عُمان:پڑوس میں سرزمین جنت و جہنم

  عُمان:پڑوس میں سرزمین جنت و جہنم
  عُمان:پڑوس میں سرزمین جنت و جہنم

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 عمان کئی حوالوں سے پاکستان کے بہت سے حلقوں کے لیے قابلِ رشک ہے،بعض کو اس کے قوانین پسند ہیں۔ کسی کو اس کی تاریخ  کے ساتھ ساتھ تاریخی و مذہبی مقامات سے دلچسپی ہے۔ کوئی جغرافیے پر دادِ تحسین دیتا ہے، اس کے سیاحتی مقامات تو ہر کسی کے لئے دلآویزرہے  ہیں۔ عمان پاکستانیوں کے لیے اس لئے بھی دلکشی و دلچسپی کا سامان رکھتا ہے کہ پاکستان کے پڑوس میں ہے اور یہ پاکستان کا منفرد اور امتیازی پڑوسی ہے۔ ایک بھی پاکستانی ایسا نہیں جس کو کسی نہ کسی حوالے سے عمان سے دلچسپی نہ ہو، کبھی گوادر سلطنت عمان کا حصہ ہوا کرتا تھا جو ایک معاہدے کے بعد عمان نے پاکستان کے حوالے کر  دیا تھا اگر پچاس کی دہائی میں معاہدہ نہ ہوا ہوتا تو آج پاکستان کے اندر عمان ہوتا۔ عُمان کے ساتھ پاکستان کی سمندری سرحد لگتی ہے۔ عمان امیر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سر زمینِ تاریخ (land of history) ہے۔ ساحری جادوگر اسی سرزمین پرجادو گری اور جادوکی تعلیم دیتے مرا اس کی نشانیاں موجود ہیں۔ صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا واقعہ یہیں ہوا۔ آثارقوم عاد و قوم ثمود کی باقیات حضرِ موت اور بھی بہت کچھ عمان کی دھرتی کی لوح  پر موجود اور محفوظ ہے۔ان میں ملکہ صبا کا محل اور شداد کے آثار بھی ہیں۔
آئیے: عمان چلتے ہیں۔ عمان شداد کی جنت کی سرزمیں قوم ِثمود اور عاد کے لئے بنائی گئی قدرت کے عذاب سے جہنم زار بھی ہے۔عمان کادنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ عمان ملک کا نام اور ایک شہر کا بھی نام ہے اردن کے دارالحکومت کا نام بھی عمان ہے۔ پاکستان کے قریب واقع ملک عمان کا مسقط دارالحکومت ہے۔ مسقط کی طرح صلالہ بھی عمان کا بڑا شہر ہے۔اس ملک میں لمبی لمبی قبریں موجود ہیں۔ کرنسی ریال ہے جو کافی مضبوط ہے۔ اڑھائی ریال ایک ڈالرکے برابر ہے۔ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ پاکستان کی کرنسی بھی مضبوط ہو۔ عمان سیاحتی ریاست ہے۔ کل آبادی 40لاکھ اس میں اکثریت غیر مقامی لوگوں کی ہے۔ آبادی کے تناسب سے علاقہ بہت زیادہ ہے۔ عمودی عمارتوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ زیادہ سے زیادہ تین منزلہ عمارت بنائی جا سکتی ہے۔ عمان کی زمینی سرحدیں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور یمن سے ملتی ہیں۔ سمندری سرحد پاکستان تک آتی ہے۔ 1958ء تک گوادر عمان کا حصہ تھا۔جو ایک معاہدے اور تین ملین ڈالر کی ادائیگی سے پاکستان کا حصہ بن گیا۔ عمان کا صرف5فیصد حصہ قابلِ کاشت ہے۔ پینے کا پانی دستیاب نہیں بارش اور سمندرکے پانی کو پینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ بنیادی زبان عربی اور انگریزی ہے۔ بلوچی اور اردو  بھی بولی جاتی ہے۔ شہریت کے دروازے سوائے گوادر کے بلوچوں کے سب کے لئے بند ہیں۔

عمان میں بادشاہت ہے جو کئی سو سال پر محیط ہے۔ آج کل ہیث بن طارق  بادشاہ ہیں جو اپنے پیشرو سلطان قابوس بن سعید آل سعید کے دور میں طویل عرصہ وزیر خارجہ رہے۔ سلطان قابوس 1970ء میں اپنے والد سعید بن تیمور کو معزول کر کے بادشاہ بنے تھے۔سعید بن تیمور کی موت جلاوطنی میں لندن میں ہوئی۔ سلطان قابوس نے بھارتی خاتون سے شادی کی۔ان کی اولاد نہیں تھی۔ملکہ کیخلاف بولنے پر قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی تھی۔سلطان قابوس پچاس سالہ بادشاہت کے بعد 2020ء میں اُناسی سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
عمان میں بادشاہ کو لا محدود اختیارات حاصل ہیں۔ ایسے اختیارات کا جمہوری ممالک کے حکمران تصور اور حسرت ہی کر سکتے ہیں۔ بادشاہ آئین میں ترمیم کر سکتا ہے۔ اپنی  معاونت کے لئے ڈپٹی وزیراعظم کا تقرر بادشاہ کرتا ہے اور اس کی بر طرفی کا بھی بادشاہ کو اختیار حاصل ہے۔ بادشاہ خود وزیراعظم، وزیر خزانہ، وزیر دفاع اور آرمی چیف بھی ہوتا ہے۔ 
حضرت موسیٰ نے کوہ طور پر گئے توسامری جادوگر نے لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کردیا۔واپسی پر حضرت موسیٰ نے اسے بھگا دیاتو وہ عمان کے شہر صلالہ  چلا آیا۔ جہاں اس نے  ایک قلعہ بنایا جادو سکھانے کی یونیورسٹی قائم کی،اس کے قلعے کے آثار موجود ہیں۔ سامری یہیں پہ موت سے ہمکناراور دفن ہوا۔صلالہ میں آج بھی دنیا بھر سے جادوگر آتے ہیں۔ صلالہ میں عورتیں خاص قسم کا نقاب اوڑھتی اور لمبا برقعہ پہنتی ہیں جو پاؤں سے بھی نیچے  ہوتا او زمین پر گھسٹتا رہتا ہے۔ سامری خواتین کے نقشِ پا دیکھ کر جادو کر دیتا تھا۔ ایسے برقعے سے پاؤں کے نشانات معدوم ہوتے جاتے ہیں۔
عمان کشتی سازی  میں ایک مقام رکھتا ہے۔کشتیاں یورپ کو فراہم کی جاتی ہیں۔ عمان بہترین گھوڑوں کی افزائش میں شہرت رکھتا ہے۔ہر قسم کے گھوڑے دنیا میں برآمد کئے جاتے ہیں۔ملک میں جنگلات کا وجود نہیں ہے۔ریلوے کی عمان کے حکمرانوں نے کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔عمان ایئر لائن کی اپنی ایک پہچان ہے جو اپنے قومی دن پر کرایوں میں کمی کردیتی ہے۔ تیل عمان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔


شداد کی جنت بھی پاکستان سے چند سو میل کے فاصلے پر ہے۔ جو بدستور زمین میں دھنستی جا رہی ہے۔ شداد نے اس جنت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی تھیں۔ قوم عاد یہیں پہ جنت سمیت غرق ہو گئی۔ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں بھی اس سر زمین پر قوم ثمود کی جانب سے کاٹی گئیں اوروہ قوم عذاب کی مستوجب ٹھہری۔ شداد کی جنت جہاں غرق ہوئی وہاں آج بھی کچھ پھینکا جائے تو ریت کی دلدل میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی بہت بڑا ثبوت ہے کہ شداد کی جنت نیچے سے نیچے جا رہی ہے۔ ملکہ بلقیس کے محلات کے آثار بھی اسی سر زمین پر پائے جاتے ہیں۔ ناسا کو 1992ء  میں عمان کے صحرا میں ریت سے 13 میٹر نیچے ایک شہر دکھائی دیا۔ یہ ایک حیران کن دریافت تھی۔ اس پر کام شروع ہوا اور شہر کا سرا مل گیا لیکن شہر کھودا نہ جا سکا۔ وجہ گندھک تھی، وہ شہر پورے کا پورا گندھک کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔
آرکیالوجسٹس نے پائپ لگا کر پانی نکالنے کی کوشش کی لیکن یہ آسان کام نہیں تھا چنانچہ یہ لوگ تین دہائیاں گزرنے کے  بعد بھی ریت میں گم شہر کی صرف ایک چٹان کھود سکے۔اس چٹان کو شداد کی جنت کا سراکہا جاتا ہے۔یہ علاقہ ماضی میں یمن کا حصہ تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام حضر موت تھا۔ علماء  اور آرکیالوجسٹس صدیوں سے اس کی تلاش میں تھے۔ بالآخر شداد کی جنت دریافت کرلی مگراس میں داخل ہونے کا امکان ابھی تک تو ممکن نظر نہیں آتا۔ماہرین ابھی اس کے پہلے سرے تک ہی پہنچ سکے ہیں۔آگے کتنا جاسکیں گے؟اور کب جاسکیں گے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

حضرت ہود ؑ، حضرت صالح، حضرت ایوب کی قبریں عمان کی سرزمین پر جلوہ افروز ہیں۔ عمان میں ایک سے بڑھ کر ایک سیاحتی مقام ہے۔ ان میں سے مجلس الجن دنیا کی دوسری بڑی غار اور بیماہ سِنک ہول شہرت کی بلندی پرہیں۔

مزید :

رائے -کالم -