میں کافی لینے کچن میں گیا تو دیکھا کمپنی کے چیئر مین دستانے چڑھائے کپ دھو رہے تھے، یہ کام چائے والا لڑکا کیا کرتا تھا،جو ابھی تک پہنچا نہیں تھا

میں کافی لینے کچن میں گیا تو دیکھا کمپنی کے چیئر مین دستانے چڑھائے کپ دھو رہے ...
میں کافی لینے کچن میں گیا تو دیکھا کمپنی کے چیئر مین دستانے چڑھائے کپ دھو رہے تھے، یہ کام چائے والا لڑکا کیا کرتا تھا،جو ابھی تک پہنچا نہیں تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:251
ایک روز میں صبح جلدی دفتر پہنچ گیا، کافی لینے کچن میں گیا تو دیکھا کہ کمپنی کے چیئر مین جو کمپنی کے مالکان میں سے بھی ایک تھے، دستانے چڑھائے لوگوں کے استعمال شدہ چائے اور کافی کے کپ دھو دھو کر رکھ رہے تھے، یہ کام چائے والا لڑکا کیا کرتا تھا،جو ابھی تک پہنچا نہیں تھا۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی، میں نے اپنی غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”سر، یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔“ آنکھ ما رکر کہنے لگا ”دیکھ نہیں رہے ہو کپ دھو رہا ہوں، لڑکا ابھی آیا نہیں ہے میرے پاس وقت تھا میں نے سوچا یہ کام میں کردوں۔“ پھر اس نے یکدم مجھ سے پوچھ لیا ”کیوں کیا میں کچھ غلط کر رہا ہوں؟؟“ میں بدحواس ہو گیا اور کوئی معقول جواب بھی نہ دے سکااور وہاں سے چلا آیا۔
ایک دن مجھے پتہ لگا کہ پاکستان سے کوئی 200 مزدور کمپنی کے لیے بھرتی ہو کر پہنچے ہیں جو اُن کے ایک 10 منزلہ پروجیکٹ پر کام کریں گے۔ اگلے دن ان کو کہا گیا کہ آپ سب لوگ شلوار قمیض کے بجائے پتلون قمیض میں ڈیوٹی پر آئیں، کیونکہ اوپر جا کر کھلی شلوار قمیض تیز ہوا سے پھڑپھڑاتی تھی جس سے کسی حادثے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ امریکن شلوار قمیض کو پیار سے ”پیرا شوٹ“کہتے تھے۔ یہ بات سنتے ہی پاکستانی مزدور بھڑک اٹھے اور زیادہ تر لوگوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا اور کہا کہ ہم توپتلون ہرگز نہیں پہنیں گے۔ امریکی پراجیکٹ ڈائریکٹر نے انھیں دھمکی دی کہ”اگر آپ ہمارے مقررہ لباس کی پابندی نہیں کریں گے تو ہم آپ کو واپس پاکستان بھیج دیں گے“۔ یہ سن کربہت سارے تو ڈھیلے پڑ گئے اور بازار جا کر قمیض پتلون خرید لائے، جن کو ابھی تک انا کا مسئلہ درپیش تھا انھوں نے دھمکی کو نظر انداز کر کے ضد پکڑ لی اور ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اب انھیں واپس نہیں بھیج سکتے۔ آخری کوشش کے طور پر ترجمانی اور ان کو سمجھانے کی خاطر مجھے بلایا گیا، بڑی کوشش کی لیکن ان کے دماغ میں کوئی بات اترتی ہی نہیں تھی تاہم کچھ لوگ اور ٹوٹے۔ بالآخر2 دن بعد انکار کرنے والے پانچ چھ لوگوں کو شام کی فلائیٹ سے سچ مچ واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ مجھے ذاتی طور ان کی واپسی کا بڑا افسوس ہوا کہ پتہ نہیں کہاں کہاں سے اور کیا کیا بیچ کر ان کے گھر والوں نے پیسے اکٹھے کر کے ان کو یہاں بھیجا ہو گا اور یہ جھوٹی انا کے کے چکر میں سب کچھ ضائع کر بیٹھے۔ پتلون پہن لینے سے عزت تو نہیں گھٹ جاناتھی، آخر کو وہاں سب ہی تو پہنتے تھے۔
ہیڈ آفس میں ہمارا چیف کنٹرولر ایک درمیانی عمر کا امریکی جان کُک تھا، بہت خوبصورت، انتہائی ذہین اور محنتی شخص تھا۔ بہت زیادہ کام کرنے یا کسی اور وجہ سے اس کی آنکھیں اسکیمو بچوں کی طرح مچ مچی سی ہوگئی تھیں پھر بھی وہ ہر وقت چمکتی رہتی تھیں، اس کی یاد داشت غضب کی تھی جسے دیکھ کر رشک آتا تھا۔ اس کی نظروں سے ایک بار جو کاغذ گزر جاتا تو وہ زندگی بھر کمپیوٹر کی طرح اس کے ذہن میں نقش ہو جاتا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ میں کوئی واؤچر اس کے پاس لے کر جاتا تو وہ کہتا تھا ”سعید مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس طرح کی ادائیگی ہم کوئی 3مہینے پہلے غالباً 23-24 جولائی کو کر چکے ہیں ذرا دیکھو تو سہی“۔ اور اس کی بات ہمیشہ صحیح ہوتی تھی۔کمال کا ذہن تھا اس کا۔
کمپنی کے مختلف پروجیکٹس پر کوئی 500سے زیادہ مستقل ملازمین کام کرتے تھے، اورجس سے وہ ایک دفعہ مل لیتا اگلی دفعہ اسے ہمیشہ اس کے نام سے ہی پکارتا۔ کمپنی کے روزمرہ کاموں پر اس کی گرفت بڑی مضبوط تھی۔ سخت اصول پسند انسان تھا، ناجائز کسی کو تنگ نہیں کرتا تھا اور غلط کام کرنے والے کو چھوڑتا نہیں تھا۔اگر مجھ سے اکاؤنٹس کی ماہانہ رپورٹ بناتے وقت کوئی غلطی ہو جاتی تو وہ کبھی یہ نہیں کہتا تھا کہ یہ غلط ہے، ہمیشہ کہتا تھا کہ جو آپ نے کیا ہے وہ بھی ٹھیک ہوگا لیکن میرے خیال میں اگر اس کو ہم اس طرح کر لیں تو زیادہ بہتر ہو جائے گا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -