دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے...قسط نمبر38
ہم اےک دفعہ پھر رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم کی بارگاہ مےں موجود تھے۔ وہی نور، وہی جمال، وہی جلال۔ مجھے ےہ محسوس ہوتا تھا کہ مےں صدےوں سے حضور کو جانتا ہوں۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ جےسے آپ کی محبت مےرے دل مےں بڑھتی جارہی ہے۔ مےں اس وقت بھی حضور کی مجلس مےں پچھلی نشست پر بےٹھا ٹکٹکی باندھے حضور کے چہرہ¿ پرنور کو دےکھے جارہا تھا۔ حضور اس وقت تک اپنے قرےب بےٹھے اصحاب سے کچھ گفتگو کررہے تھے، اسی اثنا میں ان کے قرےب آکر اےک صاحب نے ان کے کان مےں کچھ کہا۔
صالح نے جو مےرے ساتھ بےٹھا ہوا تھا سرگوشی کے انداز مےں مجھ سے کہا:
”ےہ خادم رسول حضرت انس ہےں اور حضور کو تمھارے بارے مےں بتارہے ہےں۔“
اس کے ساتھ ہی حضور نے نظر اٹھاکر مجھے دےکھا اور اےک دلنواز مسکراہٹ کے ساتھ مےرا استقبال کےا۔ اس سے صالح کی بات کی تصدےق ہوگئی کہ حضرت انس نے مےری ہی آمد سے حضور کو مطلع کیا تھا۔
تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ، جوزندگی بدل سکتاہے ۔۔۔قسط نمبر37 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
پھر مسکراتے ہوئے حاضرےن سے فرمایا:
اللہ کے پےغمبر اور انسانےت کے جد امجد نوح کی امت نے ان کی شہادت کو ےہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے کہ نوح نے ان تک براہ راست کوئی پےغام نہےں پہنچاےا۔ حقےقت ےہ ہے کہ ےہ پےغام مےری امت نے قوم نوح تک پہنچاےا تھا۔ آپ حضرات چونکہ تمام انبےا کے ماننے والے ہےں اور مےری وساطت سے جو دےن آپ کو ملا وہی نوح کو بھی ملا تھا۔ اس لیے آپ کی ےہ ذمے داری ہے کہ حضرت نوح کی طرف سے آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ مےں پےش ہوں اور ےہ گواہی دےں کہ اےمان و عمل صالح کی جو دعوت نوح نے دی تھی اور جو مےں نے آپ لوگوں تک پہنچائی تھی، وہ آپ نے بلا کم و کاست قوم نوح تک پےش کرکے مےرے اور نوح کے مشن کی تکمےل کردی تھی۔
ےہ کہتے ہوئے حضور نے اپنے برابر بےٹھے ہوئے حضرت ابوبکر سے کہا:
ابو بکر کھڑے ہوجاو¿۔
یہ سنتے ہی ابوبکر کھڑے ہوگئے۔ پھر آپ نے حاضرےن سے مخاطب ہوکر کہا:
تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ، جوزندگی بدل سکتاہے ۔۔۔قسط نمبر39 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
ےہ مےرے رفےق ابوبکر ہےں۔ ان کے علاوہ مےرے زمانے سے لے کر قےامت تک کے تمام زمانوں کے مےرے نمائندہ امتی ےہاں موجود ہےں۔ آپ لوگ ابوبکر کی قےادت مےں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ مےں پےش ہوں اور اس حق کی گواہی دےں جو آپ کے پاس ہے۔
ےہ کہتے ہوئے حضور کھڑے ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی سارے حاضرےن بھی کھڑے ہوگئے۔ ابوبکر نے رسول اللہ کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور آگے بڑھ گئے۔ ان کے بعد تمام حاضرےن نے اےک اےک کرکے نبی کرےم کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔ مےرا نمبر سب سے آخر مےں تھا۔ میں نے بھی یہ شرف حاصل کیا اور اس کے بعد ہم سب سےدنا ابوبکر کی قےادت مےں مےدان حشر کی طرف روانہ ہوگئے۔
....................
مےں ان بزرگ ہستیوں کے درمےان سب سے پےچھے چل رہا تھا۔ صالح مےرے ساتھ نہےں تھا۔ حضور کی مجلس سے اٹھتے وقت وہ مجھ سے ےہ کہہ کر الگ ہوگیا تھا کہ ےہ کار ِشہادت ادا کرنے تمھےں تنہا جانا ہوگا۔ البتہ وہاں سے واپسی پر مےں تمھےں مل جاو¿ں گا۔
میںراستے مےں دل ہی دل مےں ےہ سوچ رہا تھا کہ مےں اس قابل نہےں کہ اےسی بابرکت اور بزرگ ہستےوں کے بےچ امت محمدےہ کی نمائندگی کروں۔ مجھ پر ےہ احساس اتنا غالب ہونے لگا کہ مےں نے سوچا کہ مےں خاموشی سے اس مجمع سے نکل جاتا ہوں۔ کسی کو کیا پتہ چلے گا۔ اللہ تعالیٰ مےرے زمانے کے کسی اور شخص کو بلوالےں گے۔ اس خےال سے مےں آہستہ آہستہ پےچھے ہونے لگا۔ ےہاں تک کہ مےرے اور ان لوگوں کے بےچ مےں کافی فاصلہ ہوگےا۔ مےں نے موقع غنےمت جانا اور واپس حوض کوثر کی سمت جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ پےچھے سے ےکاےک آواز آئی:
”عبد اللہ !ےہ کےا کررہے ہو؟“
مےں گھبرا کر پلٹا تو پےچھے سےدنا ابوبکر کھڑے تھے۔ مےں کچھ شرمندہ سا ہوگےا۔ مےری حالت اےسی ہوگئی جےسے میں چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہوں۔ مےں نے پہلے سوچا کہ کوئی بہانہ بنادوں، مگر خےال آےا کہ یہ دنےا نہےں محشر ہے اللہ تعالیٰ اسی وقت اصل بات کھول دےں گے۔ لہٰذا مےں نے صحےح بات بتانے ہی مےں عافےت سمجھی۔ ساتھ مےں ان سے ےہ درخواست بھی کی کہ مےری جگہ کسی اور کو لے جاےا جائے۔
ابوبکر مےری بات سن کر ہنسنے لگے اور بولے:
”شہادت کے لیے لوگوں کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے کےا ہے۔ اسی نے اےک فرشتے کے ذرےعے مجھے ےہ بتادےا تھا کہ عبد اللہ کس وجہ سے واپس جارہا ہے۔“
انھوں نے آہستگی سے مےرا ہاتھ تھام لےا اور آگے کی طرف چلنے لگے۔ راستے مےں وہ مجھے سمجھانے لگے:
”دےکھو عبد اللہ! اس مجمع مےں ہر شخص کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ جانتے ہو کہ اس کے نزدےک انتخاب کا معےار کیا ہے؟“
مےں خاموشی سے ان کی شکل دےکھنے لگا۔ انھوں نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا:
”تعصبات، جذبات اور خواہشات سے بلند ہوکر جس شخص نے حق کو اپنا مسئلہ بنالےا، اور توحےد و آخرت کو اپنی زندگی کا مشن بنالےا وہی اللہ کے نزدےک اس شہادت کے کام کے سب سے زےادہ حقدار ہےں۔ دےکھو تمھارے زمانے کے مذہبی لوگ خواہشات سے تو شاےد بلند ہوگئے تھے، مگر ان کی اکثرےت تعصبات اور جذبات سے بلند نہےں ہوسکی۔ لوگ مختلف فرقوں اور مسالک کے اسےر تھے۔ وہ صرف اسی بات کو قبول کرتے تھے جو ان کے حلقے کے لوگ کرےں۔ وہ لوگوں کو اپنے ہی فرقے کی طرف بلاتے تھے۔ وہ اپنے اکابرےن کی بڑائی کے احساس میں جےا کرتے تھے۔ جبکہ تم صرف خدا کی بڑائی کے احساس میں زندہ رہے۔ تم نے سچائی کو ہر قےمت دے کر قبول کےا اور ہر تعصب سے پاک ہوکر اختےار کیا۔ خدا کی توحےد تمھاری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ تھی اور خدا سے ملاقات پر لوگوں کو تےار کرنا تمھاری زندگی کا سب سے بڑا مقصد۔ پھر تم نے دعوت کا کام صرف اپنی قوم ہی میں نہیں کیا بلکہ غےر مسلم اقوام تک قرآن کا پےغامِ توحید و آخرت پہنچانے کے لےے اےک طوےل دعوتی جدوجہد کی۔ ےہی ساری باتیں آج تمھارے انتخاب کا سبب بن گئی ہےں۔“
جاری ہے
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے
(ابویحییٰ کی تصنیف ”جب زندگی شروع ہوگی“ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے)۔