من غش فلیس منا۔۔۔ حدیث شریف 

  من غش فلیس منا۔۔۔ حدیث شریف 
  من غش فلیس منا۔۔۔ حدیث شریف 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کالم لکھنا کچھ اور تھا،لیکن دو دن پہلے ایک خبر نظر سے گزری تو ذہنی کیفیت بدل گئی۔پیارے نبی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث یاد آئی جو بچپن میں اکثر دودھ کی دکانوں کے باہر ضرور پڑھی تھی آج بھی کہیں کہیں نظر آجاتی ہے۔ وہی جو آج کے کالم کا عنوان ہے۔ من غش فلیس منا۔۔۔ جس کے معنی ہیں ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“۔ یعنی کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ ناپسندیدہ ترین قرار دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ایسا شخص ہم میں سے نہیں۔ ”یعنی کہ مسلمان ہی نہیں“۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آج حالات ایسی جگہ پہ آگئے ہیں جہاں ہم دنیا کی سب سے بدترین قوم بن چکے ہیں۔ کھانے پینے کی ہر شے میں دھڑلے سے ملاوٹ کی جاتی ہے اور اس پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کون لوگ ہیں،جنہیں خدا کا خوف بھی نہیں رہا۔ چلو ہماری حکومتیں تو خود بھی کبھی ایماندار نہیں رہیں، لہٰذا ان سے بہتری کی کیا اُمید رکھنا کہ وہ کسی چور کو پکڑیں گی۔ ٹھگ کا بھائی ٹھگ، چور کا بھائی چور، ڈاکو کا بھائی ڈاکو، لیکن ”خدا کا خوف“ کہاں ہے۔ یہ محض تین حروف نہیں ہیں یہ ایک سچائی ہے۔ ان  تین حروف کا ہر مسلمان کو علم ہے بچپن سے پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد حساب ہو گا اور بہت سخت ہو گا۔ قبر سے حساب شروع ہو جائے گا اور روزِ محشر جب حضورؐ اپنی قوم کی شفاعت فرمائیں گے تو مجھے سمجھ نہیں آتی ملاوٹ کرنے والوں کی شفاعت کیسے ہو گی۔

رسول پاکؐ نے واضح الفاظ کہہ دیے تھے کہ وہ ہم میں سے نہیں۔  اب یہ لوگ اس کے باوجود کسی خوف میں مبتلا نہ ہوں اور اللہ کو دھوکہ دینے کا سلسلہ جاری رکھیں تو یاد رکھیں کہ دنیا کے کسی کونے، کسی چھت کے نیچے، کسی دیوار کے پیچھے کوئی سمجھتا ہے کہ وہ روزِ محشر کے حساب کتاب سے محفوظ رہ سکتا ہے تو اس سے بڑا بیوقوف کون ہو سکتا ہے۔

ملاوٹ پر لکھنے کا یہ خیال دو روز پہلے ایک خبر سے آیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی اِس خبر کے مطابق 445 کلو مردہ جانوروں کا گوشت مارکیٹ لے جاتے ہوئے پکڑا گیا۔ ویٹرنری سپیشلسٹ کا گوشت کے بارے کہنا تھا کہ یہ انتہائی مضر صحت ہے۔یہ مردہ جانوروں کا گوشت ہے۔ لہٰذا اس کو ضائع کر دیا گیا۔ یہ گوشت ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد اور اردگرد کے علاقوں میں فروخت کیا جانا تھا، جس کے نتیجے میں انتہائی خوفناک بیماریاں پھیلنا تھیں۔ یہ پڑھنے کے بعد اس حوالے سے مزید تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ ہم تو صرف ”موت کھا“ رہے ہیں۔ چار دن پہلے لودھراں (ملتان) کے قریب ایک ٹول پلازہ پر گاڑی کو چیک کیا گیا تو 80 کلو ایسا مضر صحت گوشت برآمد ہوا، جس کی رنگت تک بدل گئی تھی اور جس میں سے بدبو بھی آ رہی تھی، اس سے پہلے لاہور میں بکر منڈی کے چار گوداموں سے مردہ جانوروں کا گوشت برآمد ہوا ان مردہ جانوروں کی گردنوں پر کٹ لگا کر یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ انہیں ذبح کیا گیا ہے۔ گوشت سپلائی کرنے کے لئے تیاری کی جا رہی تھی، جبکہ ایک رکشے پہ گوشت لادا بھی جا چکا تھا وہ بھی قبضے میں لیا گیا۔ ملتان میں وہاڑی روڈ پر  چھاپہ مارا گیا تو چھ مرے ہوئے بکرے اور ایک بچھڑا گوشت کی کٹائی کے لئے تیار ہو رہے تھے اور یہ کام سرکاری سلاٹر ہاؤس میں کیا جا رہا تھا۔

ملاوٹ صرف پنجاب ہی کا مسئلہ نہیں سندھ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ کراچی میں بھینس کالونی اور جانوروں کے باڑوں میں تقریبا 20 لاکھ جانور موجود ہیں۔ ایک خبر کے مطابق ان میں سے جو گائیں روزانہ ہلاک ہو جاتی ہیں ان کو ذبح کر کے ان کا گوشت چھوٹے ہوٹلوں ڈھابوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ لاہور میں نیو راوی روڈ پر مجاہد سکواڈ نے ایک ویگن کی تلاشی لی تو اندر سے مردہ جانوروں کا 10 من گوشت برآمد ہوا، جس میں سات من بیف اور تین من مٹن کا گوشت تھا۔ یہ گوشت فاروق آباد سے لاہور کے ہوٹلوں اور شادی ہالوں کو سپلائی کیا جانا تھا۔ کراچی کے علاقہ منگھو پیر میں پولیس کو ملنے والی اطلاع پر چھاپا مارا گیا تو دو افراد مردہ جانور کا گوشت کاٹ کر سپلائی کے لئے تیار کرتے پائے گے۔ انہوں نے بتایا کراچی کے باڑہ مالکان سے یہ مردہ گائے خریدی تھی۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی نے وہاڑی میں لڈن روڈ پر کارروائی کی تو وہاں پر بیچی جا رہی مچھلی انتہائی بدبودار تھی اور جو سنیکس وہاں تیار کر کے رکھے ہوئے تھے ان کی مدت گزر چکی تھی۔ لاہور میں کیمپ جیل کے سامنے ٹولنٹن مارکیٹ کے اندر جب چھاپا پڑا تو 150 کلو مردہ مرغیوں کا گوشت قبضے میں لے کر ضائع کیا گیا۔ جنوبی پنجاب کے شہر لیہ میں مردہ مرغیوں کا 130 کلو گوشت قبضہ میں لیا گیا۔

یہ مت سمجھے کہ آپ کو ڈرا رہا ہوں اور آپ گوشت کھانا چھوڑ دیں آخر کیا کیا چھوڑیں گے۔لاہور میں دودھ کا معیار چیک کرنے کے دوران دو ہزار لیٹر اور فیصل آباد میں 800 لیٹر دودھ ایک دن میں ایک ناکے پر ضائع کیا گیا۔ قلعہ دیدار سنگھ (گوجرانوالہ) میں ایک شادی ہال پر چھاپا مارا گیا تو وہاں سے معروف برانڈ کی 2300 لیٹر جعلی مضر صحت بوتلیں برآمد ہوئیں۔ دودھ میں ملاوٹ کی انتہا ہوچکی ہے۔ یہ روز کا معاملہ ہے۔ تھوڑا سا پیچھے ماضی میں چلے جائیں تو لاہور میں داخلے کے ہر پوائنٹ پر بلدیہ عظمیٰ لاہور کے شعبہ فوڈ کا عملہ فوڈ انسپکٹرز ناکے لگاتے تھے اور بلا ناغہ سینکڑوں ہزاروں لٹر مضر صحت کیمیکل ملا دودھ کھیتوں، نالیوں، گندے نالوں میں بہایا جاتا تھا۔ شیخوپورہ روڈ، فیروز پور روڈ، ملتان روڈ پر لاہور میں باہر سے آنے والے دودھ کے اکثر ٹینکروں میں ملاوٹ شدہ دودھ پایا جاتا تھا۔ اب یہ کاروائیاں شاید ہوتی نہیں یا پھر ہمیں نظر نہیں آتیں۔ ظلم یہ ہے کہ دودھ میں صرف بناسپتی آئل اور یوریا (کھاد) استعمال نہیں ہوتا بلکہ فارملین جو کہ لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے وہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس خرابی کے خاتمے کے سلسلے میں کوئی غیر معمولی کارروائی کبھی ہوتی نظر نہیں آئی۔لاہور میں دودھ کی حالت یہ ہے کہ اگر صحیح معنوں میں کاروائی کی جائے تو جو ہوشربا حقائق سامنے آئیں گے، آج لاہور میں سستے دودھ کے نام پر دو گڑوی کے ساتھ ایک گڑوی مفت کے بینر لگا کر دودھ فروخت ہو رہا ہے، جس کے بارے میں ویٹرنری ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی مضر صحت کیمیکل ملا ہے اور یہ قابل ِ استعمال نہیں ہے، لیکن مجال ہے صوبائی حکومت نے اس کا نوٹس لیا ہو۔ وہ دودھ جو ہمارے بچے گھروں میں پی کر جوان ہو رہے ہیں اور کینسر جیسی موذی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں دھڑلے سے بک رہا ہے۔ لاہور میں ہی کیا پورے ملک میں بیکریوں میں گندے انڈے کیک اور بسکٹ بنانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ سرخ مرچ میں برادہ اور اینٹ کو پیس کر ڈالا جاتا ہے۔کالی مرچ میں دھڑلے سے ملاوٹ ہوتی ہے۔ چائے کی پتی  میں چنے کا چھلکا اور رنگ استعمال ہوتا ہے۔ مردہ جانوروں کی ہڈیوں کو کڑاہے میں پگھلا کر چربی نکالی جاتی ہے، جس سے مضر صحت گھی اور تیل تیار کرتے ہیں۔ جس میں غریبوں کے بچوں کو سستے پکوڑے، سموسے تل کر بیچے جاتے ہیں۔ مرغی کی چربی سے بھی ”گھی“ بنایا جا رہا ہے۔، ہم بھول گئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا تھا ”من غش فلیس منا“ مگر اس سے کڑوی بات یہ ہے حکمران بھی یہ بھول گئے۔ یقینا ان کا احتساب  ”سخت“ ہوگا۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -