کتابوں کی دنیا

   کتابوں کی دنیا
   کتابوں کی دنیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کتاب پڑھنے کا شوق انسان کی عادت بن جائے تو سمجھئے اس کے لئے علم کے دروازے کھل گئے۔ آپ کسی بڑی لائبریری میں جائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کیسے کیسے موضوعات پر کتابیں موجود ہیں اور سبھی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو آشکار کررہی ہیں۔میرے نزدیک ہر کتاب ایک نیا روزن کھولتی ہے کیونکہ وہ ایک ذہن کی تعبیرہوتی ہے۔نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اس لئے ضروری ہے کہ وہ کتاب کلچر کو فروغ دے رہے ہیں، آج کتابوں کی دنیا میں تبصرے کے لئے تین کتابوں کا انتخاب کیا گیا ہے، ان میں ایک نثر اور دو شاعری کے مجموعے ہیں۔ پہلی کتاب اسلام آباد میں مقیم شاعر رشید سندیلوی کا شعری مجموعہ ”معکوس“ ہے۔ دوسری کتاب سیدہ روبینہ بخاری کا نعتیہ مجموعہ ”اذنِ حضوری“ ہے جبکہ تیسری کتاب رانا محمد شاہد کے کالموں اور مضامین پر مشتمل ”شہاب فکر“ ہے۔  یہ تینوں کتابیں نسبتاً نوواردانِ ادب کی ہیں تاہم ان میں نئے خیالات اور نئی تجلیات کا سامان بھی موجود ہے۔

چند دن پہلے جب مجھے رشید سندیلوی کا پیغام ملا کہ انہیں پتہ بھیجوں وہ اپنی کتاب ارسال کرنا چاہتے ہیں تو مجھے اندازہ نہیں تھا وہ کتاب کیا ہے۔ تاہم جب کتاب ملی تو معلوم ہوا یہ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ”حیرت“ اور ”معمول“ کے نام سے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ تیسرا مجموعہ ”معکوس“ اگرچہ ضخیم نہیں اور صرف 112صفحات پر مشتمل ہے، تاہم اس میں شامل غزلیں پڑھ کر مجھے یوں لگا جیسے غزل کے ایک نئے ذائقے سے ہمکنار ہو رہا ہوں۔رشید سندیلوی نے زیادہ تر مختصر بحر استعمال کی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی غزل میں خیال و معانی کا ایک جہانِ نو آباد ہے۔ انہوں نے یہ بتا کر حیرت زدہ کیا ہے کہ شاعری گویا ان پر ٹوٹ کر برسی ہے اور صرف دو سال کے عرصے میں وہ تین شعری مجموعے سامنے لے آئے ہیں۔ شاعری کا یہ نزول بھی ایک برکت ہے جو نصیب والوں کے حصے میں آتی ہے۔ غزل کی صنف میں شاعری کرنا کم از کم پر اردو شاعر کی مجبوری ہے کہ اس کے بغیر ان کی شاعری کی اقلیم قائم نہیں  ہوتی۔ اسی لئے یہ بہت مشکل بھی ہے کہ غزل کے بحرِ بے کراں میں کوئی نیا شاعر اپنی پہچان بنا سکے۔ میں یہ بات لگی لپٹی بغیرکہہ رہا ہوں کہ رشید سندیلوی کی غزل میں ایک نیا پن ہے۔طرز احساس تو بالکل ہی اچھوتا ہے جو قاری کو متاثر کئے بنا آگے نہیں بڑھتا۔ رشید سندیلوی نے ابتداء میں لکھا ہے بنیادی طور پر انہوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہر غزل تین اشعار پر مشتمل ہوگی لیکن معروف شاعر ضمیر قیس کے مشورے پر انہوں نے ہر غزل پانچ اشعار کی کہی۔ یوں گویا اس مجموعے کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ ہر غزل میں پانچ اشعار ہیں۔ ان کی غزلوں کی روانی بتاتی ہے کہ وہ چاہتے تو ہر غزل کو پانچ اشعار سے زیادہ بھی کہہ سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ رشید سندیلوی کے پہلے دو مجموعے تو میری نظر سے نہیں گزرے تاہم یہ تیسرا مجموعہ اس امر کی گواہی ہے کہ پہلے مجموعے بھی اسی معیار کے ہوں گے، سادگی، سلامت، روانی اور تغزل ان کی غزل کا طرۂ امتیاز ہے۔ بہت خوبصورت مضامین بڑی سادگی سے باندھے ہیں، دو اشعار دیکھئے۔

میرا وجود اوڑھے ہوئے تھے تمام لوگ

جس اجنبی زمیں پہ اتارا گیا مجھے

پہلے پہل تو اس نے محبت سے بات کی

پھر یوں ہوا کہ زہر سے مارا گیا مجھے

شیخوپورہ میں مقیم شاعرہ سیدہ روبینہ بخاری ایک گھریلو خاتون ہیں۔ ان کی شاعری کا سفر تین دہائیوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے نظم و غزل کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی ہے، تاہم پہلا مجموعہ ”اذنِ حضوریؐ“ حمد و نعت کا شائع کیا ہے۔ شاعروں کی واہ واہ سے بے نیاز روبینہ بخاری سچے اور کھرے جذبوں کے ساتھ شعر کہتی ہے انہوں نے اس مجموعے میں شامل حمد و نعت کو جس سلیقے اور قرینے سے کہا ہے، اس سے ان کی قادرالکلامی کا پتہ چلتا ہے۔ نعت گوئی ایک بہت نازک اور مشکل فن ہے۔اس میں حد ادب اور احترام و عقیدت کی بہت باریک سطحوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ سیدہ روبینہ بخاری کی نعتیں جہاں جذب و شوق کے خمار میں ڈوب کر لکھی گئی ہیں، وہاں ان میں اظہار عقیدت کے ایسے نئے زاویے بھی ملتے ہیں،جو ان کی نعت کو منفرد بنا دیتے ہیں، ان کی نعت کے بارے میں معروف شاعر اشرف نقوی لکھتے ہیں ”وہ ایک ایسی شاعرہ ہیں جن کے نعتیہ اشعار میں رسول اکرمؐ سے عقیدت اور محبت فراوانی کی حد تک موجود ہے۔ اللہ کے گھر کی حاضری اور درِ رسولؐ کی زیارت کی تڑپ  ان کے اشعار میں بہت فراواں ہے۔ عقیدت و محبت کے ساتھ ان کی نعت میں غزلیہ روایت اور اسلوب سے جڑی ہوئی نعت کی خوشبو موجود ہے“۔ ان کی نعت کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:

لکھوائی مجھ سے نعت عطائے حضورؐ نے

عزت مری بڑھائی ثنائے حضورؐ نے

دینِ محمدی نے سکھائیں محبتیں 

نفرت کے سب الاؤ بجھائے حضورؐ نے

رانا محمد شاہد ایک جوان فکر لکھاری ہیں۔ ان کا تعلق بورے والا سے ہے۔ ”شہابِ فکر“ ان کے مضامین اور کالموں کا مجموعہ ہے۔یہ بڑی حوصلہ افزاء بات ہے کہ نوجوانوں میں لکھنے کا رجحان موجود ہے اور وہ اچھا لکھنے کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں۔ اچھا لکھنے کے لئے سب سے بنیادی بات تو یہی ہے کہ انسان مطالعہ کرے جب تک اس کی اپنے عصری ادب پر نظر نہیں ہوگی اور دوسری طرف اسے روایت کا شعور نہیں ہوگا، اس وقت تک وہ ایک مضبوط اسلوب اور روایت کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ رانا محمد شاہد کی تحریریں پڑھ کر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انہوں نے زبان پر مکمل عبور حاصل کرنے کے بعد قلم اٹھایا ہے۔ ان کے کالم اور مضامین متنوع موضوعات پر مشتمل ہیں۔ تاہم ہر جگہ ایک خاص بات پر نظر آتی ہے کہ وہ اپنی نثر کو سادہ اور سہل رکھتے ہیں، بوجھل نہیں ہونے دیتے۔ کالموں اور مضامین میں بہت تھوڑا فرق ہوتا ہے، رانا محمد شاہد نے اس فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا ہے۔ ان مضامین ان کی یادوں کے جھروکوں سے جھانکتی تحریریں بھی ہیں۔ جو قاری کو ایک خاص دنیا میں لے جاتی ہیں۔ ان کے کالموں میں ایک تنقیدی نگاہ ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہے۔ وہ معاشرے کے تضادات اور دو عملیوں کو بھی اپنے قلم کا نشانہ بناتے ہیں۔ تاہم ان کے لہجے میں کہیں تلخی نظر نہیں آتی بلکہ بڑے تحمل سے وہ اپنی بات کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ طنز کا تیر بھی چلاتے ہیں تو اسے دلآزاری سے دور رکھتے ہیں۔ ایک عمدہ اور بامعانی نثر لکھتے ہیں انہیں جو کمال حاصل ہے وہ ان کے اس شعبے میں روشن مستقبل کی دلیل ہے۔ کتاب  180 صفحات پر مشتمل ہے اور خوبصورت گیٹ اپ میں شائع کی گئی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -