جو دُنیا سے چلے گئے انہیں بخش دیں

جو دُنیا سے چلے گئے انہیں بخش دیں
جو دُنیا سے چلے گئے انہیں بخش دیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستانی سیاست میں یہ کیا روایت چل پڑی ہے،دُنیا سے برسوں پہلے گزر جانے والوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔ہمارے ایک دوست دانشور اور سابق بیورو کریٹ فیاض تحسین نے سوال اٹھایا ہے کہ ہم اپنے نمائندے کیا اِس لئے منتخب کرتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں جا کر دنگا فساد کریں،مغلّظات بکیں اور مُردوں کا کفن خراب کریں، کیا ان سے آج کے مسائل پر بات نہیں ہو سکتی؟....یہ بات تو ہر کوئی سوچنا اور پوچھتا ہے کہ ہمارے سیاست دان گڑھے مردے کیوں اکھاڑتے ہیں؟آج کل بھٹو اور ایوب خان کا بہت تذکرہ ہو رہا ہے۔

عمر ایوب خان سے جب کچھ نہ بن پڑا تو انہوں نے اسمبلی کے فلور پر بلاول بھٹو زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ دیا کہ آپ کے نانا میرے دادا کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔یہ بچوں جیسی بات کیا اسمبلی کے فلور پر کی جانی چاہئے؟قصور بلاول کا بھی ہے،جو وزیراعظم عمران خان کے والد کا تذکرہ بھی کر جاتے ہیں، حالانکہ وہ نہ تو انہیں جانتے ہیں نہ اُن کے بارے میں انہوں نے کچھ پڑھا ہے۔بس سنی سنائی باتوں پر سلسلہ چل رہا ہے۔ جنرل ضیاءالحق کا ذکر بھی بہت کیا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف کے گاڈ فادر تھے۔ یہ باتیں تو بہت گھسی پٹی ہیں۔ تاریخ کا پہیہ بہت آگے جا چکا ہے،لیکن ہمارے سیاست دان آگے جانے کو تیار نہیں۔

ملک کی تاریخ میں کون ہے جو فوجی آمریت کی حقیقت سے انکار کرے۔ کون سا سیاست دان ہے جسے کسی دور میں آمریت کے سائے تلے پروان چڑھنے کا موقع نہ ملا ہو،جس ملک میں تیس برسوں تک جرنیلی آمریت رہی ہو، وہاں آمروں کے ساتھ سیاست دانوں کا ربط و ضبط پیدا ہونا تو معمول کی بات ہے،اب اگر سیاست اسی کے گرد گھومتی رہے کہ کون آمریت سے فیض یاب ہوا تو اس حمام میں سبھی ننگے نظر آئیں گے۔ ہماری تاریخ میں کیا کچھ نہیں ہوا،مگر اب تو آگے بڑھنے کا وقت ہے، یہ نئی نسل کے سیاست دان کس گرداب میں پھنس گئے ہیں،اپنے نانا اور دادا کی قبروں کو رسوا کر رہے ہیں۔
یہ ویسے بھی بڑی معیوب بات ہوتی ہے کہ آپس کی لڑائی میں بزرگوں کی پگڑیاں اچھالی جائیں۔

اُس دور میں کیا ہوا، کیا تقاضے تھے،کیا مسائل تھے، کیسے ملک چل رہا تھا، کون کس کے لئے ضروری اور کس کے کام آ رہا تھا۔یہ باتیں آج کا مسئلہ تو ہیں نہیں۔بھٹو اور ایوب خان کے تعلقات اب تاریخ کا حصہ ہیں۔دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت تھی اور یہ نظریہ¿ ضرورت جب تک برقرار رہا،کام چلتا رہا، جب اس میں رخنہ پڑا تو راہیں جدا ہو گئیں،اُس وقت کے تقاضوں کو ہم آج پر کیسے منطبق کر سکتے ہیں۔ اب یہ کیا بچوں والی بات ہے کہ میرے دادا کو آپ کے نانا ڈیڈی کہتے تھے۔ ممکن ہے یہ احترام کی وجہ سے ہو۔ ایوب خان ذوالفقار علی بھٹو سے عمر میں بڑے تھے۔ یہ اُن دونوں کا معاملہ تھا، اُسے آج کی لڑائی میں بنیاد بنانا پرلے درجے کی حماقت ہے۔

عمر ایوب خان کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اُن کی ایسی باتیں ایوب خان کا قد نہیں بڑھا سکتیں،بلکہ اُلٹا اُن کے بارے میں مخالفانہ باتوں کی نئی راہ کھول سکتی ہیں۔ اسمبلی میں ایسے ماحول کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سنجیدہ لوگوں کا ایوان ہے۔

چیختے، چنگھاڑتے انداز میں خطابات کیا پیغام دے رہے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کو کس نے یہ راہ دکھائی ہے کہ وہ ایشوز پر بات کرنے کی بجائے وزیراعظم عمران خان کی ذات اور شخصیت کو نشانہ بنائیں،پھر یہ دعویٰ بھی کریں کہ انہوں نے اُردو میں تقریر کر کے اُن کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔کیا تقریریں چیخیں نکلوانے کے لئے کی جاتی ہیں یا اُن کا مقصد قومی معاملات میں رائے دینا ہوتا ہے؟
اب پاکستان جیسے ملک میں یہ الزام بھی کوئی الزام ہے کہ فلاں سیاست دان آمریت کی پیداوار ہے۔ کوئی چہرہ بھی ایسا نظر نہیں آتا جس نے کسی نہ کسی آمر کی آشیر باد سے سیاست کی الف بے نہ سیکھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی کو الزام دیا جاتا ہے تو وہ جواب آں غزل کے طور پر گڑے مردے اکھاڑتا ہے۔ کیا سیاست آج کے ایشوز پر نہیں کی جا سکتی،کیا تین چار دہائی پہلے کی سیاست کا کمبل ہماری جان نہیں چھوڑ سکتا؟دُنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ سیاست کو نصف صدی پہلے کے حوالوں سے دیکھا اور پرکھا جائے۔ہمارے ہاں چونکہ موروثی سیاست چل رہی ہے۔ نانا دادا کے زمانے کی باتیں نہ کریں تو کیا کریں۔ اگر سیاست میں نئے لوگ آئے ہوتے، پرانے حوالوں پر سیاست کرنے والے موجود نہ ہوتے اور نسل در نسل سیاست کی پیڑھی نہ چلتی تو یوں مرے ہووﺅں کی گفتگو اور جستجو بھی نہ کی جاتی۔جب بھٹو کی ساری سیاست پر تین حرف بھیجنے کے باوجود یہ نعرہ لگایا جائے: ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ اور مدمقابل بھی 40 برس پہلے کی فضا میں جا کر جواب دیتے ہوں کہ بھٹو نے پاکستان کو دو لخت کیا،صنعتیں قومیا کے معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا،تو آج کی سیاست کہاں جگہ پا سکتی ہے؟ اس سیاست نے ایک پوری نسل ختم کر دی، مگر یہ خود ختم نہیں ہوئی، یہ آج بھی اپنی مکمل سفاکی کے ساتھ پنجے گاڑے ہوئے ہے۔

امید تھی کہ نئی نسل آگے آئے گی تو اس روایتی سیاست کا خاتمہ بھی ہو گا،مگر بلاول بھٹو زرداری کو پوری طرح اس روایتی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ اب وہ گلے کا پورا زور لگا کر صرف الزامات بیان کرتے ہیں،حالانکہ دلیل سے بات کرنے کے لئے گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ سوال آج بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کیا اس انداز سے ایک سنجیدہ سیاست دان کا امیج بنا سکیں گے؟انہیں کون غلط سمت میں لے جا رہا ہے۔اُن کی باتوں میں وزن نہیں، بس وہ شور ڈال کراپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟
انہوںنے حالیہ تقریر میں بریگیڈیئر(ر) اعجاز شاہ کو وزیر داخلہ بنانے پر بہت چڑھائی کی،حالانکہ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ جب پیپلزپارٹی کی پانچ برس حکومت رہی تو اعجاز شاہ کے خلاف کیوں بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش کرنے پر کارروائی نہیں کی گئی۔اس وقت یہ الزام سوائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے اور کچھ نہیں۔

ملک کے منتخب وزیراعظم کو بار بار سلیکٹڈ وزیراعظم کہنے سے وہ شاید سمجھتے ہیں کہ بڑا معرکہ سر کر رہے ہیں، حالانکہ جن لوگوں نے2018ءکے انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے، وہ اسے ووٹ کی توہین سمجھتے ہیں۔ سنتے تو یہی آئے ہیں کہ اگر تسلسل سے ایک عمل جاری رہے تو اُس میں بہتری آتی ہے،مگر ہماری سیاست شاید اس اصول سے ماورا ہے، تیسری بار منتخب جمہوری ادارے چل رہے ہیں، لیکن مجال ہے کوئی کہہ سکے کہ ہم جمہوری روایات اور اقدار کے حوالے سے آگے بڑھے ہیں۔ترقی ¿ معکوس کا سفر ہے جو ہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ایک نیا رجحان متعارف ہوا ہے کہ اسمبلی میں کسی کو بات نہیں کرنے دینی۔

اتنا شور شرابہ کرنا ہے،جیسے کسی بازار میں ہڑبونگ کے دوران ہوتا ہے۔ افسوس اِس میں حزبِ اقتدار بھی شامل ہو گئی ہے،کم از کم اُسے تو اچھی روایت قائم کرنی چاہئے تھی۔جب برسر اقتدار پارٹی کے ارکان بھی ڈیسک بجا رہے ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایوان نہ چلے اور اجلاس ملتوی ہوتے رہیں۔ آٹھ ماہ سے زائد ہو گئے ہیں،اسمبلی کے اندر ایک دن بھی ٹھہراﺅ پیدا نہیں ہوا۔

پھر کس بنیاد پر ہماری سیاسی اشرافیہ جمہوریت کا دعویٰ کرتی ہے۔ یہ کیوں سمجھ لیا گیا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس پُرامن طریقے سے ہوا تو حکومت مضبوط ہو جائے گی، کیوں اپوزیشن نے یہ طے کر لیا ہے کہ اجلاس کو نہیں چلنے دینا۔ پھر چیخ چیخ کر جو تقریریں ہوتی ہیں، وہ عوامی مسائل پر نہیں، بلکہ کردار کشی پر مبنی ہوتی ہیں،کیا اسے جمہوریت کے لئے نیک شگون قرار دیا جا سکتا ہے،اس شور شرابے میں کون ہے جو اس سوال کا جواب دے سکے۔

مزید :

رائے -کالم -