کیا ہمیں مرنا یاد نہیں 

 کیا ہمیں مرنا یاد نہیں 
 کیا ہمیں مرنا یاد نہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 خود کش حملہ کر کے نام نہاد جنت کا ٹکٹ کٹانے والے بدبختوں کے مسخ شدہ چہرے اور جسم کے ٹکڑوں کو تحقیقاتی ادارے ڈی این اے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔اخبارات میں چھپنے والی اس خبر کو پڑھ کر مجھے پروفیسر ڈاکٹر نور احمد نور کی ذاتی مشاہدات پر مبنی کتاب موت اور قبر کے عبرت ناک مناظر یاد آ گئے کہ جنتی لوگوں کے چہرے کس طرح کے ہوتے ہیں اور گناہ گاروں کے حالات کیسے ہوتے ہیں؟
پروفیسر صاحب لکھتے ہیں۔ایک پچھتر سالہ آدمی کی قبر کشائی کی گئی،رشتہ داروں نے درخواست دی کہ جائیداد پر قبضہ کے لئے مخالفین نے مرحوم کو زہر دیا ہے۔قبر کو جب ہمارے سامنے کھولا گیا۔قبر میں کوئی بدبو، کیڑا یا مکھی نہ تھی بلکہ ہلکی پھلکی خوشبو تھی۔میت کو ایسے پایا جیسے ابھی دفن کیا گیا ہو۔سفید چادر میں لپٹی میت کے سر، چھاتی، پیٹ اور ٹانگوں کو کپڑے کے اوپر سے ٹٹولا گیا تو صحیح سلامت پایا گیا۔میت کو قبر سے نکال کر جب چیر پھاڑ کا عمل کیا گیا۔سب حیران ہو گئے۔معدہ میں تازہ غذا ابھی تک موجود تھی۔قبر پر ڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی پھول تازہ تھے اور خوشبو دے رہے تھے۔اس سارے عمل میں میت کا ہم عمر دوست ہمارے ساتھ تھا۔اس نے میت کے بارے دو چیزیں خاص بتائیں۔جب اذان ہوتی قبر والا دوسرے دکانداروں کو نماز کی دعوت دیتا رہتا تھا اور قبر والا بہت سخی تھا۔ شاید ان دو خصلتوں کی وجہ سے اللہ پاک نے اس کی قبر کی زندگی جنت والی بنا دی تھی اللہ معاف کرے ہمارا کیا بنے گا؟


پیارے دیس میں ہماری مصروفیات ہی اتنا زیادہ ہیں، ہمارے پاس نماز پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا، خیر سے پورے ملک میں شاید صرف دس فیصد لوگ جماعت کے ساتھ نماز پنجگانہ پڑھتے ہوں گے اور سخاوت کا حال کیا لکھا جائے۔ دوسروں کا مال لوٹنا ہم اپنا پیدائشی حق خیال کرتے ہیں اور پھر اسی لوٹے ہوئے مال سے نام نہاد خیرات کرنا تو کوئی ہم سے سیکھے اور ہماری وکھری تھیوری کے کیا کہنے۔پیارے دیس میں ہم چوری، ڈکیتی، قتل و  غارت کا بازار گرم کریں، ناحق مال کھائیں، اونچے اونچے عہدوں پر براجمان ہو کر نیچے والوں کے ساتھ ظلم و زیادتیاں کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہم مسلمان ہیں ہم جو مرضی کریں ہم نے جنت میں جانا ہی جانا ہے۔
 مجھے اس گھمبیر سوال کا جواب پچھلے خطبہ جمعہ پر ایک پڑھے لکھے مستند عالم دین جناب حافظ مصباح الرحمن نے دے دیا۔انہوں نے فرمایا ”نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، عبادات اور سخاوت ہمارے انفرادی فعل ہیں۔یہ اللہ کا اختیار ہے۔وہ قبول کرے یا نہ کرے۔ہمارا اصل معاملہ بندوں کا بندوں کے ساتھ ہے یعنی حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد پر حساب و کتاب ہو گا“۔کچھ اللہ والے تو یہ بھی کہتے ہیں۔ عبادت کے لئے تو اللہ کے پاس فرشتوں کی کمی نہ تھی۔یہ تو ہمیں آزمانا تھا۔ہم اس کی مخلوق کے ساتھ کیا برتاؤ رکھتے ہیں۔
محترم قاری صاحب کے بقول یہ بات پلے باندھ لیں۔ ”یوم حساب کسی شخص نے کسی کی شکایت کر دی تو جب تک متاثرہ شخص معاف نہیں کرے گا۔جان نہیں چھوٹے گی“ شکر الحمد للہ ہم اگر اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں۔


ہمارے کرتوتوں سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا۔ان کرتوتوں کی لمبی فہرست میں اول نمبر جھوٹ اور دوسرا فراڈ کا آتا ہے۔یہ دونوں منحوس ہماری تنزلی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔اپنے ہاں جھوٹ تبرک سمجھ کر بولا جاتا ہے اور دھوکہ ثواب سمجھ کر دیا جاتا ہے۔ابھی پانچ دن پہلے اپنے روم میٹ ڈاکٹر ہارون الرشید (جو اسلام آباد کے مشہور و معروف لیپرو سکوپک اور ماہر ہیئر ٹرانسپلانٹ سرجن ہیں)  سے ملنے گیا۔رات کے کھانے پر مجھے انہوں نے بتایا۔وہ الغفار مال جی 11 مرکز میں پرائم ہیئر ٹرانسپلانٹ اور سکن کے نام سے سینٹر بنا رہے تھے۔ایک ٹھیکیدار سے معاہدہ ہو گیا۔پیمنٹ دے دی گئی کام شروع ہو گیا۔ابھی آدھا کام ہی ہوا تھا۔ما شا ء  اللہ، ہر منٹ بعد ایمانداری کی قسمیں کھانے والا باریش ٹھیکیدار پیسے کھا کر رفو چکر ہو گیا ہے۔ڈاکٹر ہارون نے مجھ سے گلہ کیا۔تم نے مجھے اپنے پاکستانیوں کی خدمت کرنے کی غرض سے بیرون ملک جانے سے روکا۔اب بطور عام شہری میں کس کے دروازے پر دستک دوں؟


خاکسار ڈاکٹر ہارون کی کہانی سن کر لاہور پہنچا ہی تھا۔اگلی شام فراڈ کا نیا قصہ سن کر دم بخود رہ گیا۔لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں امراضِ چشم کی سربراہ کے موبائل نمبر پر کال آئی، بولنے والے شخص نے اپنا تعارف کرایا۔وہ پنجاب بینک سے بات کر رہا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ نے کہا۔آپ فیک نمبر سے بات کر رہے ہیں۔اس نے کہا۔نہیں جی، میں آپ کو یو اے این سرکاری نمبر سے کال کرتا ہوں۔کالر نے ڈاکٹر صاحبہ کو ان کا کریڈٹ کارڈ ایکٹو کرنے کے لئے معلومات لینا شروع کی کیونکہ کچھ دن پہلے ہی نیا کارڈ بینک سے گھر وصول کیا گیا چنانچہ اس کال کو بینک ہی کی کال خیال کرتے کارڈ کو ایکٹیویٹ کرنے کے لئے مذکورہ شخص کو ڈاکٹر صاحبہ نے جونہی کارڈ کا پن کوڈ دیا۔ڈاکٹر صاحبہ کے نمبر پر ایک کے بعد ایک مسیج آنے کی دوڑ لگ گئی۔چند سکینڈ میں لاکھوں روپے نکال لئے گئے۔ڈاکٹر صاحبہ کو سمجھ لگ گئی ان کے ساتھ فراڈ ہو گیا ہے۔انہوں نے جھٹ سے پنجاب بینک ہیلپ لائن پر فون کر کے بینک اکاؤنٹ بند کرنے کی درخواست کی تاکہ مزید پیسے نکلنے سے بچ جائیں۔ہیلپ لائن والے سے بات ہو گئی مگر پیسے نکلنا بند نہ ہوئے تو دوبارہ پنجاب بینک کی ہیلپ لائن پر فون کیا۔جناب میرے اکاؤنٹ سے تو مسلسل پیسے نکلے جا رہے ہیں۔اس ہیلپ لائن والے شخص نے کہا۔میڈم آپ کی درخواست پراسس کر دی گئی ہے، تھوڑا وقت لگے گا۔معلوم یہ ہوتا ہے۔کسی راست ایپ سے پیسے ٹرانسفر کئے جا رہے ہیں اور آپ کا موبائل نمبر بھی کلون کر لیا گیا ہے۔آپ اپنی موبائل سم بند کروا دیں۔ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے ابا جی کے موبائل نمبر سے کال کر کے معلومات فراہم کی اور اگلے  دو منٹ میں سم بند ہو گئی مگر چند ہی لمحوں میں ان کی ساری زندگی کی جمع پونجی نکال لی گئی۔ڈاکٹر صاحبہ کو افسوس اس ظلم عظیم پر تھا کہ ان کے پنجاب بینک  ہیلپ لائن پر فون کرنے کے بعد بھی اکاؤنٹ سے مسلسل پیسے نکلتے رہے اور بھلا وہ اور کیا کر سکتی تھی۔اس سانحہ کے بعدڈاکٹر صاحبہ نے پنجاب بینک ھیڈ آفس، ایف آئی اے اور بینکنگ محتسب میں درخواست جمع کرائیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے بتایا۔ایف آئی اے آفس میں اس طرح کے کیسز کے سائلین کثیر تعداد میں نظر آئے۔


یہ ماجرا سن کر میں دم بخود رہ گیا۔اس اندوہناک واقعہ کو لکھنے کا مقصد دراصل یہ بھی بتانا تھا۔ہمارے انتہائی پڑھے لکھے طبقے کو بھی فراڈئیے کس طرح پلک جھپکنے میں ہپناٹائیز کرکے سب کچھ لوٹ لیتے ہیں،آئے روز کسی نے کسی کو ایسی کال آتی ہی ہے گو کہ بینک اور نادرا والے بار بار تنبیہ کرتے ہیں کہ اپنی خفیہ معلومات کسی سے شیئر نہ کریں لیکن فراڈ کرنے والے اتنی چالاکی سے واردات ڈالتے ہیں،اس کا پتہ فراڈ ہونے کے بعد چلتا ہے۔یہاں سوال یہ ہے کیا ہمیں مرنا یاد نہیں؟ہم حرام کی کمائی سے اپنی اولادوں کا مستقبل سنوار کر کسی اور سیارے پر منتقل ہوں گے کیا؟ہم اس باطل نظریہ سے کس طرح جان چھڑائیں گے، مرنے کے بعد ہر شے مٹی میں مل جانی ہے۔ کیا قبر میں جانے والے کسی ایک شخص نے بھی  واپس آ کر بتایا، اس کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ جزا و سزا، حساب کتاب، حقوق العباد کی فرضی کہانیاں کسی اور کو جا کر سنائیے ہم اس سے باز آئے۔کاش کوئی آب حیات پی کر زندہ رہنے والوں کو بتائے قبریں بولتی ہیں۔
قبر کے اندر مدفون جسم بتاتا ہے۔ ہر شے مٹی نہیں ہوتی۔ اللہ کی مخلوق کے لئے زندگی گزارنے والوں کو رب سوھنا بڑے پروٹوکول سے نوازتا ہے۔ مرنے والے کا جسم تو دور کی بات کفن کو بھی کوئی چیز نہیں چھوتی اور چند ٹکوں کی خاطر اس کی مخلوق کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو وہ نہیں بھولتا اور اس کی پکڑ بہت سخت ہے اللہ ہمیں ہدایت عطا فرمائے آمین

مزید :

رائے -کالم -