سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، چونتیسویں قسط
قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان عامر سہیل نے کہا کہ93-94ء میں نیوزی لینڈ کے دورے پر گیا جس میں ماجد خان ٹیم منیجر تھے کرائسٹ چرچ میں پاکستانی ٹیم ایک روزہ میچ ہار گئی تو ماجد خان میچ فکسنگ اور بعض کھلاڑیوں کی طرف سے پیسے وصول کرنے کے ٹیلیفون موصول ہوئے جس پر انہوں نے کھلاڑیوں کے ٹیلیفون کرنے اور سننے پر پابندی لگا دی۔ جب ماجد خان نے مجھے بتایا تو مجھے سخت صدمہ ہوا۔ میں شارجہ ٹورنامنٹ کھیلنے گیا تو منیجر انتخاب عالم نے تمام کھلاڑیوں کو بلاکر ان سے قرآن پر حلف لیا۔ کھلاڑیوں نے 2مرتبہ حلف اٹھایا، جب ہم سری لنکا ٹورنامنٹ سے آؤٹ ہوئے تو بعض کھلاڑیوں کی طرف سے میچ فکسنگ کی افواہیں پھیل گئیں۔ ٹیم انتظامیہ کا بھی یہ خیال تھا کہ بعض کھلاڑیوں میچ فکسنگ میں ملوث ہیں۔
جنوبی افریقہ کے دورے میں جاوید برکی میچ فکسنگ کی انکوائری کے لئے زمبابوے آئے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ شرطیں لگ رہی ہیں۔میرے پاس میچ فکسنگ کی اپنی اطلاع کوئی نہیں۔بعض نامعلوم بکی حضرات نے الزام لگایا کہ کچھ کھلاڑی میچ فکسنگ میں ملوث تھے۔
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، تینتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں1996ء میں نائب کپتان تھا۔ جب راشد لطیف اور باسط علی نے مجھے بتایا کہ کچھ کھلاڑی میچ فکس کرنے میں ملوث ہیں۔مجھے میچ فکسنگ کے لئے پیسوں کی پیشکش کی گئی تومیں نے انکار کر دیا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وسیم اکرم بنگلور کوارٹر فائنل کیلئے فٹ تھے یا نہیں۔اس پر ڈاکٹر عامر عزیز نے عدالت کو بتایا کہ نیوزی لینڈ کے میچ میں وسیم اکرم کی پسلی میں زخم ہو گیا تھا،میں نے وسیم کو مشوہ دیناچاہاتو اس نے مشورہ لینے سے انکار کردیا جس سے زخم مشکوک لگا۔
ڈی آئی جی لاہور نے اپنے بیان میں کہا میں نے وسیم اکرم کے والد کے اغواء کیس کی تفتیش کی ہے۔ اغوا کرنے والے2ملزموں نے میچ پر شرط لگائی تھی اور ہار گئے تھے۔ ملزموں کے مطابق میچ فکسنگ کا پورا مافیا ہے۔راجہ اور جو جو اچھرہ کے بکی ہیں۔
کرکٹ ٹیم کے سابق منیجر ڈاکٹر ظفر الطاف نے کہا کہ وسیم اکرم، سلیم ملک، اعجاز اور ثقلین مشتاق میچ فکسنگ میں ملوث نہیں ہیں۔میں نے سلیم ملک کو ٹیم میں شامل کرنے کے لئے کہا تو ان کے خلاف ایک بینک میں5ہزاراور4ہزار درہم کے چیک جمع کرانے کی کاپی دی گئی جو اتنی رقم نہیں ہے کہ اس سے یہ فرض کرلیا جائے کہ سلیم ملک جوئے میں ملوث ہیں جبکہ بورڈ کے حکام بھی اعجاز اور سلیم ملک کے خلاف میچ فکسنگ کا کوئی ثبوت نہیں دے سکے ہیں۔
کمیشن نے ڈاکٹر ڈین کیسل اور ٹیکسٹائل مل کے مالک نعیم گلزار کا بیان بھی ریکارڈ کیا جن کا ذکر عاقب جاوید نے کیا تھا۔ ڈین کیسل نے بتایا کہ میں نے وسیم اکرم کا معائنہ کیا تھا تو اس کی پسلیوں میں تین حصوں میں درد تھا۔ نعیم گلزارنے بھی میچ فکسنگ سے لا علمی کا اظہار کیا حالانکہ عاقب جاوید نے یہ کہہ کر اسے کمیشن کے سامنے پیش کیا تھا کہ اس کے پاس اس ضمن میں کچھ معلومات ہیں۔
کمیشن نے ڈی آئی جی لاہور کو ہدایت کی کہ وہ وسیم اکرم کے والد کو اغواء کرنے والے 2ملزموں کے کیس کی انکوائری رپورٹ پیش کریں اور منگل کو مبینہ طور پر میچ بک کرنے والے راجہ اور جوجو کو عدالت میں پیش کریں۔فاسٹ باؤلر عطاء الرحمن کی استدعا پران کا بیان کمیشن نے بند کمرے میں ریکارڈ کیا۔
14اکتوبر 1998ء کے روز عدالتی حکم پر پولیس نے راجہ ظفر اقبال اور اس کے بھائی راجہ محمد اقبال کو پیش کیا ۔یہ دونوں افراد وسیم اکرم کے ہمسائے تھے اور ان پر میچ فکسنگ اور جوئے کے الزامات تھے۔
راجہ محمد اقبال نے اپنے بیان میں کہا کہ تین چار سال پہلے میں شرطیں لگاتا تھا ،میں وسیم اکرم کا ہمسایہ ہوں مگران شرطوں میں وہ ملوث نہیں ہوتے تھے۔فاضل جج نے انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا سچ بولو ورنہ پولیس رپورٹ کی بنیاد پر اندر کردوں گا۔ ایک موقع پر فاضل جج نے کہا کہ میں ابھی تمہیں جیل بھجوا رہا ہوں تاہم راجہ اقبال نے بیان دینا شروع کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وسیم اکرم، اعجاز احمد اور سلیم ملک میرے ہمسائے ہیں۔ عدالت کے استفسارپر اس نے بتایا کہ بیڈن روڈ کے ریستوران اور گلبرگ کی وڈیو شاپ میں شرطیں لگتی ہیں۔ میرا ایک دوست بھی شرطیں لگاتاتھا جو انتقال کر چکا ہے۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔