امیر تیمور کے مقبرے پر گئے،اس نے ازبکستان کی تاریخ پر اپنی ذہانت کی چھاپ بھی چھوڑی، تاشقند کے لوگ بہت دوستانہ انداز میں ملتے ہیں 

 امیر تیمور کے مقبرے پر گئے،اس نے ازبکستان کی تاریخ پر اپنی ذہانت کی چھاپ بھی ...
 امیر تیمور کے مقبرے پر گئے،اس نے ازبکستان کی تاریخ پر اپنی ذہانت کی چھاپ بھی چھوڑی، تاشقند کے لوگ بہت دوستانہ انداز میں ملتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:203
 واضح رہے کہ اس زمانے کے مدرسے بھی مکمل یونیورسٹیاں ہوتی تھیں، یہ صرف مذہبی تعلیم کے لیے نہیں ہوتے جیسا کہ پاکستان میں سمجھا جاتا ہے۔ یہ  مدرسے ہر شعبے میں تعلیم دیتے تھے جن میں تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ، لسانیات، سائنس اور علم فلکیات وغیرہ شامل ہیں۔ اس بات کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے کہ امیر تیمور کے بیٹے الغ بیگ نے تو باقاعدہ ایک سائنسی مرکز بھی بنایا تھا جہاں وہ خود بھی مدرسے میں پڑھایا کرتا تھا۔ ہم امیر تیمور کے مقبرے پر بھی گئے اور وہاں فاتحہ بھی پڑھی۔ وہ بلا شبہ ایک ذہین وفطین جرنیل ہونے کیساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کا منتظم بھی تھا اور اس نے ازبکستان کی تاریخ پر اپنی ذہانت کی ایک چھاپ بھی چھوڑی تھی۔ ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ جب اس شہر پر روسیوں کا قبضہ تھا تو وہ مزار سے اس کا دماغ بھی نکال کر روس لے گئے تاکہ اس پر تحقیق کرکے اس کی غیر معمولی صلاحیتوں کا جائزہ لیا جاسکے، بعد میں اس کو واپس لا کر رکھ دیا گیا۔ یہ جو ٹور گائیڈ ہوتے ہیں نا یہ اس قسم کی دیو مالائی داستانیں گھڑتے رہتے ہیں تاکہ سیاحوں کی دلچسپی اس میں قائم رہے۔ حالانکہ اس بات کی کہیں سے بھی کوئی تصدیق نہیں ہو پاتی۔ہم سمرقند کی تہذیب اور عمارات دیکھنے کے بعد تاشقند روانہ ہو گئے۔
 ہم تاشقند میں رات بھر کے لیے ٹھہرے۔ ہم نے اس ملک میں اپنے قیام کے دوران یہ محسوس کیا کہ ازبکستان کے لوگ بہت دوستانہ انداز میں ملتے ہیں اور زندہ دل بھی ہیں۔ ان کی خواتین بشریٰ۔ وسیمہ اور بلقیس کے ساتھ تصویریں اتروانے کی بہت خواہشمند تھیں۔ سوویت حکمرانی کے دوران یہاں کے سارے مدرسے اور مسجدیں مکمل طور پر بند کر دی گئی تھیں اور مسلمانوں کو ان سے دور رکھنے کی خاطر ان پرسخت پابندیاں لگائی گئیں لیکن ان کے دلوں میں ہمیشہ اسلام زندہ رہا۔ 2012 ء میں ہمارے دورے کے دوران کچھ مدرسے مگر زیادہ تر مسجدیں کھلی ہوئی تھیں جہاں  پہرے داروں کی نظروں کے نیچے کوئی بھی نماز پڑھ سکتا تھا۔ مدرسے کا تصور وسیع پیمانے پر تعلیم دینے کا تھا جس میں دین کی تعلیم بھی شامل تھی اسی وجہ سے اچھے شہری پیدا ہوتے ہیں پاکستانیوں کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور اس کی پیروی کرنا چاہئے۔ ازبکستان میں بہترین وقت گزارنے اور ایک معلوماتی،تعلیمی اور تفریحی دورے کے اختتام کے بعد اگلی صبح ہم لاہور کی پرواز پر سوار ہوگئے۔  
رحمتِ خدا وندی
خاندانی زندگی کو اچھی طرح گزارنے کیلیے پرسکون اور محفوظ ماحول، خوشگوار یادیں اور اپنی خواہشوں کی تکمیل بہت ضروری ہے۔ میرے بچے اپنے اپنے گھر بسانے میں مصروف تھے۔ عاشی کا خاندان 2بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ مکمل ہو گیا تھا۔ سمعیہ کی 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا اور وہ بھی ایک مطمئن اور بھر پور زندگی گزار رہے تھے۔ اس کی تیسری بیٹی 5 ستمبر 2006 کو ان کے ہاں ایک رحمت بن کر آئی تھی۔ امل ایک بہت ہی دوستانہ مزاج رکھنے والی بچی اب ہائی سکول میں ہے۔ مدیحہ کی دوسری بیٹی ارم 3 اپریل 2009 کو پیدا ہوئی۔ اس کی پیدائش کی خبر سن کرمدیحہ اور بلال خوشی سے بہت نہال تھے اور ہم نے ان کی خوشیوں میں شرکت کا فیصلہ کیا، ہم دوبئی کے لیے روانہ ہوئے۔ ارم ماشاء اللہ اب شارجہ کے ایک ہائی سکول میں اپنی تعلیم کے مراحل طے کر رہی ہے۔ وہ ایک بہت ہی شرمیلی مگر ذہین بچی ہے جو ہارورڈ یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -