے کچھ عرصہ قبل اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی معیت میں سرکاری وفد کے ساتھ انھیں حرمین شریفین کے سفر کی سعادت میسر اور ایسا منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ انھیں روضہ رسولؐ کے اندر حاضر ہو کر سلام پڑھنے کی سعادت میسرآئی اور انھوں نے اپنے مقبول اشعار "یا رسول اللہ تیرے در کی فضاؤں کو سلام" صاحب نعت کے حضور پیش کئے جہاں سے واپس آ کر کچھ ہی دنوں بعد اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ اس حاضری سے واپسی پر جس جس سے ملاقات ہوئی اس کو یہی کہتے تھے کہ " سرکار ؐ نے میری خدمت قبول کر کے میرا "مْل" پا دتا اے" اب کسی چیز کی حسرت نہیں رہی۔ اگست میں ان کے وصال کو 25 برس گزر گئے لیکن ان کی آواز اور کلام آج بھی اہل محبت کے دلوں کے تار چھیڑ دیتا ہے۔نعت کے شعبے سے منسلک نئی نسل کو اپنے اسلاف کی خدمات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے جن کی شبانہ روز محنتوں کا ثمر آج انھیں پھل کی صورت میسر ہے۔