قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 109
کامیابی کی صورت میں لوگ جتنی داد دیتے ہیں، ناکامی کی صورت میں لوگ اس سے بڑھ کر تضحیک کرتے ہیں اور بعض اوقات تو لطیفے بھی گھڑ لیتے ہیں۔ ظہیر کا شمیری صاحب ہمارے ان لکھنے والوں میں سے ہیں جن کا قلم ہمہ گیر تحریروں کے لیے مشہور ہے۔ وہ باشعور آدمی ہیں اور ایک نظریہ رکھنے والے اور ادب و سیاست دونوں پر یکساں نظر رکھنے والے ادیبوں میں سے ہیں۔ تقسیم سے پہلے یہ بھی فلم میں آئے تھے۔ اب فلم میں آنے والوں کی خوش قسمتی اور بدقسمتی آتی ہے۔ اگر پہلی فلم ہٹ ہو گئی تو اس آدمی کے وارے نیارے ہو گئے اور اسے لکی قرار دیا دے کر دس فلمیں اور عطا کر دیں گئیں لیکن اگر پہلی فلم ناکام ہو گئی تو لوگ مذاق اڑاتے ہیں۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 108 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ظہیر کاشمیری صاحب کو چھوٹے چھوٹے چانس تو پہلے بھی ملے تھے لیکن فلم ’’کہاں گئے ‘‘ میں ان کو بڑا چانس ملا۔ اس کے ڈائریکٹر نرنجن تھے جو کانوں سے بہرے تھے اور چاند بائی اس کی ہیروئن تھی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کے نرجن سے مراسم ہیں۔یہ فلم جس زمانے میں بن رہی تھی اس زمانے میں اس ٹیم کا ہر آدمی پرآمید تھا کہ یہ فلم ہٹ ہو گی۔ خاص طور پر ظہیر صاحب جب ادبی محفلوں میں ہوتے تھے تو اس فلم کا ذکر کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ انہوں نے اس میں کیا کیا لکھا ہے ۔ کہتے تھے کہ یہ ایک قیامت خیز فلم ہے اور جب آئیگی تو میرا نام سب سے اوپر ہو گا۔ ہمیں ان کی باتوں کا یقین بھی تھا کیونکہ وہ جو دعوے کر رہے تھے ان کے مستحق تھے ۔ لیکن فلم کا معاملہ تو لاٹری کا ہوتا ہے۔ اگر نکل آئے تو پانچ لاکھ روپے مل جاتے ہیں ۔ نہ نکلے تو پانچ روپے بھی گئے۔
چنانچہ ہم بھی انتظار کرنے لگے ۔ یہ فلم 1947 ء کے فروری میں رٹنر سینما میں لگی پہلا شو چلا تو فلم کی پوری ٹیم بھی گیلری میں موجود ہے ۔ یہ روایت اس زمانے میں بھی تھی اور اب بھی ہے اور فلم کی ٹیم لوگوں کا ردعمل دیکھنے کیلئے وہاں جاتی ہے۔ ظہیر کاشمیری صاحب سے میرے مراسم تھے مگر ہم اس ٹیم میں نہیں تھے۔ میں اور میری پروڈکشن والے دوسری کلاس میں بیٹھے ہوئے یہ فلم دیکھ رہے تھے۔ پکچر شروع ہوئی تو چار ریلیں تو لوگوں نے برداشت کیں اور پانچویں ریل پر ہوٹنگ شروع ہو گئی۔ پھر کچھ پکچر جمی اور اس کے بعد انٹرول ہو گیا۔ جب اگلا ہاف شروع ہوا تو پھر وہی بوریت کی کیفیت آگئی۔ جب فلم ختم ہوئی تو لوگوں نے کرسیاں توڑنی شروع کر دیں اور کرسیوں کے ٹکڑے گیلری میں پھینکنے شروع کر دیتے کیونکہ انہیں پتہ چل گیا تھا کہ ٹیم اوپر بیٹھی ہوئی ہے ۔ لوگوں کو چوٹیں آئیں۔ چاند بائی کے ماتھے پر کرسی لگی اور وہ لہولہان ہوئی۔ یہ سب بیچارے وہاں سے بھاگے اور بڑی مشکل سے جان بچائی۔
لطیفہ یہ ہوا کہ ظہیر صاحب یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ پکچر معیار ی نہیں ہے۔ شاید ایسا ہی ہو کیونکہ اپنا اپنا نظریہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پکچر کچھ ایسے بن گئی ہے جس کے خیالات وقت سے پہلے آگئے ہیں۔ خواجہ احمد عباس ان دنوں اپنی فلم ’’آج اور کل ‘‘ بنانے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ وہ بھی پروگریسو آدمی تھے اور ظہیر کاشمیری بھی پروگریسو آدمی تھے۔ دونوں ہم مشرب اور ہم مسلک بھی تھے۔ تو لوگوں نے ان کے بارے میں لطیفہ بنالیا کیونکہ جب آدمی ناکام ہو جائے تو لطیفے بھی بن جاتے ہیں۔
چنانچہ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ظہیر کاشمیری صاحب خواجہ احمد عباس کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ نے میری فلم دیکھی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ ہاں دیکھی ہے ۔ پوچھنے لگے کیسی ہے۔ خواجہ صاحب کہنے لگے کہ سبحان اللہ بہت اچھی پکچر ہے مجھے اس میں کوئی کمی نظر نہیں آئی صرف دو باتوں کی تھوڑی سی کمی ضرور نظر آئی اور وہ یہ کہ ایک تو پکچر سنائی نہیں دیتی اور دوسرے دکھائی نہیں دیتی۔
یہ لطیفہ بہت عرصہ چلتا رہا اور یوں ظہیر کاشمیری بہت عرصہ فلم میں پیچھے رہے۔ پھر انہیں فلم ’’تین پھول ‘‘ میں چانس ملا۔ یہ فلم انہوں نے ڈائریکٹ کی اور یہ بھی ناکام ہو گئی۔ یہ ان کی بدقسمتی تھی۔ یہ نہیں کہ یہ نااہل تھے بلکہ فلم کا معاملہ لاٹری والا ہے ۔ جب یہ فلم نہ چلی تو لوگوں نے یہاں بھی لطیفے بنائے۔ ایک مشہور لطیفہ یہ ہوا کہ کچھ لوگ ’’تین پھول ‘‘ فلم دیکھنے کیلئے گئے ہوتے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا ۔ ایک آدمی جو پہلی قطار میں بیٹھا تھا سو گیا۔ پچھلے آدمی نے اسے تھوڑا سا ہلا کر کہا کہ جناب آپ فلم دیکھتے سو گئے ہیں اور خراٹے لے رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر میں سوگیا ہوں تو آپ کو کیا ہے۔ تو اس آدمی نے کہا کہ آپ کے خراٹے مجھے سونے نہیں دے رہے ۔ آپ میری نیند میں کیوں خلل ڈال رہے ہیں۔ چنانچہ اس فلم پر یہ لطیفہ مشہور ہوا۔
ظہیر کاشمیری اس کے بعد فلم سے الگ ہو گئے اور اس کے بعد ان کا اپنا جو میدان تھایعنی ادب اور سیاست اس میں بہت آگئے بڑھے ۔ کئی کتابیں لکھیں اور ان کی تصانیف سے لوگوں نے رہنمائی حاصل کی۔
پینے کے بعد میں نے ان کی جو کیفیت دیکھی وہ یہ تھی کہ وہ پینے کے بعد مخاطب کو سٹوڈنٹ سمجھ کر سوشلزم پر تقریر کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ آج سے دس پندرہ سال پہلے انہیں فالج ہو گیا تھا اور ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ اس وقت سے انہوں نے پینی چھوڑ دی اور اب اتنے تندرست ہو گئے ہیں کہ ستر سال کے ہونے کے باوجود وہ پچاس سال کے نظر آتے ہیں۔میں ان کی عادت کا ذکر کر رہا تھا۔ پینے کے بعد وہ سوشلزم پر تقریر کرتے تھے۔ یہ تقریر بوگس نہیں ہوتی تھی بلکہ جینوئن ہوتی تھی۔ اور ایسا لگتا تھا کہ پوری کی پوری تقریر ان پر نازل ہو رہی ہے۔ دوسرا انہیں چونکہ گانے سے مس رہا ہے اور وہ گانے کی باریکیوں کو بھی جانتے ہیں اس لیے وہ کوئی ٹھمری داد را یا کوئی پکار اگ ضرور سناتے تھے۔ تیسرا یہ ہے کہ وہ اپنا تازہ کلام ضرور سناتے تھے۔ یہ سب کچھ سنا کر ہی انہیں چین آتا تھا۔
یہ سب ان کے پینے کے بعد کی عادتیں ہیں اور یہ ساری چیزیں صحت مندہیں۔میں نے ان کی اس عادت سے کافی سیکھا ۔ اگرچہ میں ان کے ساتھ اس طرح کی محفلوں میں زیادہ نہیں بیٹھا لیکن ان کے جو خیالات مجھ تک پہنچتے تھے میں انہیں توجہ سے سنتا تھا ۔ ظہیر صاحب کی آواز بھی اچھی تھی اور اگر وہ راگنی سناتے تو واقعی مزہ آتا۔ اس طرح اگر ایک اچھے شاعر کا تازہ کلام سن لیا جائے تو اس سے بھی خود کہنے کی تحریک ہوتی ہے۔
چنانچہ پینے کے بعد میرے تجربے میں جو بہتر آدمی آیا ہے وہ ظہیر کاشمیری ہیں۔
(جاری ہے )