ہم سب کی پریشانی کا وہ سبب جو ہم یاد نہیں رکھنا چاہتے
ہم کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ اس پہلو پر سوچیں کہ کیا اللہ نے ہمیں رزق دینے کا وعدہ نہیں فرمایا۔اس پر بے یقینی ہی سب سے بڑی پریشانی کا موجب بنتی ہے۔پیسے کی ہوس میں اور اپنی اولادوں کا نسلوں تک بینک بیلنس بڑھانے،دستر خوانوں کو انواع اقسام کے کھانوں سے مزین کرکے اپنی حیثیت کا پرچار کرتے ہیں اور اللہ کے وعدے اور ہدایت کو بھول جاتے کہ ہم پر کسی اور کا بھی حق ہے۔
ہمارے رسولﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے آج تک علیؓ کے گھر 3دن مسلسل چولہا جلتے نہیں دیکھا۔ ذرا سوچئے آخر اْس گھر میں مسلسل 3دن چولہا کیوں نہیں جل سکتا، جہاں جنت کی سردار عورت اور نوجوانوں کے سردار لڑکے رہا کرتے تھے؟ اْس کی وجہ یہ تھی کہ جب حضرت علیؓ سامان لاتے تو کوئی مانگنا شروع کر دیتا اور مانگے ہی جاتا،ایک بار یوں ہوا کہ آپؓ کے پاس ایک اْونٹ رہ گیا، جس کی رسی آپؓ کے غلام کے ہاتھ میں تھی جو یہ سب منظر دیکھ رہا تھا، اْس نے جلدی سے اْونٹ کی رسّی کو چھوڑا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ حضرت علیؓ نے اْونٹ بھی اْس مانگنے والے کو دے دیا تو لوگوں نے اس غلام سے پوچھا تْو نے حضرت علیؓ کے ساتھ اتنی بدتمیزی کی کہ اْونٹ کی رسّی چھوڑ کے بھاگ گیا تو اس پر غلام نے جواب دیا کہ اس وقت حضرت علیؓ کا دینے کا دل تھا اور جب علیؓ دینے لگتے ہیں تو اس وقت ان کا ہاتھ کوئی نہیں روک پاتا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں علیؓ مجھے بھی نہ دے دیں۔
سبحان اللہ! کیا مثال ہے اور ہم لوگ علی?ؓ سے محبت کادَم تو بہت بھرتے ہیں لیکن جب دینے کی باری آتی ہے تو مولاعلیؓ کی پیروی نہیں کرتے بلکہ مختلف حیلے بہانے کے ساتھ بھاگنے لگتے ہیں اور مختلف دلائل پیش کرتے ہیں کہ یہ تو ہم نے بینک میں رکھنا ہے کیونکہ یہ رقم ہمیں بڑھاپے میں کام آنے والی ہے۔
اب یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ اپنے مال کو کس طرف لے کر جاتے ہو، کہاں خرچ کرتے ہو، یہ سب کچھ آپ پر منحصر ہے اور آپ ہی اس کے جواب دہ ہو۔
میں آپ کو عرض کروں کہ ہمارے رزق کا ذمہ صرف خدا کا ہے۔ وہ مالک ہے، وہ رازق ہے۔ وہی سب کچھ ہے، وہی دینے والا ہے، لیکن ہمارا وہم ہے کہ ہم کام کریں گے تو ہم رزق لے لیں گے۔ یہ محض ایک وہم ہے، ایک گمان ہے، کیونکہ جب تک خدا نہ چاہے کسی کو کچھ نہیں مل سکتا۔ آپ کی عزت آپ کی صحت سب اْسی اللہ پاک کی دین ہے، لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ جب مریں گے تو خدا جب ہمیں حساب کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا تو ہم کہیں گے ’’اے میرے اللہ! میں تو معمولی سا پروفیسر تھا، ساری زندگی گھر اور بچوں کے اخراجات، بِلوں کی پریشانی میں گزار دی۔ ہر دن کی تھکا دینے والی جدوجہد کر کے میں اپنا گزربسر کرتا رہا ہوں۔ آخر اب مجھ سے اب حساب کیوں ہورہا ہے؟ اتنی مشکل زندگی گزارنے کے بعد اب آخرت میں مجھ پر کوئی ذمہ داری نہیں کہ میں حساب دوں۔ اگر حساب لینا ہے تو ان بڑے لوگوں کا لو جو میرے پہلو میں ہیں ۔جن لوگوں نے ساری زندگی عیاشی سے گزاری اور مرنے کے بعد بھی فکر نہیں کہ میں جس اولاد کو چھوڑ کر آیا ہوں اْن کا کیا بنے گا؟ میں تو اس حساب کا حق دار نہیں‘‘ لیکن ہمارا پیارا رب فرمائے گا ’’اے بندے جب میں نے تجھے صاف صاف بیان کردیا تھا کہ تیرے رزق کی ذمہ داری میری ہے تو تْو کیوں پریشانی میں رہا۔ کیوں نہ مجھ پر ایمان رکھا۔ کیوں نہ میرے بتائے ہوئے راستے پہ چلا۔ یہ تیرا فیصلہ تھا۔ تیری سوچ تھی، میں نے تو رزق دینے کا وعدہ کیا تھا ‘‘
اس پر ہم جیسے حجتی کہیں گے ’’ اے میرے ربّ! اگر سب آپ نے کرنا تھا تو مجھے دْنیا میں کیوں لائے؟ آپ خود ہی سب کر دیتے ‘‘
خدا فرمائے گا’’ تجھے اس دْنیا میں لانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک باری مرنے سے پہلے تو لاالہ الااللہ پڑھ لے اور تمہاری قبر کی مشکلیں آسان ہو جائیں‘‘
اسی طرح سے اگر ہم یہ یاد رکھیں کہ اگر اس ساری تگ ودو میں خداوند تعالیٰ کو یاد رکھیں، اْس کا شکر ادا کریں تو وہ اپنی ساری رحمتوں کو تیری جھولی میں بھر دے گا۔ تیرے لیے آسانیاں پیدا کرے گا، اس لیے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب بھی ہم کوئی نیک کام کریں تو یہ سوچ کر کریں کہ یہ ہمیں خدا کی رضا حاصل ہوئی ہے۔ اپنے ربّ کو خوش کرنا ہے۔ پھر دیکھنا اس کام میں کتنی برکت آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے مال میں کسی اور کا مال بھی رکھا ہے۔ اگر آپ اْس کا مال نہیں دو گے تو وہ مال آپ کے پیٹ میں آگ کے جیسے جلے گا۔ جو آپ کا مال ہے وہ لوگوں کی آپ کے پاس امانت ہے۔ سوچئے کہ ہمارا کیا ہو گا کہ ہم لوگوں نے کیسے اپنے مال واسباب کو سنبھال کر رکھا ہے۔ کیسے ہم لوگ دن رات ایک پیسہ جمع کرتے ہیں اور یہ بھول چکے ہیں کہ ہمارا بھی حساب ہو گا۔ ہر پیسے کا حساب ہر مال کا حساب ہو گا۔ اس بات کو دْعا کے طور پر اپنی زندگی میں شامل کرتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو رزق آپ کو عطا کیا ہے اور اس رزق میں جو دوسروں کا حصہ ہے آپ اسے ضرور عطا کریں گے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں گے۔ آمین
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔