آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر63
تیندوالازمی طور پر مہابیر کی آمد کے بعد ہی سار میں داخل ہوا تھا۔ پھر میں سار کے اندرونی دروازے سے دالا ن میں آیا۔ وہاں پیروں کے ایک سے زیادہ نشانات موجود تھے۔
آگے بڑھا تو بائیں ہاتھ بھوسے والے کمرے پر نظر پڑی۔ اس کا دروازہ جیسا کہ بتایا گیا ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ وہاں بھی گوبر میں بھرے ہوئے انسانی قدموں کے نشانات جاتے اور آتے دکھائی دیے۔وہ ایک ہی آدمی کے نشانات تھے اور اس آدمی کے جس کے نشانات تیندوے کے پنجے کے نیچے دب گئے تھے۔
مہابیر سار سے گزر کر،بھوسے والے کمرے میں آیا اور دوبارہ سار میں داخل ہوا اور اسی وقت تیندوے نے اس پر حملہ کیا۔کشمکش کے رہے سہے آثار بھی واضح کررہے تھے کہ وہ آسانی سے تیندوے کے قابو نہیں آیا مگر نا معلوم وجوہ سے اس نے شور بالکل نہ مچایا۔ میں اس پہلو پر غور کرتا رہا اور پھر میری نگاہیں شانتی پر مرکوز ہو گئیں۔
دھنی رام کی بکھری گاؤں کے سرے پر واقع تھی۔ محراب دار بیرونی دالان کے بیچوں بیچ صدر دروازہ تھا، سیدھا صحن تک جاتا۔ صحن کے دونوں جانب مقابل رخ پر دالان اور ان کی پشت پر تین تین بڑے بڑے کمرے تھے۔ تیسری چہار دیواری کے ساتھ دالان اور رسوائی تھی۔وہیں گھڑونجی کے پاس ایک ستون میں بندھی ہوئی متھانی اور مہی کاٹین رکھا تھا۔صحن کے بیچوں بیچ چبوترے پر تلسی کے پودے کے سائے میں تین چار گول گول پتھروں کے دیوی دیوتا ایستادہ تھی۔ چوتھی چہار دیواری کی بیرونی جانب مویشیوں کی لمبی سی سارتھی جس کا اندرونی دروازہ دالان میں کھلتا جس کے برابر بھوسے کا کمرہ، پھر غلے کا۔۔۔اور آخر میں وہ کمرہ جو شانتی کے لیے مخصوص تھا۔ صحن کی دوسری جانب کے کمرے دھنی رام، اس کی بیوی اور بہو کے تصرف میں رہتے۔
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرے قیام کے لیے غلے والا کمرہ صاف کر دیا گیا۔ موسلادھار بارش کے باعث اس روز باہر نکلنے کا تو کوئی امکان نہ تھا،اس لیے چار پائی پر لیٹا غور سے شانتی کی مصروفیات کا جائزہ لیتا رہا۔ وہ مشین کی طرح مسلسل کام میں لگی ہوئی تھی۔برتن مانجھ کر اب آٹا پیس رہی تھی مگر اس کے باوجود ماں اوربڑی بھاوج کی ڈانٹ ڈپٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔وہ اسے بات بے بات جھڑکتیں اور برا بھلا کہتیں۔منی رام میرے پاس بیٹھا الگ احکام صادر کرتا رہا:’’شانتی دیدی، چائے لاؤ،شانتی دیدی، یہا جھاڑودے دو۔۔۔دودھ گرم ہوا کہ نہیں؟ بھینسوں کو بھوسہ ڈال دیا۔‘‘وغیرہ۔
شانتی کی عمر اٹھارہ بیس سال ہو گی۔ منی رام کی زبانی معلوم ہوا، وہ آٹھ دس برس سے بیوہ ہے۔ وداع ہونے سے پہلے ہی بیوہ ہو گئی۔ ہندو دھرم میں بیوہ عورت شادی تو نہیں کر سکتی، اس لیے وہ بدنصیب دن رات سب کی خدمت کرتی اور اپنی جوانی کو خاک میں ملائے جھڑکیوں پر جھڑکیاں کھا رہی تھی۔ اس کی کربناک اور سوگوار زندگی دیکھ کر مجھ بہت دکھ ہوا۔ اس بدنصیب کی کوئی مدد نہ کر سکتا تھا مگر میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ اس کا راز افشانہ کروں گا۔میں چاہتا تھا وہ تنہائی میں مل جائے تو اسے اطمینان دلادوں۔وہ تفتیش کے دوران میں میرے چہرے پر تشویش کے آثار دیکھ کر سخت گھبرائی ہوئی سی تھی۔افسوس تفصیلی گفتگو کا موقع نہ ملا اور میری ہمدردی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔
منی رام کی چار پائی میرے ہی کمرے میں تھی۔رات کھانے کے بعد وہ کسی کام سے ماں کے کمرے میں چلا گیا اور اس کی غیر موجودگی میں شانتی گھونگھٹ نکالے میرے لیے دودھ لے آئی۔موقع غنیمت جانتے ہوئے میں نے کہا:
’’شانتی،مجھے تم سے پوری ہمدردی ہے۔تم بالکل فکر مت کرو۔ میں تمہارا مہابیر والا راز کسی کو نہ بتاؤں گا۔‘‘مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ اس رات جب تیندوے نے نوجوان کو ہلاک کیاشانتی اور مہابیر دونوں اکٹھے تھے۔یہی وجہ تھی کیرا سوال سن کر وہ چونک سی پڑی۔دودھ کا گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا۔اس نے اپنی بوجھل پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔پھر اپنے ہاتھ جوڑے اور کچھ کہنا چاہتی تھی کہ منی رام واپس آگیا۔ گرا ہوا دودھ دیکھ کر وہ اس پر برس پڑا:
’’ دودھ کیسے گر گؤ؟دیکھ کے کام نہیں کرے۔ ۔‘‘
شانتی نے کوئی جواب نہ دیا۔ایک نگاہ منی رام پر ڈالی اور پھر بے بسی سے میری جانب دیکھنے لگی۔
’’منی رام، بہن پر کیوں بگڑ رہا ہے،گلاس تو میرے ہاتھ سے گرا ہے۔‘‘
میری بات پر اس کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا، پھر بھی اس نے تیوری چڑھا کر کہا:
’’اب کھڑی کا کررہی ہے۔بوری لا کے زمین پونچھ اور دودھ کا دوسرا گلاس لا کے دے۔‘‘
’’نہیں،مجھے دودھ کی ضرورت نہیں۔‘‘میں نے قدرے تر شروئی سے کہا:’’منی رام، تم تو پڑھے لکھے ہو۔کوئی بڑی بہن سے اس طرح بات کرتا ہے۔‘‘
شانتی جا چکی تھی اور منی رام کہہ رہا تھا:
’’آپ نہیں جانتے، یہ ایسا ہی کرتی ہے۔‘‘
میں چپ رہا اور بدنصیب شانتی کی سوگوار زندگی کے تصور میں ڈوب گیا۔ وہ آئی، خاموشی سے زمین صاف کی۔ ہاتھ دھو کر گلاس میں دودھ لائی ۔مجھے دیتے ہوئے نظریں اٹھائیں تو میں نے آنکھوں میں ایک پراسرار عزم کی جھلک دیکھی۔ ان کی اداسی اور گہری ہو چکی تھی اور حسرت ویاس کے ساتھ ان میں نگاہ واپسیں کے نشتر بھی تھے جو کسی مرنے والے کی وداعی نگاہ میں ہوتے ہیں۔
’’شانتی بائی۔۔۔‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا مگر وہ جا چکی تھی۔
’’اری بہری ہے کا؟ سنے کا ہے نائیں۔‘‘منی رام بولا۔
’’نہیں،جانے دو، مجھے کچھ نہیں کہنا۔‘‘
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
دوسرے دن علی الصبح ابھی خاصا اندھیرا تھا، وہ گھڑے اور رسی لے کر پانی بھرنے گئی اور کچھ دیر بعد جب دوسری پنہارنیں بھی وہاں پہنچیں تو شور مچا کہ شانتی کنوئیں میں گر کر مر گئی۔رسی اور گھڑا بھی اس کنویں سے برآمد ہوئے۔بظاہریہ اتفاقی حادثہ تھا مگر میں جانتا تھا یہ اتفاق کیوں ہوا۔گھروالوں کے سوا سارا گاؤں شانتی سے محبت کرتا اور سب کو دکھ تھا لیکن مجھے رنج بھی تھا اور خوشی بھی۔ ظالم سماج کی یہ ستم ظریفی دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی کہ سب سے زیادہ غم کا اظہار شانتی کے گھر والے ہی کررہے تھے۔
دو دن بعد بارش رکی اور میں رائفل سنبھال کر تیندوے کی ٹوہ میں جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔منی رام نے میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ میری سفارش پر اس کے باپ نے اجازت دے دی۔ وہ بارہ بور کی دو نالی بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی مگر اسے بندوق چلانے کا شوق بہت تھا۔ میں نے اس کی ہمت بڑھائی اور وعدہ کیا اگر موقع ملا تو تیندوے پر پہلے اسی کی گولی چلواوؤں گا۔ہم کیچڑ میں لت
پت دیر تک جنگل میں مارے مارے پھرتے رہے۔تیندوے کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ تیز بارش نے اس کے پنجوں کے نشان مٹا دیے تھے۔(جاری ہے )
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں