کراچی حکمرانوں کی توجہ کا طالب ہے

   کراچی حکمرانوں کی توجہ کا طالب ہے
   کراچی حکمرانوں کی توجہ کا طالب ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

”اس وقت کراچی کی آبادی بمشکل تین ملین تھی، سڑکیں صاف ستھری، اچھی بسیں اور ٹرامیں، نہایت لذیز کھانے، اعلیٰ تعلیمی و ثقافتی ماحول۔ میں یہ چھوڑ کر 1961ء میں (تین سال انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات رہ کر) باہر چلا گیا۔ جب دسمبر 1975ء کے اواخر میں واپس آیا تو یہ شہر بدل چکا تھا۔ نسلی تعصب، فرقہ پرستی، مذہبی انتہا پسندی نے قدم جمانا شروع کر دیے تھے۔ جہاں پہلے مہینوں ایک قتل کی خبر نہ آتی اب روز قتل و غارت گری کا میدان سجنے لگا تھا۔“

یہ الفاظ معروف ایٹمی سائنس دان عبدالقدیر خان کے 13 اگست 2018ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے ان کے کالم سے لیے گئے ہیں۔ دیکھئیے کہ کس طرح انہوں نے کراچی کے ساتھ اپنی محبت کا والہانہ اظہار کیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک ضروری کام سے کراچی جانا ہوا تو مجھے ماضی میں پڑھا گیا عبدالقدیر خان صاحب کا یہ کالم بہت یاد آیا۔ مجھے دو چار دن کراچی رہنا بھی پڑا تو اس شہرِ بے مثال کی ایک دفعہ پھر سیر کرنے کا موقع ملا‘ جو میں نے گنوانا مناسب نہیں سمجھا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں گھوما تو جانا کہ شہر واقعی بہت بدل گیا ہے۔ سماجی اور اقتصادی حوالوں سے ہی نہیں بلکہ پھیلاؤ  اور سہولیاتِ زندگی کے حوالے سے بھی۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ کراچی میں انفراسٹرکچر کی کوئی کمی نہیں ہے‘ یہاں متعدد انڈر پاسز اور فلائی اوورز بن چکے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کو اس وسیع و عریض شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں آنے جانے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ انفراسٹرکچر کئی حوالوں سے مکمل اور شہر کی ضرورت کے مطابق ہے‘ لیکن انہی سے وابستہ کچھ اور مسائل ہیں جو شہر کی رونق اور شہریوں کے معمولات کو متاثر کر رہے ہیں۔ مثلاً میں نے مشاہدہ کیا کہ زیادہ تر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ پھر ان سڑکوں پر انکروچمنٹ کی بھرمار ہے اور یہ دونوں عوامل سڑکوں پر ٹریفک کے بہاؤ حتیٰ کہ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی مسائل کا باعث بن رہے ہیں۔ کراچی ماضی میں پورے ملک کا معاشی حب رہا اور اس کی یہ خصوصیت اور حیثیت آج بھی برقرار ہے‘ لیکن پُرانے زمانے کے کراچی اور آج کے کراچی میں بہت فرق پیدا ہو چکا ہے۔ جیسا کہ عبدالقدیر خان نے بھی لکھا کہ کسی زمانے میں یہاں سرکلر ٹرین چلتی تھی‘ ایک ٹرام چلتی تھی، آج کراچی میں ٹریفک تو ہے اور آبادی کے بڑھنے کے ساتھ اس کا حجم بھی بڑھ چکا ہے لیکن پہلے منظم تھی اب بے ہنگم ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں ان پُرانی روایات کو بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی طرح ایک بار پھر کراچی روشنیوں کا شہر بن جائے۔ سندھ پر زیادہ تر پیپلز پارٹی ہی حکمران رہی ہے‘ لیکن شہر کے حالات پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ کافی عرصے سے اس کی دیکھ بھال پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ کراچی میں سب سے پُر رونق شاہراہ فیصل تھی‘ وہ بھی اس قابل نہیں رہی کہ اس پر سفر کیا جا سکے۔ پیک آورز (Peak Hours) میں تو یہ سڑک بالکل ہی (Struck) ہو کر رہ جاتی ہے۔

ہو سکتا ہے یہ بات سن کر کچھ لوگ حیران ہوں کہ ایک زمانے میں کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا یعنی وہاں رات میں بھی اتنی لائٹنگ ہوتی تھی کہ دن کا سماں محسوس ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ اس قدر مصروف شہر تھا کہ رات کو بھی معاشرتی اور کاروباری سرگرمیاں چلتی رہتی تھیں۔ کراچی سے کتنی یادیں وابستہ ہیں۔ میری ویدر میموریل ٹاور‘ کے پی ٹی بلڈنگ‘ کے ایم سی بلڈنگ‘ فرئیر ہال‘ جہانگیر کوٹھاری پریڈ اور پویلین‘ کنٹونمنٹ ریلوے سٹیشن‘ بولٹن مارکیٹ‘ لمبرٹ مارکیٹ‘ ایلقسٹن سٹون سٹریٹ‘ ایمپریس مارکیٹ۔ یہ سارے مقامات اور یہ ساری چیزیں تو موجود ہیں لیکن جو تنظیم ہونی چاہیے جو نکھار نظر آنا چاہیے وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

ایک زمانہ تھا کہ کراچی کی مثالیں دی جاتی تھیں اور پورے مشرق وسطیٰ میں کراچی اپنی روشنیوں اور رعنائیوں کی وجہ سے مشہور اور معروف تھا۔ عرب ممالک سے لوگ اس شہر میں انجوائے کرنے کے لیے دوڑے چلے آتے تھے۔ یہ شہر کس قدر معروف تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1981ء میں بننے والی انگلش فلم دی ریڈرز آف دی لاسٹ آرک (The Raders Of The Lost Arc) میں بھی اس کا نام آیا تھا۔ فلم کا کردار انڈیانا جونز یورپ سے نیپال جانے کے لیے سفر کرتے ہوئے کراچی میں بھی ٹھہرا تھا۔ کراچی میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس سے چند سو کلومیٹر دور دبئی پر نظر ڈالیں۔ انہوں نے اپنے ساحلوں اور اپنے سمندروں کو کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ کراچی کے ساحل کسی بھی حوالے سے دبئی اور عرب ممالک کے دوسرے ساحلوں حتیٰ کہ یورپ کے ساحلوں سے بھی کسی حوالے سے کمتر نہیں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اپنے ان ساحلوں کو تفریح کا مرکز بناتے تاکہ نہ صرف کراچی شہر بلکہ پورے ملک سے لوگ اس شہر بے مثال کی طرف کھنچے چلے آتے اور کچھ دن یہاں رہ کر اپنی زندگی انجوائے کرتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب کراچی انجوائے کرنے والا شہر نہیں رہا۔ بھارت کا ممبئی شہر بھی ایک ساحلی شہر ہے اور آپ  اگر وہاں جا نہیں سکتے تو گوگل پر سرچ کر کے دیکھیں کہ انہوں نے اپنے  اس ساحلی شہر کو کتنا خوبصورت بنا دیا ہے۔ میرا ایک دوست کہہ رہا تھا کہ دبئی نے کراچی کی قیمت پر ترقی کی ہے اور اتنی ترقی کہ پہلے لوگ سیر سپاٹے کے لیے یورپ جاتے تھے اب دبئی آتے ہیں۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ اگر ہم پہلے کراچی کو ترقی دے لیتے اور ایک سیاحتی اور تفریحی شہر بنا لیتے تو آج دبئی کا نام تو ہوتا لیکن ایک تفریحی شہر کی حیثیت سے نہیں۔ 

 کراچی کے کراچی اور سندھ کے حکمرانوں سے بس یہی ایک التماس ہے کہ اس شہر کو ایک بار پھر شہر بے مثال بنا دیں‘ روشنیوں کا شہر بنا دیں‘ اس کی رونقیں لوٹا دیں‘ اس کی سڑکیں صحیح کر دیں۔ یہاں پانی کی سہولت کو درست کیا جائے اور ٹریفک کی روانی کو بہتر بنا لیا جائے تو آج بھی یہ شہر دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ شہر سے پیچھے نہیں ہے۔ ضرورت تھوڑی سی توجہ دینے کی ہے جو ابھی تک نظر نہیں آتی۔

مزید :

رائے -کالم -