شوکت صدیقی: چیف جسٹس کی آزمائش

شوکت صدیقی: چیف جسٹس کی آزمائش
شوکت صدیقی: چیف جسٹس کی آزمائش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یاد پڑتا ہے، امام شافعیؒ نے اجماع (ذرا دیر کے لیے جمہوریت کے قائم مقام سمجھ لیجئے) کے بارے میں جو لکھا ہے اس کے لیے آبِ زر بھی ذرا کم ترہی سمجھ لیجئے۔ لکھتے ہیں، اجماع کے عمل میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں، اس کے لیے اہل ماہرین علم و فن (مجتہدین امت) کی رائے ہی حرف اوّل و آخر سمجھی جائے گی۔ اس عمل میں موقع کی مناسبت سے سال بھی لگ سکتا ہے اور صدیوں کا سناٹا بھی گاہے کم پڑ سکتا ہے۔ پھر ایک دن لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آج اس فلاں مسئلے پر امت مسلمہ کے مجتہدین کا اجماع ہے۔ ذرا ٹھہر جائیں! مت سمجھ لیں کہ یہ کام مجتہدین کے کسی خود ساختہ کلب میں ہوتا ہے جس میں صرف یہی پوِتّر طبقہ حصہ لے سکتا ہے۔ مجتہدین کے کسی نتیجہ خیز ثمرہ کو ہم اجماع اسی وقت کہیں گے جب ان کی رائے عامۃ الناس میں قبولیت بھی حاصل کرے۔ اگر ان تمام علما و مجتہدین کی اس قیمتی رائے کو عوام میں پذیرائی نہ ہو تو اسے نہ تو اجماع کہا جائے گا اور نہ اس پر عمل کی وہ شکل ہو گی جو اجماع کے لیے درکار ہوتی ہے۔ ذرا دوسرے الفاظ میں بس یہی اسلامی قانون اور یہی اسلامی جمہوریت ہے۔

یہ ایک نہایت پیچیدہ اور دماغ سوزی سے معمور بحث ہے۔ اس اخباری تحریر میں اس پر مزید لکھنا ممکن نہیں ہے۔ اس بحث سے حاصل نکتے کو ہم قانون اور عدالتی دائرے تک پھیلا سکتے ہیں۔ پھیلا سکتے ہیں بھلا کیا مطلب؟ یہ تصور ذرا دوسرے الفاظ میں عامۃ الناس کی زبان پر پہلے سے موجود ہے۔ اس عام سے فقرے سے بھلا کوئی واقف نہیں ہے کہ ’’عدل نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔‘‘ اس جملے کا پہلا حصہ منصفین کے داخلی نظام سے عبارت ہے۔ سترہ کے سترہ جج کسی بابت فیصلہ کریں تو عوام اسے بھگت تو لیں گے لیکن اسے قبول شایدنہیں کریں گے۔ جسٹس منیر کے فیصلے کی صرف ایک مثال کافی ہے۔ اس کے لاشے کی سڑاند آج تک اس معطر ملک سے خارج نہیں ہو سکی۔قانونی دنیا میں کسی مسئلے پر فیصلہ سازی ججوں کا کام ہوا کرتا ہے عوام کا نہیں۔ اسلامی قانون کے قائم مقام یہاں یہ جج حضرات مجتہدین قانون کہلا سکتے ہیں۔ ان سترہ کے سترہ ججوں نے کوئی متفقہ فیصلہ کر لیا تو اسے اجماع مجتہدینِ قانون کہنے میں کوئی امر مانع نہیں۔ لیکن یہاں بھی ذرا ایک دفعہ پھر آپ کو ٹھہرنا پڑے گا۔ قانونی دنیا میں بھی وہی اصول ذرا دوسرے الفاظ لیکن انہی تصورات کے ساتھ موجود ہے۔

یہاں بھی اس اصول کے وہی دوہی حصے ہیں:Not only must justice be done ’’لازم ہے کہ انصاف نہ صرف ہوبلکہ ۔ ۔ ۔‘‘ یہ پہلا حصہ مجتہدین قانون یعنی سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کے لیے ہے کہ وہ کٹہرے میں کھڑے شوکت صدیقی سے انصاف کریں۔ وہ انہوں نے بزعم خود کر دیا اور محض ایک دن میں کر دیا۔ اپنے حساب میں وہ شاداں و فرحاں ہوں گے کہ انہوں نے انصاف کے تقاضے کما حقہم پورے کر دیے۔ ان کا کام ختم ہو گیا۔ پھر رک جائیے! مذکورہ بالا اصول کا دوسرا حصہ عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ It must also be seen to be done ’’یہ بھی لازم ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔‘‘ کس کو نظر آئے؟ انہی ججوں کو؟ ہرگز نہیں۔ اب اس کا فیصلہ دیکھنے، سننے ، پڑھنے والے عوام کریں گے۔ جناب چیف جسٹس صاحب ! یہ فیصلہ بار میں بیٹھے وکلا کریں گے، قانون پر تحقیق کرنے والے محققین کریں گے، میں کروں گا، میرے قارئین کریں گے،آپ نہیں کریں گے۔آپ کا اختیارآپ کے فیصلے کے بعدختم ہو گیاہے۔


شوکت صدیقی کے خلاف یہ فیصلہ، پورے عدالتی احترام کو ملحوظ رکھ کر لکھنا پڑتا ہے کہ، متعدد قانونی تقاضوں سے خالی ہے۔ ایک دفعہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنے آئینی اختیار کے سہارے صوبائی اسمبلی توڑ دی تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ابھی تو وزیراعلیٰ نے اس اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کیا ، لہٰذا ان کا اسمبلی تحلیل کرنا خلافِ آئین ہے۔ عدالت نے اصول یہ وضع کیا کہ اختیار کے بغیر اختیار استعمال نہیں ہو سکتا۔ معمولی دفتری پس منظر رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ کسی سلیکشن بورڈ کے سامنے کوئی ایسا امید وار آ جائے جس کی کسی بورڈ ممبر سے رشتہ داری ہو تو وہ ممبر بورڈ سے باہر نکل جاتا ہے۔ یوں باقی افراد آزادانہ رائے دے کر اس امیدوار سے انصاف کرتے ہیں۔

ادھر سابق جسٹس شوکت صدیقی کے معاملے میں تو صورت یہ رہی کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس ثاقب نثار کے اپنے خلاف ایک دو نہیں پورے پانچ ریفرنس بغرض سماعت منتظر ہی رہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پہلا ریفرنس دائر ہوتے ہی موصوف تمام عدالتی اختیارات سے خود کو سبکدوش کر کے اپنے آپ کو کونسل کے حوالے کر دیتے۔ مہذب معاشروں میں صاحبان اختیار کے دامن پر ذرا داغ لگ جائے تو قانون حرکت میں آئے یا نہ آئے، ان افراد کا ضمیر ہی انہیں کچوکے دیتا رہتا ہے۔ اسی کونسل کے ایک اور معزز رکن کے خلاف یہ ایف آئی آر اب بھی موجود ہے کہ انہوں نے قومی پرچم جلایا تھا۔ سابق جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف کونسل کے ان دونوں معزز ارکان کو چاہیے تھا کہ وہ اس کونسل کا حصہ ہرگز نہ بنتے، الگ ہو جاتے۔


شوکت صدیقی کے خلاف اس فیصلے میں ایک بڑا سقم یہ ہے کہ کونسل نے تقدیم و تاخیر کے اصول کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ زمانی ترتیب (Chronologically) سے کونسل کے سامنے سے پہلا ریفرنس لے کر اس کا فیصلہ کیا جاتا۔ پھر اس کے بعد والے ریفرنس کو نمٹایا جاتا۔ یہاں تو یہ صورت رہی کہ ہماری اعلیٰ عدالتوں کے کئی ججوں کے خلاف ریفرنس دائر ہوئے، یہ ریفرنس کونسل کے سامنے پڑے رہے حتیٰ کہ وہ جج پوری مراعات، پوری آب و تاب اور پوری شان و شوکت کے ساتھ ریٹائر ہو گئے لیکن ان کے خلاف کچھ نہ ہوا۔ ہم میں سے کون ہے جو ایک آزاد عدلیہ کے پلڑے میں اپنی رائے نہ ڈالے گا؟ لیکن کیا آزاد عدلیہ کا یہ تصور ہے کہ لوگ یہ تاثر لیتے رہیں کہ عدلیہ کے اندر عدل کی بجائے دھڑے بندی ہے؟ جو دھڑا قوت و اختیار رکھتا ہے اس کے ارکان چاہے قومی پرچم جلائیں، چاہے ثاقب نثار کی طرح پورا نظامِ عدل ڈیم کے نام پربرباد کر کے رکھ دیں ، کوئی ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتا؟ دوسری طرف کمزور دھڑے کا کوئی فرد بقول اس کے اپنے حق کی بات کرے، نظام عدل کے بچاؤ کی خاطر اپنے آپ کو داؤ پر لگا دے تو پورا نظامِ عدل اس کے خلاف حرکت میں آ کر صرف ایک دن کی سماعت کے بعد اسے نشانِ عبرت بنا دے؟ عقلِ عام کا تقاضا تھا کہ شوکت صدیقی کے الزامات کی مکمل چھان بین کر کے انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔

یہ صرف ایک دن کی سماعت کے بعد کونسل نے خود اپنے ایک معزز فرد کے خلاف انتہائی عجلت میں جو فیصلہ سنایا ہے، اس کی بابت بار روموں اور قانونی حلقوں میں توکچھ اور ہی سننے کو مل رہا ہے۔ جناب چیف جسٹس صاحب یہ سارا منظر ایوان ہائے عدل کے اندر دھڑے بندی کا تاثر دے رہا ہے جو آزاد عدلیہ کے لیے بے حد خطرناک ہے۔ امید کی کرن ابھی باقی ہے۔ شوکت صدیقی نے عدالت عظمیٰ میں اپیل کر رکھی ہے اور اس پر سے رجسٹرار کے اعتراضات دور ہو گئے ہیں۔ تو کیا امر مانع ہے اس مقدمے کی سماعت میں؟ ایک عام فرد کے طور پر جب میں گزشتہ چند سالوں کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے ہر اس مقدمے میں افراتفری کے ساتھ سماعت نظر آتی ہے جس سے ملک کی چولیں ہل کر رہ جاتی ہیں اور جہاں عدالت میں کوئی دھڑا برسراقتدار ہو تو اسے ہر ہر سہولت دی جاتی ہے یا وہ اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر بیٹھتا ہے۔ صرف ثاقب نثار کے خلاف پڑے پانچ ریفرنس کی مثال کافی ہے۔


جناب چیف جسٹس صاحب بہت سے دیگر قابل توجہ مقدمات کو ذرا دیر کے لیے ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن دو مقدمے ایسے ہیں جنہوں نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ایک مقدمہ تو بجائے خود ملک توڑنے کے دیگر اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔ جسٹس منیر اگر انتظامیہ کا ساتھ نہ دیتے تو ملک بحسن و خوبی چل رہا تھا، چلتا رہتا۔ سیاست دان اپنی تمام بداعمالیوں کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل مل جل کر حل کر لیتے ہیں۔ اس پہلے مثالی مقدمے کے عدالتی فیصلے نے ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔ کیا اس فیصلے کے وقت یا آئندہ دس سال تک کسی کو احساس تھا کہ ملک کس کھائی کی طرف لڑھک رہا ہے؟ دوسرا مقدمہ بھٹو صاحب کا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو ہمالیہ روئے گا۔ جج صاحب! ہندوستان پاکستان اپنے مسائل بڑی خوش اسلوبی سے اس شخص کی خواہش کے مطابق حل کی طرف لے جا رہے تھے۔

آج ملک جن دو متحارب کیمپوں میں بٹا ہوا ہے، ذرا غور کریں کیا ان دونوں کیمپوں کی بنیاد بھٹو کے خلاف ایک جج کی اکثریت کے ساتھ سنایا جانے والا فیصلہ نہیں ہے۔ یہ وہ دو عدالتی فیصلے ہیں جن کے باعث ملک آج بھی زلزلوں کی لپیٹ میں ہے۔ شوکت صدیقی کا مقدمہ، مجھے لگتا ہے، اگر اس کا حتمی فیصلہ وہ آیا جس میں انصاف تو شاید ہو جائے، انصاف ہوتا نظر نہ آیا تو بربادی گویا لکھ دی گئی ہے۔ جس عدلیہ کو بچانے کی خاطر شوکت صدیقی نے اپنے آپ کو داؤ پر لگایا تھا اس عدلیہ کے دیگر ارکان کی اتنی ذمہ داری تو بنتی ہے کہ آزاد عدلیہ کی خاطر قربانی دینے والے اس جری شخص کے کندھے کے ساتھ کندھا نہ ملائیں پر اس کے کہے ہوئے پر ذرا غور تو کر لیں۔ شوکت صدیقی سے میری کسی طرح کی کوئی جان پہچان تعلق واسطہ مطلقاً نہیں ہے۔ مجھے ان کی متعدد آرا سے اختلاف بھی ہے لیکن اس وقت آزاد عدلیہ میرے پیش نظر ہے، شوکت صدیقی نہیں ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ شو کت صدیقی کے تمام الزامات کی حرف بحرف تصدیق سپریم کورٹ نے اپنے 6 فرو ری کے فیصلے میں کر کے متعلقہ اداروں کو حکم دیا کہ حلف کی پاسداری نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں؟ شوکت صدیقی نے بھی تو حلف کی خلاف ورزی ہی کا الزام لگایا تھا۔ کیا مزید چھان بین کی کوئی ضرورت ہے؟ امید ہے نئے چیف جسٹس صاحب شوکت صدیقی کے ساتھ وہی انصاف کریں گے جو ہم سب کو ہوتا ہوا نظر بھی آئے نہ کہ محض انصاف، محض وہ انصاف جو مولوی تمیزالدین او ر بھٹو کے ساتھ ہوا تھا اور ملک کو کرچی کرچی کر دیا گیا تھا۔ اب اگر انصاف، بالخصوص عدلیہ کے ایک اپنے فرزند کے ساتھ، ہوتا ہوا نظر نہ آیا تو کون سی عدلیہ اور کون سا انصاف؟ ۔۔۔ Not only must justice be done, it must also be seen to be done. ۔۔۔’’لازم ہے کہ انصاف نہ صرف ہوبلکہ یہ بھی لازم ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔‘‘

مزید :

رائے -کالم -