اندھیرا بڑھنے لگا ہے مذاکرات کرو
حیرت ہے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے ہیں تو وزراء طنزیہ باتیں کررہے ہیں، ملک کے لئے حد درجہ اہم مذاکرات کے بارے میں یہ کہنا کہ کل تک بات نہ کرنے دھمکیاں دینے والے اب مذاکرات کے لئے منتیں کررہے ہیں، اس حوالے سے خواجہ آصف اور عطاء تارڑ پیش پیش ہیں۔ لگتا ہے انہیں اس کی خوشی نہیں کہ خدا خدا کرکے ڈیڈ لاک ختم ہوا ہے اور ملک جس منجدھار میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکلنے کی کوئی امید ہو چلی ہے۔ مجھے یہاں معروف شاعر سلیم کوثر کے دو اشعار یاد آ رہے ہیں۔
اندھرا بڑھنے لگا ہے مذاکرات کرو
دیا جلانے سے پہلے ہوا سے بات کرو
خزاں نصیب یہ منظر بدل بھی سکتا ہے
گلوں سے ہاتھ ملاؤ صبا سے بات کرو
سنجیدہ حلقے تو ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں، دونوں فریقین اپنی اپنی انا کو چھوڑ کر آگے بڑھیں اور ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ سلیم کوثر نے تو اندھیرا بڑھنے لگا ہے، کہا ہے جبکہ احوال واقعی یہ ہے اندھیرا بڑھ چکا ہے۔ ہم ضد اور انا میں جو مرضی دعویٰ کرتے رہیں حقیقت یہ ہے ملک چل نہیں رہا۔ بے شمار چیلنجز درپیش ہیں، فوجی عدالتوں سے 25سویلین کو سزائیں سنائی گئی ہیں تو بیرون ملک اس کا کوئی اچھا تاثر نہیں گیا۔ ایک جمہوری و آئینی ملک میں ایسا ہونا کوئی نیک شگون نہیں۔ ہم نے بڑے بڑے سانحات کو بھلا کر آگے بڑھنا سیکھا ہے تو اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ حالات کا تقاضا ہے، مذاکرات میں کھلے دل سے آگے بڑھا جائے۔ تحریک انصاف کی بھی ذمہ داری ہے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ عمران خان نے اگرچہ مذاکرات کے لئے دو شرائط پہلے سے دے رکھی ہیں تاہم بہتر یہ ہوگا۔ تمام معاملات کو ان مذاکرات میں زیر غور لایا جائے۔ دونوں فریقوں میں سے کوئی یہ کوشش نہ کرے کہ وہ دوسرے کو شکست دینے میں کامیاب رہے گا۔یہ مذاکرات اس سوچ کے ساتھ ہونا چاہئیں کہ ہم نے ملک کو ڈیڈلاک سے نکالنا ہے اور آئے دن کی کشیدگی سے نجات حاصل کرنی ہے۔ جن وزراء کا اوپر ذکر ہوا، وزیراعظم شہبازشریف کو چاہیے انہیں مذاکرات کے دوران زبان بندرکھنے کی ہدایت کریں تاکہ یہ عمل متاثر نہ ہو۔
گزشتہ دو برسوں میں ملک نے بہت تلخ یادیں اکٹھی کرلی ہیں۔ کہیں نو مئی کی اپنی اپنی داستانیں ہیں اور کہیں چادر اور چار دیواری کی پامالی کے قصے ہیں۔ چلتے چلتے بات 26نومبر تک آ گئی، جب اسلام آباد میں ریاست اور عوام آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ تلخیاں جب اتنی بڑھ جائیں تو امن و سلامتی کو درپیش چیلنجز کچھ مزید گہرے ہو جاتے ہیں۔ شروع دن سے کہاجا رہا ہے ایک سیاسی جماعت کو طاقت سے ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے اس سے جماعت تو خیر کیا ختم ہو گی ملک بے یقینی اور عدم استحکام کا شکار ضرور ہو جائے گا۔عمران خان اب سول نافرمانی کی بات کرنے لگے ہیں۔ وزراء اس کا بھی تمسخر اڑاتے ہیں حالانکہ یہ احتجاج کا سب سے آخری اور خطرناک آئینی آپشن ہوتا ہے۔دوسرا اس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں جو ایک منفی تاثر جنم لے سکتا ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کے لئے مناسب تو یہی ہوگا وہ ان مذاکرات کو وقت گزاری کا ذریعہ نہ سمجھے۔ ملک کے لئے جو مناسب ہو سکتا ہے وہ کیا جائے، یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہو گئے ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ملک میں جاری بحران مزید شدت اختیار کرے گا جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ معاشی لحاظ سے ملک میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی سرمایہ کار ملک کی موجودہ صورتِ حال سے بے خبر نہیں۔ وہ جانتے ہیں ایک سیاسی بے چینی موجود ہے۔ حکومت کی پائیداری کے حوالے سے بھی چہ میگوئیاں معمول کی بات ہے۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ڈیڑھ سال کے لئے وزیراعظم بنایاجا سکتا ہے۔ جب ملک سے آئے روز یہ خبریں جائیں گی کہ سیاسی سرگرمیوں پر ریاستی پابندیاں ہیں اور اس پر یہ خبر بھی آئے گی کہ ملک میں سویلین کو فوجی عدالتیں سزائیں سنا رہی ہیں تو سوالات اٹھیں گے۔ آج کی دنیا میں ملک کا سیاسی اور جمہوری چہرہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ چہرہ پچھلے کچھ عرصے سے ماند پڑ چکا ہے۔ اب یہ اچھا موقع ہے کہ شہبازشریف حکومت اس جمہوری و سیاسی چہرے کوسامنے لانے کے لئے اقدامات کرے۔ کہیں اسٹیبلشمنٹ کو قائل بھی کرنا پڑے تو قائل کرے، اتنے طویل عرصے سے ملک کو بے یقینی میں مبتلا کرکے ہم نے کیا حاصل کیا ہے، اس پر غور ہونا چاہیے۔بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر مسئلے کا حل طاقت نہیں بن سکتی، اس کے لئے سیاسی سوچ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ناراض ہیں ان کی بات سنی جائے اور ان کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ سیاسی ماحول پیدا کرکے حالات کی سختی کو نرمی میں بدلا جا سکتا ہے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے اور اس کے ذریعے ہم عدم استحکام سے استحکام کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم نے مذاکرات کے لئے جو حکومتی کمیٹی بنائی ہے، اس میں تمام اتحادی جماعتوں کو شامل کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے اس کمیٹی کے پاس ایک سیاسی قوت موجود ہے اور اگر ان جماعتوں نے کھلے دل سے مسائل پربات کرنے کی سوچ اپنائی تو بڑا بریک تھرو ہو سکتا ہے۔تحریک انصاف کا بنیادی مطالبہ سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی رہائی ہے تاہم اس سے بھی بڑھ کر اسے ایسے معاملات پر آگے بڑھنا چاہیے جو آئندہ کے لئے سیاسی حوالے سے سازگار ماحول بنانے میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہوں۔ ایک بڑا بریک تھرو تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان مذاکرات کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ سطحی رابطہ عمران خان سے بھی کیا جائے، اس سے یہ پیغام جائے گا کہ دونوں فریق معاملات کو سدھارنے میں سنجیدہ ہیں۔ حکومتی صفوں کا یہ شک بھی دور ہو جائے گا کہ عمران خان شاید مذاکراتی کمیٹی کے فیصلوں سے اتفاق نہیں کریں گے جب 1977ء میں بھٹو اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے درمیان مذاکرات جاری تھے تو کہایہی جا رہا تھا وہ کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں طرف کے نکات میں بہت زیادہ فاصلہ موجود تھا۔ مگر تاریخ گواہ ہے بالآخر حکومتی و اپوزیشن کمیٹیوں میں اتفاق رائے ہو گیا تھا اور معاہدے پر دستخط ہونے ہی والے تھے کہ ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرکے بھٹو کو اقتدار سے معزول کر دیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مذاکرات کو اتنا طول نہیں دینا چاہیے کہ صورتحال بڑھتے بڑھتے کسی حادثے سے دوچار ہوجائے۔ مذاکرات کبھی یکطرفہ ایجنڈے کی منظوری پر کامیاب نہیں ہوتے، ان میں لچک دکھانا پڑتی ہے۔ کچھ لو اور کچھ دو کا اصول کارفرما ہوتا ہے تو بات بنتی ہے۔ اس لئے ان مذاکرات میں دونوں فریق مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں اور جن نکات پر اتفاق رائے ممکن ہے انہیں منظور کرنے میں دیرنہ کریں۔