اسلام آباد کی 2 بڑی یونیورسٹیوں میں 601 افراد کی غیرقانونی بھرتیوں کا انکشاف

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس معین عامر پیرزادہ کی زیر صدارت ہوا ۔ آڈٹ حکام نے کامسیٹس یونیورسٹی اور وفاقی اُردو یونیورسٹی اسلام آباد میں سیکڑوں غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف کیا ، جس پر ذیلی کمیٹی نے دونوں جامعات میں غیرقانونی بھرتیوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ۔
ڈان نیوز کے مطابق آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کامسیٹس یونیورسٹی نے غیر قانونی طور پر 544 فیکلٹی ممبران کو تعینات کیا، ان بھرتیوں میں قوانین کو روندا گیا، ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بھی ان بھرتیوں کی منظوری دی۔
کنوینر کمیٹی نے استفسار کیا کہ جب تک اشتہار نہیں آتا تو لوگوں کو نوکریوں کا کیسے پتہ چلے گا، اہل لوگ کس طرح ان نوکریوں کے لیے کاغذات جمع کریں گے؟
رکن کمیٹی خواجہ شیراز حسن نے کہاکہ کامسیٹس یونیورسٹی میں کئی سالوں سے اہم عہدے خالی ہیں، یونیورسٹی میں ایک سال سے کنٹرولر امتحانات کا عہدہ خالی ہے، خازن 12 سال سے غیرقانونی طور پر بیٹھے ہیں، 12 سال سے خزانچی تعینات کرنے کا عمل شروع نہیں ہوا۔یونیورسٹی میں کئی سالوں سے ریکٹر کا عہدہ بھی خالی ہے، یونیورسٹی انتظامیہ نے اہم عہدے خالی ہونے کی تصدیق کردی، انہوں نے استفسار کیا کہ یونیورسٹی میں سالوں سے سرچ کمیٹی کیسے چل رہی ہے؟ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی کارکردگی پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے استفسار کیا کہ اگر یونیورسٹیوں میں کچھ غلط ہورہا ہے تو ایچ ای سی کیا کررہی ہے؟ کمیٹی نے غیر قانونی بھرتیوں کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی اُردو یونیورسٹی اسلام آباد میں 57 ملازمین کی غیر قانونی بھرتی کا انکشاف ہوا ہے جبکہ وفاقی اُردو یونیورسٹی کی جانب سے حد بندی کے لیے پٹواری بھرتی کیے جانے کا معاملہ بھی سامنے آیا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ یونیورسٹی میں 57 افراد کو کسی ضرورت کے بغیر بھرتی کیا گیا، 11 ملازمین کو کسی خالی پوسٹ کے بغیر بھرتی کیا گیا۔
رکن کمیٹی خواجہ شیراز نے کہاکہ یونیورسٹی میں پٹواری کی بھرتی کی کیا ضرورت تھی؟
آڈٹ حکام نے بتایا کہ ایچ ای سی نے گزشتہ 17 سالوں میں 308 تحقیقی منصوبوں کی منظوری دی تھی، ان تحقیقی منصوبوں کے لیے حکومتی فنڈز بھی جاری کیے گئے تاہم کچھ منصوبے گزشتہ 17 سالوں سے زیر التوا ہیں، ان تحقیقی منصوبوں کے لیے ایک ارب روپے کے لگ بھگ فنڈز جاری کیے گئے تھے۔
آڈٹ حکام کے مطابق یہ تحقیقی منصوبے مختلف محققین کو تفویض کیے گئے تھے، کمیٹی نے تحقیقی منصوبے بروقت مکمل نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
رکن کمیٹی خواجہ شیراز نے کہا کہ یہ کونسی ریسرچ ہے جو 17 سالوں میں مکمل نہیں ہوئی، کیا ایچ ای سی کے اندر کوئی طریقہ کار ہے؟
ایچ ای سی نے کہاکہ ریسرچ مکمل نہ کرنے والوں کو نئے پراجیکٹس نہیں دیے جارہے،کمیٹی نے معاملے پر ایک مہینے میں جواب طلب کرلیا۔