کیا ہم اپنے تلخ وترش رویئے نہیں بدل سکتے ؟
تحریر : عمر سلطان حسین
مسجد میں جماعت کے دوران اس کا موبائل بجنے لگا...
نماز ختم ہوئی تو امام صاحب کے ساتھ ساتھ اور نمازیوں نے بھی اسے خوب ذلیل کیا.
وہ شرم سے پانی پانی ہوتا ہوا باہر نکل آیا اور خود سے ہم کلام ہوا کہ:
"میں آئندہ مسجد نہیں آؤں گا"
کچھ دن بعد اس کے دوست اسے کلب لے گئے...
وہاں اس کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹ گیا.
یہ منیجر کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ڈر گیا.
منیجر نے آتے ہی اس سے پوچھا! سر آپ کو لگی تو نہیں؟؟
یہ حیران ہوا اسے دیکھتا رہا اور مشکل سے " نہیں " کا لفظ منہ سے نکلا...
منیجر نے ویٹر کو بولا سر کو دوسرا گلاس دے دو...
پھر وه خود سے ہم کلام ہوا....
" اب میں روز کلب آیا کروں گا کلب والے تو میری عزت کرتے ہیں "
کیا ہم اپنے تلخ وترش رویئے نہیں بدل سکتے ؟
کیا ہم دوسروں کو اچھائی کی طرف راغب کرنے والے لہجے نہیں اپنا سکتے ؟
کیا ہم اپنے سے کمتر کو اچھے الفاظ سے نہیں مخاطب کر سکتے ؟
کیا ہم اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے نیکی و حسنات کی نیت سے اخلاق حسنہ کا مظاہرہ نہیں کر سکتے ؟
کیا ہم نرمی سے نہیں بول سکتے...